Contact Us

Assalam o alaikum !
If you have the ability to write something and want to convey your writings infront of the world then get ready because www.kitabnagri.com is going to provide an online platform for all social media writers where you people can share your writings. 
For futher details and for the posting of writings you can contact us through mail:

knofficial9@gmail.com

or you can contact us through our facebook page :

 Fb/ Pg / kitab Nagri

whatsapp _ 0335 7500595


Warmly waiting for you people's response in this journey of light and publicity

تمام سوشل میڈیا رائیٹرز کو " کتاب نگری" میں خوش آمدید۔
ہماری ویب کا حصہ بننے کے لیئے اپنی تحاریر اس ای میل پر بھیجیں۔

knofficial9@gmail.com


41 Comments

  1. آج دو پہلوؤں پےبات کرتےهىں
    کاغذقلم تىرےہاتھ کرتےهىں
    ميں بولوں گا تم لکھتےجانا
    آج کى رات قیامت کى رات کرتےهىں

    ReplyDelete
  2. اسلام وعلیکم
    #ناول
    ایمان، امید اور وفا ۔
    episode#1
    آج اسے ڈھلتی ہوئی اداس شام سے وحشت ہو رہی تھی ۔ حالانکہ اس وقت وہ خود اسی شام کا حصہ لگ رہی تھی۔
    اس سے قبل اسے شام سہانی لگتی تھی کیوں کہ اس وقت ہر پرندہ ، ہر جانور یہاں تک کہ انسان جسے اشرف المخلوقات کا عہدہ دیا گیا ہے تمام بے پناہ مصروف دن گزرنے کے بعد گھونسلوں اور گھروں کی راہ لیتے ۔ اور اسی وقت اس کے بابا جانی بھی گھر آتے تھے آج بھی شاید اب تک گھر آچکے ہونگے ۔

    وہ اپنی بے معنی سوچوں میں گم پارک کے انتہائی سنسان اور تاریک گوشے میں بیٹھی تھی ۔ اس کے خوبصورت بیضوی چہرے پر مایوسانہ تاثرات کی گہری چھاپ تھی ۔ اس کے چہرے کے گرد سیاہ رنگ کے دوپٹے کا ہالہ تھا ۔ وہ تھی امید ۔ جس سے فقط دوسروں نے امیدیں وابستہ کیں پر اس کی کوئی خواہش پوری نہیں ہوئی کوئی بھی اس کی امیدوں پر پورا نہیں اترا حالانکہ وہ ہر کسی کی امید پر پورا اترتی ۔ انہیں سوچوں میں غلطاں اسے پتہ نہیں کتنی دیر ہوچکی تھی تب ہی اس نے ایک باریش بزرگ کو اپنی دھندلائی نظروں سے اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا ۔ وہ اٹھنے والی ہی تھی جب انہوں نے اس کے برابر نشست سنبھال لی اور وہ چاہ کر بھی اپنی جگہ سے نہ ہل سکی۔

    🍂 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 🍂

    شیخ زید ہسپتال رحیم یار خان میں حسب معمول گہما گہمی تھی ۔ لیکن گائنی وارڈ کے باہر خاور علی انتہائی پریشانی کی حالت میں اپنے رب سے ہم کلام تھے ۔ دراز قد اور سرخ و سفید رنگت کا مالک صحتمند مرد اس وقت بچوں کی طرح رب سے خیریت اور رحمت کا طلب گار تھا ۔
    وہ دعا میں مشغول تھے جب ایک نرس نو مولود بچی کو اٹھائے ان کی جانب آئی ۔
    "آپ کی بیوی اور بچی دونوں خیریت سے ہیں ۔ " نرس نے انہیں گویا نئی زندگی کی نوید سنائی ۔
    "یا اللہ تیرا شکر ہے ۔ "خاور علی کی زبان سے بے اختیار شکر کے کالمات ادا ہوئے اور انہوں نے بچی کو گود میں لے کر اس کی پیشانی پر بوسہ دیا ۔
    بیشک ان کے رب نے ان کو اپنے رحمت سے نواز دیا تھا ۔

