Rasool e Akram (s.a.w) Bator Tajir Written By Raheel Qureshi

Rasool e Akram (s.a.w) Bator Tajir Written By Raheel Qureshi

Rasool e Akram (s.a.w) Bator Tajir Written By Raheel Qureshi

حضور اکرم ﷺ    بطور تاجر

اطاعتِ رسولﷺ اگر رہنما نہ ہو تو مسافر پر کبھی رستہ نہیں کھل سکتا۔رسول اکرمﷺ کی ولادت کے مبارک موقع پر انسانیت کے خزاں رسیدہ گلشن میں ایمان کی بہار آئی۔ شریعت اسلامیہ میں معاملات اور تجارت کے احکام کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔دین اسلام نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے اور تمام مسلمانوں کا اس کی حرمت پر اتفاق ہے۔ حضور اکرم ﷺ اور ان کے اصحاب کی سیرت کا مطالعہ کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ اعلان نبوت سے پندرہ بیس سال قبل تجارت سے وابستہ تھے اور صادق اور امین کے لقب سے مشہور تھے۔دنیا کے کسی مذہب نے معیشت اور تجارت کو وہ مقام اور اہمیت نہیں دی جو دین اسلام نے دی ہے۔ اسلام تجارت کے ان طریقوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جس میں خرید و فروخت کرنے والوں کے درمیان کسی قسم کا دھوکا نہ ہو اللہ کے رسول ﷺ نے خود تجارت کی ہے اور اسے پسند فرمایا ہے۔رزق حلال معاش کے لیے مختلف اصول وضع فرمائے کہ دھوکے سے خراب مال بیچنا، جھوٹی بولی دینا، تجارتی مال پر اجارہ داری قائم کرنا، نماز جمعہ کے اوقات میں تجارت کرنا، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، رشوت لینا اور دینا، جوا اور لاٹری سسٹم، سودی کاروبار کرنا وغیر ہ سب حرام اور ناجائز قرار دیا۔جن کی بنیاد پر کی گئی کمائی میں انسان کے لیے برکت و رحمت نہیں ہوتی۔جبکہ تقوی، احسان، ایثار، عدل، اخوت، تعاون، توکل، قناعت اور مساوات پر عمل پیرا ہونا باعث برکت قرار دیاگیاہے۔یہ اسلامی نظام معیشت کی ایک جھلک ہے۔

ہمارے رسول اکرمﷺ کی ذات گرامی تمام صفات کمالیہ کی جامع تھی۔رسول اکرمﷺ نے بچپن میں بکریوں کو چرایا اور بڑے ہو کر تجارت کی، حافظ ابن کثیر البدایہ و النہایہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے نبوت سے پہلے بارہ سال تجارت کی تھی اور اسے، اس قدر ترقی اور وسعت دی کہ آپ ﷺ کا مال ِ تجارت شام، یمن، حبشہ، بحرین وغیر ہ کی زبردست منڈیوں میں بکنے کے لیے جایا کرتا تھا۔ اس سللسہ میں دو مرتبہ ملک شام کی طرف آپ ﷺ نے بہ نفس نفیس سفر بھی کیا۔ ابو داؤ د میں حضرت سائب فرماتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ اعلان نبوت سے پہلے میرے ساتھ شریک تجارت تھے، معاملہ ہمیشہ نہایت صاف رہتا۔ اس طرح نبوت کے بعد بحرین سے وفد عبدالقیس آیا تو آپ نے اس سے اپنی تجارت کا حال بیان کیا، کہ میرا مال تمہاری منڈیوں میں جایا کرتا تھا۔غرض عملی حیثیت سے بھی آپﷺ نے اس کو بڑی اہمیت دی اور تجارت کر کے بھی بتا دیا، لیکن قولی حیثیت سے بھی آپﷺ نے تجارت کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے، چناچہ حلال روزی کی طلب کو جہاد بتایا گیا ہے۔(مسند احمد)

