Mohabbat Garat Gar By Sadaf Adnan
Mohabbat Garat Gar By Sadaf Adnan
محبت غارت گر
صدف عدنان
رات کا تیسرا پہر تھا سونیا کو اپنے بالوں میں کسی کے انگلیاں پھیرنے
کا لمس محسوس ہوا اور اس کی آنکھ کھل گئی ۔۔
"منصور اگیا " ہوا کی
سرسراہٹ کو محبوب کالمس سمجھ کر وہ چاروں طرف دیکھنے لگی مگر وہاں اس کے سوا کوئی نا
تھا۔۔۔
وہ دیوانہ وار باہر صحن کی
طرف بھاگی آسمان پہ چودھویں کا چاند ہلکی سی چھب دکھا کے بادلوں کی اوٹ میں چھپ گیا۔
وہ دیوانہ وار صحن کے ایک
کونے سے دوسرے کونے کا چکر کاٹنے لگی ۔۔
"میرے محبوب!! یوں نا روٹھو
ایک جھلک دکھلا جاؤ" وہ نظریں آسمان کی طرف کیے بےقراری سے ہولی۔۔
رات کے اس پہر اس کی دیوانگی
سب کی نگاہوں سے اوجھل تھی ۔۔
یک دم وہ بھاگتے بھاگتے صحن
میں گر گئی۔ اس کے ماتھے سے خون کی ایک لکیر سی بہنے لگی۔۔
جس کو چھوتے ہی اسے ایک ایسا
ہی دن یاد آیا جب وہ منصور کے پیچھے اپنی وفا کا یقین دلانے کو بھاگ رہی تھی اور راستے کے پتھر سے ٹکرانے سے ماتھے سے
خون بہہ نکلا تھا۔۔
" تم جھوٹی ہو تمھاری کسی بات
کا کوئی اعتبار نہیں مجھے" سر اٹھانے پہ وہ قریب آ کے بےاعتبار لہجے میں بولا
تھا
وہ جو اس کے نرم لہجے کی عادی
تھی
اس کے لگاوٹ بھرے انداز کی شیدائی تھی
اسکے مخمور لہجے اس کے جینے
کا آسرا تھے
وہ سب سراب کی صورت اس کی
نگاہ سے اوجھل ہوتاجا رہا تھا ۔۔
اسکے ماتھے سے بہتے خون کو
بھی ڈرامہ قرار دیتے ہوئے وہ اسے وہیں چھوڑ کر چلاگیا۔
دل میں رہ کر دل کے زخموں
سے نا آشنا رہنے والوں کو جسم کے زخم کب دکھتے ہیں ۔۔
سونیا کو اس حال پہ پڑا دیکھ
کر اس کی دوستوں نے اسپتال پہنچادیا۔۔۔
اسپتال میں اس کے ظاہری زخموں کا علاج کر دیا گیا مگر روح کے
زخم ناسور ہی بن گئے۔۔
پہلے وہ مسکرانا بھول گئی
اس کی ہنستی آنکھیں کسی نادیدہ
منظر میں الجھ کر اپنی چمک بھول بیٹھیں۔۔
اس کے لب صرف ایک ہی نام دہرانے
لگے ۔۔
آہستہ آہستہ سارے رشتے سارے
تعلق اس کے لیے بے معنی ہوگئے
اس کے جذبوں کو جھوٹ کہہ کر
اس کے محبوب نے ٹھکرا دیا اور اسنے زندگی کو۔۔۔
وہ ایک تصوراتی دنیا
کی عادی بن گئی۔ ہر وقت منصور کے خیالوں کی دنیا میں کھوئی رہتی۔۔
سوچتی تو بس یہی سوچتی کہ صحرا میں کبھی بارش برسے گی۔ زمین
کی گود سے محبت کی کونپلیں پھوٹیں گی۔ کب ہو گا ایسا ؟؟؟
جب وہ آئے گا۔۔۔۔
تصور میں جذبات کی تپش میں جل کر جاوید کو پکارتی تو پکارتی
ہی جاتی کہ جیسے ابھی کہیں سے آواز دے کر اسے تھام لے گا۔
جیسے ابھی کہیں سے اس کی آواز
کانوں میں گونجے گی اور وہ جی ہی اٹھے گی۔۔
اس کے تصور میں پھولوں کی پتیوں میں خود کو نہلا کر رہتی۔
گجرے ہاتھوں میں پہن کر اس کے آنے کی آس لگائے رہتی تھی۔ اس
کے دل میں یہ حسرتیں پھوٹتی رہتیں تھیں کہ کہیں سے وہ آجائے اور وہ اس کی تعظیم میں
سر کو جھکا لے۔
خود کو سمیٹ لے
اس کے حکم پہ زبان کو پیوند لگائے کہ کبھی کوئی لفظ اس کی اجازت
کے بنا منہ سے نہ نکلنے پائے۔
محبت نے غارت گر بن کر اس
کا سب چھین لیا
وہ اس سراب سے کبھی نہیں نکل
سکی کیونکہ وہ ایک پاگل٫ مدہوش اور نازک مزاج سی لڑکی تھی۔
جو خوشیوں سے بھی ڈرتی تھی۔
اور غموں سے بھی دہل جاتی تھی۔
محبت اسے لاحاصل کے روپ میں ہی ہوئی تھی۔ لیکن پھر محوِ عشق
جو دل ہوا۔۔۔
سارا دن گھر کے صحن میں درخت سے اس کا ایک پیر زنجیر سے بندھا رہتا اور رات کے وقت وہ چاند میں اپنے محبوب کو تلاشتی رہتی۔۔۔۔۔
اختتام