    🍂۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔🍂

    آج پھر وہ مایوس لوٹا ۔ حسب معمول اس کی چھوٹی بہن ایمان نے دروازہ کھولا ۔
    "السلام وعلیکم بھائی " ایمان نے بھائی کو سلام کیا ۔
    "وعلیکم السلام اماں کہاں ہیں ؟"مومن نے سلام کا جواب دینے کے بعد سوال کیا ۔
    "کہاں ہو سکتی ہیں ؟؟؟نماز پڑھ رہی ہیں ۔ " ایمان جواب دیتے ہوئے باورچی خانے میں پانی لینے چلی گئی ۔
    مومن کی آواز سنتے ہی نور بنت فاطمہ کمرے سے باہر صحن میں آئیں ۔" آگئے بیٹا؟کیسا ہوا انٹرویو ؟ "السلام وعلیکم اماں. بہتر ہوا لیکن آجکل سفارش اور رشوت سے نوکری ملتی ہیں ناکہ ڈگریوں سے ۔ " مومن نے مایوس ہوتے ہوئے جواب دیا ۔
    "ناں میرے بچے مایوس مت ہو ۔ دنیا جو مرضی کر لے لیکن تمہارے نصیب کا رزق نہیں چرا سکتی ۔ جتنی مرضی سفارشات اور رشوتیں آجائے خو تمہارا ہے وہ صرف تمہارا ہیں ۔ " اماں نے مومن کو مضبوط لہجے میں سمجھایا ۔
    "چلو فریش ہو جائو پھر کھانا کھاتے ہیں ۔ " اماں کے کہنے پر مومن اپنے کمرے کی طرف چل دیا ۔
    سکندر علی کی وفات کے بعد انہوں نے انتہائی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے صبر وشکر کے ساتھ زندگی کے 20 سال گزارے ۔ مومن پانچ سال اور ایمان تین سال کی تھی ۔ چھوٹے سے گھر میں دولت کی ریل پیل نہ سہی لیکن اطمینان و سکون ضرور تھا ۔

    🍂۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🍂
    باقی ان شاءاللہ آئیندہ ۔
    فیڈ بیک ضرور دیجئے گا ۔ اللہ نگہبان۔

    ReplyDelete
  3. اسلام وعلیکم
    #ناول
    ایمان، امید اور وفا ۔
    episode#1
    part 2
    از قلم حلیمہ نور



    "میں نے اس کے لیے امید رحمت نام تجویز کیا ہے ۔ " خاور صاحب ننھی پری کو گود میں لیے اس کو خوبصورت نام کا تحفہ دے رہے تھے ۔
    "بہت پیارا نام ہے ۔" مہتاب بیگم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔
    "تمہیں پتا ہے کہ میں نے اس کا یہ نام کیوں رکھا ؟"
    خاور صاحب نے سوالیہ انداز میں پوچھا ۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کی نصف بہتر لاعلم ہوں گی ۔ مہتاب بیگم نے ناں میں سر ہلایا اور پوچھا ۔
    "کیوں؟"
    "کیونکہ بیٹی اللہ کی رحمت ہوتی ہیں ، جب سے یہ پیدا ہوئی ہے اس کو دیکھ کر اللہ کی رحمت کا احساس ہوتا ہے ۔ یہ امید بڑھتی ہے کہ اللہ مجھ سے راضی ہے اس لیے اس پاکیزہ رحمت کے قابل سمجھا ۔ شکر الحمداللہ "
    خاور صاحب نے مدلل انداز میں مسکراتے ہوئے محبت بھرے لہجے میں امید رحمت نام رکھنے کی وجہ بتائی۔

    ��۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔��

    آج پھر یونیورسٹی سے واپسی پر وہی لڑکا اس کا پیچھا کر رہا تھا ۔ اور آج تو اس نے مخاطب کرنے کی کوشش بھی کی ۔
    "سنیں ایمان ۔ " اپنے نام کی پکار سنتے ہی ایمان کے قدموں کی رفتار میں مزید تیزی آگئی ۔
    تقریبا بھاگتے ہوئے اس نے رکشہ روکا اور عجلت بھرے انداز میں رکشہ پر سوار ہو گئی ۔

    ��۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔��

    "امید رحمت" مہتاب بیگم نے امید کو پکارا جو کہ اپنے کھلونوں سے کھیل رہی تھی ۔
    "جی ام جان" ایمان انہیں امی کے ام کہتی تھی ۔
    "ہوم ورک کر لیا اپنا؟ " انہوں نے پوچھا ۔
    "جی " ایک لفظی جواب آیا اس کے بعد پھر سے اپنے سابقہ کام میں مشغول ہوگئی ۔ وہ ایسی ہی تھی موڈی سی جب دل چاہتا تو ڈھیروں باتیں کرتی کہ زبردستی چپ کرانا پڑتا اور کبھی تو مختصر ترین بات کرتی ۔
    "اچھا مزمل بھائی کہاں ہیں؟"انہوں نے اپنے بڑے بیٹے کا پوچھا ۔ امید نے کندھے اچکا کر لا علمی کا اظہار کیا ۔
    مہتاب بیگم اور خاور علی کے دو ہی بچے تھے مزمل علی اور امید رحمت عمریں بالترتیب 13 اور 7 سال ۔ مہتاب بیگم امید کے بعد پھر ماں نہ بن سکی حالانکہ ان کی خواہش تھی کہ ایک بیٹا اور ہوتا ۔
    لیکن اللہ کی رضا کے آگے کس کی خواہش کس کی مرضی چلتی ہے ۔ جو بہتر ہے وہی ہوتا ہے ۔

    ��۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔��

    پتہ نہیں کہاں سے آجاتے ہیں یہ آوارہ لڑکے دوسروں کی زندگی اجیرن کرنے ۔ ان کے اپنے گھروں میں ما بہنیں نہیں ہوتی ۔ جو انہیں احساس نہیں ہوتا کہ دوسری لڑکیاں بھی کسی کے گھر کی عزت ہوتی ہیں۔
    پتہ نہیں اسے میرا نام کا کیسے پتہ چلا ؟ گھر پہنچ کر بھی اسکی پریشانی اور اضطراب میں کمی نہیں ہوئی بلکہ اضافہ ہوا ۔
    "ایمان بیٹا آجائو روٹیاں بنا لو مومن آتا ہی ہوگا ۔ "
    اماں نے اسے کچن سے آواز دی ۔
    وہ بھی الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ کچن میں چلی آئی ۔ کیا مجھے اماں کو بتانا چاہئیے شاید نہیں اماں پریشان ہوجائے گی ۔ پہلے ہی مومن بھائی کی وجہ سے پریشان رہتی ہیں ۔ اللہ کرے بھائی کو جان مل جائے آمین ۔
    " اچھا بیٹا روٹی بنائو تب تک میں نماز پڑھ لوں ۔ " اماں کی آواز اسے سوچو کے بھنور سے باہر نکال لائی ۔ اس نے سر ہلا دیا ۔

    ��۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔��

    جاری ہے ۔

    باقی انشاءاللہ آئیندہ

    فیڈ بیک ضرور دیجئے گا ۔

    ReplyDelete
  4. ایمان امید اور وفا
    از قلم حلیمہ نور
    episode # 2
    "بیٹا جلدی ناشتہ کرو۔ آج امید کا کالج میں پہلا دن ہے ۔ پہلے دن ہی اسے لیٹ جائے گی وہ کالج ۔ "مہتاب بیگم ۔۔۔۔۔۔۔ کو ناشتہ کے لیے بلا رہی تھی ۔
    "میں نہیں لے کر جاؤں گا میری خود امپورٹینٹ میٹنگ ہے ۔ مجھے جلدی پہنچنا ہے ۔ "۔۔۔۔۔۔نے ڈائننگ روم میں آتے ہوئے امید کے برابر نشست سنبھالتے ہوئے کہا ۔
    "آپ اسے بابا کے ساتھ بھیج دیتی؟ " ۔۔۔۔۔نے سریئس ہونے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے ماما سے کہا ۔اور ساتھ میں امید کا چہرہ دیکھا ۔ جس پر پریشانی واضح تھی ۔
    "ویسے بھی میرے پاس بائیک ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ تیز بائیک چلانے پر اڑ نہ جائے۔ " بات مکمل ہوتے ہی ۔۔۔۔۔۔۔ کے منہ بلند قہقہ برآمد ہوا ۔ جس پر امید کا منہ مزید پھول گیا ۔
    "میں بھی شوق نہیں آپ کے ساتھ کالج جانے کا ۔ مت لے کر جائے میں خود ہی کل بابا کے ساتھ چلی جاؤں گی ۔ سمجھے آپ؟؟؟" امید نے اسے گھورتے ہوئے جواب دیا ۔ حسب توقع وہ برا ماں چکی تھی۔
    " تمیز سے بات کیا کروں بڑا ہے تم سے " مہتاب بیگم نے چائے لیتے ہوئے امید کو اونچی آواز میں چلانے پر ڈانٹا ۔
    امید غصے سے اٹھ کر اپنے روم میں چلی گئی ۔ جبکہ ۔۔۔۔۔۔ کے چہرے مسکراہٹ تھی ۔