نبی کریم ﷺ نے بطور تاجر معاشی مسائل کے حل کے لیے تمام مسلمانوں کو بھائی بھائی بنا دیا اور انصار مدیینہ نے مہاجرین کو اپنے گھر، زمین، کاروبار میں حصے دار بنا لیا اور ایک دوسرے کے لیے کئی قربانیاں دے کر معاشرے میں موجود طبقاتی و معاشی فرق کو یکسر ختم کر دیا۔انصار و مہاجرین کے درمیان اس بھائی چارے کو مواخات مدینہ کا نام دیا گیا۔آپﷺ نے تجارت کی غرض سے شام کی طرف پہلا سفر 12 سال کی عمر میں حضرت ابو طالب کے ساتھ کیا یہ سفر بحثیت تاجر نہیں تھا مگر اس سفر میں آپﷺ نے تجارت کے تمام اسرار و رموز ضرور سیکھے۔ زندگی کے دوسرے سفرمیں آپﷺ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سامان تجارت کے لیے لے کر گئے۔ اس سفر آپﷺ شام کی مشہور منڈی بصرہ تشریف لے گئے۔آپﷺ کا یہ سفر بحثیت تاجر تھا۔ اس تجارتی سفر میں بہت منافع ہوا۔صدق و امانت جیسی صٖفات نے تاجروں کو آپ کی طرف مبزول کیا۔نبی کریمﷺ نے فرمایاکہ تین آدمی جن پر جنت کی خوشبو حرا م ہے۔ ایک ”المنان“ وہ آدمی جو کسی کے ساتھ احسان کر کے جتلائے یعنی کسی کی مشکل میں کام آیا اور اس کے ساتھ نیکی کی لیکن بعد میں کسی موقع پر جتلا بھی دیا کہ میں نے فلاں وقت تمہارے ساتھ یہ نیکی کی تھی۔ قرآن کریم میں ہے کہ جتلانے کے ساتھ نیکی برباد ہو جاتی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا ایسا شخص جنت کی خوشبو نہیں سونگھے گا۔ دوسرا اس آدمی کے متعلق فرمایا ”مد من الخمر شراب“ پر دوام کرنے والا، یعنی شرابکا عادی شخص جنت کی خوشبو نہیں سونگھے گا۔ تیسرے آدمی کے متعلق فرمایا ”المنفق سلعتہ بالحلف الکاذب“جھوٹی قسم اٹھا کر سودا بیچنے والا یعنی ایسا شخص بھی خوشبو نہیں سونگھ پائے گا جو جھوٹی قسم کے ذریعے اپنے گاہکوں کو اعتماد دلا کر خراب مال بیچتا ہے۔

آپ ﷺ نے لین دین میں مجبور اور تنگ دست لوگوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرنے کی ترغیب اور صاحب حق کو اس کے حق سے زیادہ حق دینے کی ترغیب اور صاحب حق کو اس کے حق سے زیادہ حق دینے کی تاکید کی ہے۔رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ”اے تاجروں کی جماعت تم کو قیامت کے دن فاجر بنا کر اٹھایا جائے گا مگر یہ جس نے اللہ کے ڈر،سچائی اور بھلائی کے ساتھ تجارت کی۔ایک دفعہ رسول اکرمﷺ جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اچانک کسی نے باہر سے آکر آواز لگائی کہ تجارت کا قافلہ آگیا ہے۔ اب ہر ایک کو فکر لاحق ہوئی کہ اگر دیر ہو گئی تو قافلے کا سارا سامان شام تک بک جائے گا اور میر ے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔پھر اگلے قافلے کا انتظار کرنا پڑے گا جو کہ ایک صبر آزما کام ہو گا۔ لوگوں کو یہ خدشہ تھا کہ یہ قافلہ اگر نکل گیا تو اگلہ قافلہ دو چار مہینے کے بعد آئے گا اور یوں انہیں مقامی لوگوں سے مال خریدنا پڑے گا جو مہنگا دیں گے یا معلوم نہیں مال کی مطلوبہ مقدار بھی ان سے ملتی ہے یا نہیں۔ انسانی فطرت ہے کہ انسان اپنا مفاد دیکھتا ہے چناچہ ایک ایک کر کے لوگ اٹھنا شروع ہو گئے۔ رویات میں آتا ہے کہ مجمع میں گیارہ آدمی رہ گئے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید کی سورۃ جمعہ میں اس کی تنبیہ فرمائی کہ جب لوگ تجارت یا تماشہ دیکھتے ہیں تو اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہوا چھوڑ جاتے ہیں، کہ وہ جو اللہ کے پاس ہے وہ تماشے اور تجارت سے کہیں بہتر ہے اور اللہ بہتر روزی دینے والا ہے۔فرمایا پہلے اطمنان سے نماز پڑھو اور پھر نماز کے بعد تجارت کرو۔ویسے بھی جمعہ کی اذان سے لے کر نماز کے اختتام تک تجارت کے لیے ممنوع وقت ہے۔

رسول اکرم ﷺ کی آمد سے قبل عربوں میں سود کا کاروبار عام تھا۔ اسلام امن و سکون اور سلامتی کا نام ہے اس لیے اس نے سب سے پہلے سود کے نظام کو حرام قرار دیا۔8ہجری میں سود کی حرمت کا جو حکم ہوا ہے سود کا مطلب ہے زیادتی۔کیونکہ اس کے اصول ہی ظلم و زیادتی پر مبنی ہیں۔رسول اکرمﷺ نے سود لینے اور دینے والے، سودی حساب لکھنے والے اور سودی شہادت دینے والے سب پر لعنت فرمائی ہے سود لینے اور دینے والے پر رسول اکرمﷺ کی لعنت کے الفاظ حدیث کی کتابوں میں واضح ہیں۔سورۃ البقرہ میں سود کی حرمت واضح ہے اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خریدو فروخت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ مزید سورۃ البقرہ میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔

ہجرت کے بعد جب مسلمانوں کی ایک الگ ریاست مدینہ قائم ہوئی اور مسلمانوں کو ہر قسم کی مذہبی اور معاشی آزادی نصیب ہوئی تو جہاں بحثیت سربراہ مملکت رسول اکرمﷺ نے ریاست مدینہ کو باقاعدہ تشکیل فرمائی وہیں رسول اکرمﷺ نے تجارت کے سلسلے میں بازاروں کی طرف بھی خصوصی توجہ فرمائی تاکہ مسلمان معاشی طور پر مضبوط ہو سکیں۔ جب بازاروں اور مارکیٹیں قائم ہو گئیں تو رسول اکرمﷺ نے ان بازاروں اور مارکیٹوں میں کاروبار کرنے والوں اور خصوصامسلمانوں کے لیے تجارتی اصلاحات فرمائیں تاکہ اسلامی ریاست میں کوئی ظالم نہ بنے اور نہ ہی کوئی مظلوم ہو۔

رسول اکرمﷺنے نبوت کے بعد بھی تجارت کا خیال نہیں چھوڑا۔ رسول اکرمﷺ تاجروں کے ساتھ اپنے حصہ رکھ لیتے تھے۔ اپنے دوستوں کو ترغیہب دلاتے، تجارت کے اصول بتاتے، تجارت کے فضائل ان کے ذہن نشین کراتے رہتے۔ چنانچہ یہ وجہ تھی کہ جو شخص آپﷺ سے جتنا قریب ہوتا وہ تجارتی دنیا میں اتنا ہی مشہو ر ہو جاتا تھا۔رسول اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے تمام کاموں میں جس قدر خیر و برکت تقسیم کی ہے اس کا 99 فیصد حصہ صرف تجارت میں رکھا ہے۔ اس لیے تمہیں تجارت کرنی چاہیے کہ تجارت ہی سے قومیں بنتی اور ترقی کرتی ہیں۔ ایک مرتبہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ تاجر جو سچ بولے، اور امین ہو، وہ قیامت کو نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہو گا۔ تجارت کرنے والا یہ سوچ لے کہ میں یہ تجارت اس لیے کر رہا ہوں کہ یہ اللہ پاک کا حکم اور رسول اکرمﷺ کی سنت ہے۔

سیرت نبی ﷺ سے پتا چلتا ہے کہ رسول اکرمﷺ کا معمول تھا کہ بازاروں کا چکر لگاتے، ناپ تول کے پیمانوں کی تحقیق کرتے اور تاجروں کے معاملات کو بہ غور دیکھتے اور پرکھتے تھے۔ ایک مرتبہ رسول اکرمﷺ بازار میں تشریف لے گئے غلہ منڈی میں آپﷺ نے غلہ کا ایک ڈھیر دیکھا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا، کہ اس غلہ کے اندر ہاتھ ڈال کر دیکھیے، آپ ﷺ نے ہاتھ ڈال کر دیکھا تو نیچے کا غلہ گیلا تھا اور اُوپر کا سوکھا، آپ ﷺ نے فرمایا غلہ والے یہ کیا معاملہ ہے، اس نے کہا، کہ بارش ہوئی تو غلہ بھیک گیا تھا، اوپر سے خشک ڈال دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا گیلااُوپررکھتا اور سوکھا نیچے رکھتا، تاکہ سب لوگ دیکھ لیتے، ایسا کرنا دھوکہ دینا ہے اور جو دھوکا دے گا، وہ مسلمان نہیں ہے مسلمان دھوکا نہیں دیتا ہے ایک مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا ”دھوکہ باز ہم میں سے نہیں ہے اور مکرو و فریب دوزخ میں ہے، یعنی ایسا کرنے والا دوزخی ہے۔

آپ ﷺ کی سیرت ایک گہرے سمندر کی مانند ہے۔ رسول اکرمﷺ کا یہ اسوہ حسنہ ہر صاحب ایمان کوتقلید و اتباع کی دعوت دینا ہے۔ اگر اہل ثروت اپنی دولت کو اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھیں اور سنت نبوی ﷺ کے اتباع میں تعاون و امداد کے کاموں میں بے دریغ خرچ کریں۔ سخاوت و فیاضی کو معمولی بنا لیں تو اللہ اور اللہ کے بندوں کے درمیان انہیں مقبولیت حاصل ہو سکتی ہے اور معاشرے میں ساوات اور عدل و انصاف کی ٖفضاء پیدا ہو سکتی ہے۔ وطن عزیز میں بھی تاجر اور تجارت نازک صورت حال کا شکار ہے۔ افسوس کہ دور حاضر کے تاجر ان زریں اصولوں سے کوسوں دور نظر آتے ہیں۔ جس سے معاشرے میں باہمی اعتماد، امانت و دیانت، شرافت و اعانت، اخوت و یگانگت کا فقدان نظر آتا ہے۔ ان کمزوریوں کی بدولت ہم نے نہ صرف اپنی منڈیوں میں بلکہ عالمی منڈیوں میں بھی کوئی قابل ذکر اہمیت نہیں رکھتے۔ ہمیں تجارت و معشیت کو مستحکم اور قابل ذکر بنانے کے لیے رسول اکرمﷺ کے تجارتی اوصاف کو اختیار کرنا لازم ہے۔اللہ پاک ہمیں ان تمام عیوب اور گناہوں سے پاک فرمائے اور ہمیں نیک،سچا اور ایماندار تاجر بنائے۔ آمین

Post a Comment

Previous Post Next Post