    ♾♾♾♾♾♾♾♾♾

    آج پھر وین لیٹ تھی ۔ ایمان کوفت بھرے انداز میں کھڑی انتظار کر رہی تھی ۔ جب اس نے کالج کے گیٹ کی طرف اسے جاتے ہوئے دیکھا ۔ اف یہ اسی کالج میں پڑھتا ہیں ۔ اس کی پیشانی پسینے سے تر بتر ہوئی ۔
    وین کے ہنر دینے پر وہ پریشان صورت لیے وین میں آکر بیٹھ گئی ۔

    ♾♾♾♾♾♾♾♾♾

    "امید!"۔۔۔۔۔۔۔ اسے آواز دیتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا ۔
    امید خاموشی سے رخ موڑے بیٹھی رہی۔ سفید شلوار قمیض اور ڈارک بلیو ڈوپٹے میں بہت معصوم اور پیاری لگ رہی تھی ۔
    "میری گڑیا بھائی سے ناراض ہے؟ " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انتہائی لاڈ سے اسے بلاتے ہوئے اس قریب بیٹھ گیا ۔
    "اچھا نا ناراض مت ہو مذاق کر رہی تھا۔ آئیندہ نہیں کروں گا ۔ اور اب جلدی چلو میں آفس سے لیٹ ہو جاؤں گا ۔ پھر تمہارے بابا ناراض ہو جائیں گے۔ "مزمل نے شرارتی لہجے میں کہا ۔
    ♾♾♾♾♾♾♾♾

    "مومن بھائی آج مجھے کالج آپ چھوڑدیں۔" امید نے ناشتہ کرتے ہوئے مومن سے پوچھا ۔
    "ہاں "مومن نے مختصر جواب دیے ۔
    "ٹھیک ہے بھائی میں عبایا لے کر آتی ہوں۔" امید کی بات پر اس نے سر ہاں میں ہلایا ۔
    "مومن بیٹا کیا بات ہے ؟؟" فاطمہ جو مومن کو سوچ میں گم بیٹھے کافی دیر سے دیکھ رہیں تھی ۔بالآخر انہوں نے استفسار کر ہی لیا۔
    "کچھ نہیں اماں بس امید کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔ کتنی جلدی بڑی ہو گئی ہے ۔" مومن نے چونکتے ہوئے جواب دیا ۔
    "ہاں ماشاللہ اللہ اس کا نصیب اچھا کرے ۔ آمین "فاطمہ نے امید کیلیے دعائیہ کلمات کہے۔ جواب میں مومن نے "آمین" کہا۔
    "چلیں بھائی ۔" امید نے صحن میں آتے ہوئے کہا۔
    "ہاں چلو ۔" مومن جواب دیتے ہوئے کھڑا ہوا ۔
    "اللہ حافظ اماں ۔"دونوں نے یک زبان ہوکر کہا ۔۔ گویا بچپن کے سنہرے لمحے سامنے آکھڑے ہوئے ہوں۔

    ♾♾♾♾♾♾♾♾♾♾

    "چلو بھائی کالج آگیا ۔ اترو اب میری بائیک سے بچاری نے سانس بھی لینی ہوتی ہیں ۔ تم اپنا ۔۔۔۔۔"کالج کے سامنے بائیک روکتے ہی مزمل کا مذاق شروع ہو گیا ۔
    "I mean ........"
    مزمل نے جھوٹی وضاحت دینے کی کوشش کی ۔
    "رہنے دیں بھائی میں I mean کا مطلب خوب جانتی ہوں ۔ " امید نے خفگی بھری آواز میں کہا۔
    "اوکے لیو دس (ok leave this ) اللہ حافظ ۔" مومن نے بحث ختم کرتے ہوئے کہا ۔
    "اللہ حافظ " امید نے جواب میں کہا اور کالج کے گیٹ کی جانب چل دی ۔

    ♾♾♾♾♾♾♾♾♾
    "واپس کس کے ساتھ آنا ہے"۔ مومن نے اسے کالج کے سامنے اتارتے ہوئے کہا ۔
    "بھائی آپ کے ساتھ ۔ ایمان بے جواب دیا ۔
    لیکن میرا تو انٹرویو ہے شاید نا آسکو ۔" مومن نے بتایا ۔
    "اوہ چلیں کوئی بات نہیں میں رکشہ پر چلی جاؤ گی ۔ "ایمان یہ کہتے ہوئے کالج کی جانب بڑھ گئی ۔
    مومن نے بائیک اسٹارٹ کی اور اپنی منزل کی طرف بڑھ گیا ۔ اس چیز سے بے خبر کہ آنے والے لمحات کیسے قیامت خیز ہونگے ۔
    ♾♾♾♾♾♾♾♾♾
    آج فاطمہ کا دل صبح سے گھبرا رہا تھا ۔ شاید بی پی لو ہو ۔ کافی دیر فضول سوچوں میں گم رہنے کے بعد وہ کچن میں چلی آئی اور آلو گوشت بنانے کی تیاری کرنے لگی ۔ دھیان پھر سے مومن اور ایمان کی طرف چلا گیا ۔ دونوں کو آلو گوشت بہت پسند تھا ۔ اللہ میرے بچوں کو سلامت رکھے آمین۔ انہوں نے دل ہی دل میں دعادی اور سابقہ کام میں مصروف ہوگئی ۔ جبکہ چھٹی حس آنے والے وقت کے بارے میں پریشان کر رہی تھی ۔ ♾♾♾♾♾♾♾♾♾
    ۔
    جاری ہے ۔

    ReplyDelete
  5. ایمان امید اور وفا
    از قلم حلیمہ نور
    episode#2
    part 2

    ماؤں کے اختیار میں صرف دعا کرنا ہے ہوتا تو وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے ۔ بے شک
    ♾♾♾♾♾♾♾♾♾♾
    "بھائی ایک بات پوچھو ؟؟؟ "ایمان نے چائے کے کپ میں چمچ ہلاتے ہوئے مزمل کو متوجہ کیا ۔
    "ہمممممم پوچھو ۔ "مزمل نے لیپ ٹاپ پر نظریں جمائے کہا۔
    "بھائی مما ہر وقت مجھے ڈانٹتی رہتی ہیں کیا میں واقعی بری ہوں؟؟" امید مایوسی بھرے انداز میں بولی ۔
    "نہیں بھلا ماؤں کو اپنی اولاد بری لگتی ہے ۔ وہ صرف اس لیے تم پر سختی کرتی ہیں کہ تم بگڑ نہ جاؤں۔ میری اور بابا کی لاڈلی ہو نا ۔ لاڈ پیار میں بچے بگڑ جاتے ہیں ۔ "مزمل نے اسے سمجھایا۔
    "بھائی پہلی بات اب میں بچی نہیں دوسری بات آپ سے تو بڑے لاڈ کرتی ہیں ۔" امید نے منہ بسورتے ہوئے کہا ۔
    "ہاہاہاہا یعنی جیلسی ۔ دیکھو امید اپنی چیز سے تو کوئی جیلس نہیں ہوتا اور میں تو پھر تمہارا اپنا بھائی ہوں ۔ اوکے سو ڈونٹ بی جیلس ۔" مزمل نے ہنسی روکتے ہوئے کہا ۔
    جاری ہے ۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. Part 1 kaha sai parh saktay hain?

      Delete
  6. Am also want to publish my novel please can you support me

    ReplyDelete
  7. I want to write novel plz help me

    ReplyDelete
  8. i want a novel haalim by nimra ahmad
    kitab nagri k novels bht achy hain lakin is py nimra ahmad sumaira ahmad k abdullah hashim k famous novels post ni hain kindley post kr dain
    thank u

    ReplyDelete
  9. I want to publish a novel the given number is off kindly tell how to contact u

    ReplyDelete
  10. Kia iss novel pe dramay bna sakty hain maine ye novel kisi ko recommand kia hai dramy kr liye

    ReplyDelete
  11. I want write poetry and novel plz

    ReplyDelete
  12. mam mny apko social media r emails hr jgha sey contact krny ki koshish kr rai but koi responced e ni ap ki trf sey😢 apni tahaareer bhi apky emails py kii lkn koi responced nii

    ReplyDelete
  13. Mein apna novel kitab Nagri mein publish krwana chahti hon mene apse contact ki koshshi ki lekin apka koi response nhi hai. Mail bhi kiya tha

    ReplyDelete
  14. HELLLOO!...i am one of your readers and have been reading your page novels from 2 months...but recently i cannot access the novels..it asks me to request access.. please guide me what to do

    ReplyDelete
  15. Mein apni tahrir is site per publish krwana chahti hon.. aapse contact kese kro??
    Apko mail bhi kiya tha bt koi response nhi

    ReplyDelete
  16. Aine dilam novel by ain Fatima pdf complete novel website pay send kar dain ..please ....

    ReplyDelete
  17. Mujhe bhi apni tehreer bhejana tha...par sab k comments padh kar samajh ny araha hy ,aap response ny dereh ho.abb main kya karo?

    ReplyDelete
  18. < a href="https://diaryswhispering.com/haya-novel-by-fakhra-waheed/"> Is this official Haya Novel By Fakhra Waheed

    ReplyDelete
  19. AOA I want to post a novel

    ReplyDelete
  20. ناول۔ بچپن کا نکاح
    رائٹر۔ فاطمہ آرائیں
    قسط۔۔ 1
    بغیر میری اجازت کے کاپی پیسٹ کرنا منع ہے
    صبح کی روشنی ہر سو پھیلی ہوئی تھی چڑیاں چہچہا رہی تھی صبح کے نو بج رہے تھے اور ہماری ہیروئن یعنی حجاب صاحبہ ابھی تک سو رہی تھی حجاب بیٹا اٹھ جاؤ صبح ہو گئی ہے آنیہ بیگم نے حجاب کے اوپر سے کمبل ہٹا یا کیا ہے مما تھوڑی دیر اور سونے دینا شاباش بیٹا اٹھ جاؤ ماں سونے دیں اٹھ جاؤ میں نیچے ناشتہ تمہارا رکھ رہی ہوں اٹھ جاؤ شاباش آنیہ بیگم کمرے سے چلی گئی تھوڑی دیر حجاب اٹھی اور فریش ہونے واش روم چلی گئی حجاب ایک شوخ مزاج اور صاف دل کی لڑکی تھی تھوڑی دیر تک حجاب نیچے آئی جس نے بلو کلر کا فراک پہنا ہوا تھا تھا اور سر پر حجاب کیا ہوا تھا انیہ بیگم جو ٹیبل پر کھانا رکھ کر رہی تھی اپنی بیٹی کو دیکھ کر کہا ماشاء اللہ نظر نہ لگے میری بیٹی کو حجاب اپنی ماں کے گلے لگ گئی اور کہا شکریہ ماما ویسے آج ناشتے میں کیا بنا ہے میری بیٹی کے پسند کا آملیٹ اور پراٹھا کیا سچ شکریہ مما بابر ملک کے دو بیٹے تھے زیان اور زاہد اور دونوں نے پسند کی شادی کی تھی بڑے بیٹے ضیان کی بیوی کا نام سویرا اور زاہد کے بیوی کا نام آنیہ تھا زیان کے بیٹے کا نام ارحم اور زاہد کی بیٹی کا نام حجاب تھا ارحم اور حجاب کا نکاح بچپن میں ہی بابر ملک نے کر دیا تھا جب کہ ارحم کی عمر دس اور حجاب کی عمر چھ سال تھی بابر ملک کے مرنے کے بعد دونوں بھائیوں میں لڑائی ہوگئی کیوں کہ زیان اس نکاح سے خوش نہ تھا اور دونوں بھائی الگ ہوگئے اور اس واقعے کے کچھ عرصے بعد زاہد ملک اس دار فانی سے کوچ کر گئے
    ❤️❤️🧡🧡🧡💛🤎💙🤎💛🖤🧡🖤
    آپ سب کو میری ناول کیسی لگی بتانا ضرور اور یہ میری فرسٹ ناول ہے اگر کوئی غلطی ہو گئی ہو تو اس کے لئے معذرت یہ میری فرسٹ ناول ہے اس لئے میں تھوڑی کنفیوز ہو رہی ہوں

    ReplyDelete
  21. ناول۔ بچپن کا نکاح
    تحریر۔ فاطمہ آرائیں
    قسط۔ 2
    میری اجازت کے بغیر کاپی پیسٹ کرنا منع ہے
    انیہ بیگم ایک پڑھی لکھی تھی اس لیے انہوں نے جاب کرکے اپنی بیٹی کو پڑھایا اور اب حجاب پڑھنے کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم جاب بھی کر رہی تھی نہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کے اس کی ماں اب کام کرے حجاب کو ابھی تک یہ نہیں پتا تھا کہ اس کا نکاح ارحم سے ہو گیا ہے کیوں کہ اس ٹائم چھوٹی تھی حجاب کا آج رزلٹ آنا تھا انیہ بیگم کچن میں دوپہر کے لیے کھانا بنا رہی تھی کے تب ہی انہیں حجاب کے چیخ نے کی آواز آئی وہ گھبرا گئی اور حجاب کے کمرے کی طرف بھاگی گی جب حجاب کے کمرے میں آئی تو دیکھا کے حجاب بیڈ پر چڑھ کر خوشی سے چیخ رہی تھی جب جب انیہ بیگم نے پوچھا کہ حجاب بیٹا کیوں پر پر چڑھا کر چیخ مار رہی ہو تو حجاب خوشی سے اپنی ماں کے گلے لگ گئی اور کہا کہ مما میں میں نے ماسٹر میں ٹوپ کیا ہے کیا سچ بہت بہت مبارک ہو میری بیٹی شکریہ مما میں ابھی آیت کو بتاتی ہوں ہو (حجاب کی بیسٹ فرینڈ) ٹھیک ہے بیٹا میں تب تک کھانا بنا لوں حجاب نے آیت کو فون کیا اب بھی حجاب کچھ کہتی کہ آیت پہلے ہی بول پڑی یاررررر تجھے اک سرپرائز دینا ہے میں تیرے گھر آتی کی ہوں پھر بتاؤ گی اور پھر شاپنگ کرنے بھی چلے گے میں نے اپنے لیے سامان بھی لینا ہے ٹھیک ہے اللہ حافظ خدا حافظ کچھ دیر بعد آیت آئی اور انیہ بیگم کو سلام کیا السلام علیکم کیسی ہیں آنٹی وعلیکم السلام ٹھیک ہو بیٹا تم کیسی ہو میں بھی ٹھیک ہوں الحمدللہ اچھا میں حجاب سے مل لو پھر ہم نے شوپنگ کرنے میں بھی جانا ہے ٹھیک ہے بیٹا جب آیت کمرے میں آئی تو بھاگ کر کے گلے لگی کیسی ہے میری دوست ٹھیک ہو تو کیسی ہے ہے میں بھی ٹھیک ہوں اچھا یار تجھے میں نے یہ سب پرائز دینا تھا کہ میں نے ماسٹر میں 2and آئی ہوں تیرا بھی آج رزلٹ تھا کیا بنا میں نے ماسٹر میں ٹوپ کیا ہے کیا سچ میں یار تو تو مجھ سے بھی آگے نکل گئی اچھا شاپنگ کرنے چلتے ہیں یہ تو چل میں تیار ہو کر آئی چل میں تیرا ویٹ کر رہی ہوں ٹھیک ہے کچھ دیر بعد ہی حجاب نیچے آئی جس نے یلو کلر کا سوٹ پہنا ہوا تھا اور سر پر حجاب کیا ہوا تھا اچھا مما میں اور آیت باہر شاپنگ کرنے جا رہے ہیں ٹھیک ہے بیٹا خیریت سے جانا اور جلدی واپس آ جانا آیت اور حجاب شاپنگ مال پہنچ گئی جب آیت اور حجاب کار سے اتری تو کچھ لڑکے ان کی طرف آئے اور چھیڑنے لگے
    آیت کو غصہ آیا ور لڑکوں کو باتیں سنانے لگی لگی پھر وہاں لوگوں کا ہجوم لگنا شروع ہو گیا سب لوگ لڑکوں کو برا بھلا کہنے لگے کچھ لوگوں آئے اور لڑائی ختم کروائیں پھر حجاب اور آیت جانے لگے تو ان میں سے ایک لڑکے نے کہا چھوڑوں گا نہیں تم دونوں کو تم دونوں پر میری نظر رہیں گی اور وہ لڑکے چلے گئے پھر دونوں شاپنگ مال کے اندر چلے گئے دونوں نے اپنے اپنے لئے شاپنگ کی آتے وقت حجاب کو اپنے اوپر کسی کی گہری تپش محسوس ہوئی لیکن وہ نظر انداز کرگی
    💗💛❤️💛💙🖤🤎🖤💙💛💛🤎🖤
    اس میں لونگ رائٹ نہیں ہو رہا تھا اس لئے میں نے پاٹ بنا دیا کیسی لگی بتانا ضرور اور کمنٹس بھی کرناhttps://www.facebook.com/groups/719679619119078/permalink/781781126242260/?app=fblاس گروپ کو فالو کریں اب سے اس گروپ میں آئیں گی میری ناول

    ReplyDelete
  22. ناول۔ بچپن کا نکاح
    تحریر۔ فاطمہ آرائیں
    قسط۔ 3
    میری اجازت کے بغیر کاپی پیسٹ کرنا منع ہے
    اگلے دن حجاب اٹھی اور فریش ہو کر جاب کے انٹرویو کے لیے جانے لگی کیوں کہ جب اس کا کا رزلٹ آیا تب ہی اس نے جاب کے انٹرویو کے لیے اپلائی کیا ماسٹر میں ٹوپر ہونے کی وجہ سے کمپنی والوں نے جلدی ہیں حجاب کو انٹرویو کے لیے بلایا وہ تیار ہو کر نیچے آئی اور اپنی ماں کے گلے لگی اور اور سلام کیا اسلام علیکم مما وعلیکم السلام بیٹا اٹھ گئی اچھا بیٹھو میں ناشتہ لگاتی ہوں ہو ٹھیک ہے ماما ناشتے کے فورا بعد حجاب انٹرویو کے لئے نکل گی اس کی جاب بھی لگ گئی اور وہ بہت خوش تھی گھر آتے وقت دوبارہ خود پر کسی کی گہری تپش محسوس ہوئی حجاب میں ادھر ادھر دیکھا لیکن کوئی نہیں تھا اس لئے وہ نظر انداز کر گئی پھر گھر آ کر اس نے اپنی ماں کو خوشخبری سنائی عالیہ بیگم نے اپنی بیٹی کو مبارکباد دی اچھا بیٹا پھر تم فریش ہو جاؤ تم نے کھانا ںھی کھانا ہے جی مما میں ابھی فریش ہو کر آئی کھانا کھانے کے بعد اپنے کمرے میں چلی گئی اور کل آفس جانے کی تیاری کرنے لگی رات کے کھانے کے بعد جب حجاب اپنے کمرے میں بیڈ پر سونے لگی تو اسے پھر دوپہر والا واقعہ یاد آیا لیکن پھر وہ اپنا وہم سمجھ کر سونے کے لیے لیٹ گئی اور لائٹ بند کر دیں اگلے دن صبح سات بجے آفس جانے کے لئے تیار ہوئی اور ناشتہ کرنے کے بعد اپنی ماں سے ملیں اور سلام کہہ کر آفس کے لئے چلی گی آج آفس میں حجاب کا پہلا دن تھا اس لیے حجاب کنفیوز ہو رہی تھی اور اپنے بوس سے مل کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی اور شام سات بجے فارغ ہوئی اور آفس سے نکل گئی آج وہ بہت تھک گئی تھی حجاب باہر سڑک پر کھڑی رکشے کا ویٹ کر رہی تھی ایک بار پھر خود پر کسی کی گہری تپش محسوس ہوئی اس نے ادھر ادھر دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا ساری سڑک سنسان تھی سوائے چند گاڑیوں کے تو بھی وہی لڑکے حجاب کے پاس آئے اور کہنے لگے بہن ہمیں معاف کر دو حجاب گھبراگئی ٹھیک ہے میں نے تمہیں معاف کیا پھر وہ وہاں سے چلے گئے تب ہی ایک رکشہ والا روکا تو حجاب اب جلدی سے اس میں بیٹھ گئی اور وہاں سے چلی گئی
    💛🖤🤎💙🤎❤️💙🤎🧡🧡💙💛💙
    آپ سب کو میری قسط کیسی لگی بتانا ضرور کمنٹس بھی کرنا اور لائک بھی کرنا لازمی اور بتانا ضرور وہ کون ہے جو حجاب کا پیچھا کر رہا ہے

    ReplyDelete
  23. https://www.facebook.com/profile.php?id=100086911009736

    ReplyDelete
  24. Mein apni poetry publish karwana chahti hun , i'm new here but i dunno how i publish my composing , would u plz help me

    ReplyDelete
  25. Can anyone tell me the name of novel jis ma heroine hero ko fan g keh k bulati hai and yeah wo novel innocent heroine based thaa

    ReplyDelete
  26. Salam
    I want to publish my novel.
    Email Id..
    ghanwariazriaz@gmail.com

    ReplyDelete
  27. Assalamualaikum. I am a new writer and I am interested in working on your platform. I am a new writer and I want to publish some books on your youtube channel . I also contacted on your phone number but you didn't respond. Kindly tell me the procedure and everything regarding that.

    ReplyDelete
  28. g main novel likhna cahti hu

    ReplyDelete
  29. main apna novel likha hua ap logo ko sale krna cahti hu

    ReplyDelete
    Replies
    1. I want to publish my novel.
      Email Id..
      nabeelashahidsdq@gmail.com

      Delete
  30. Mai ne apni zindgi ke ik choty se Hise ki Sachi dastan likhi he.

    ReplyDelete
  31. Mai ne apni zindgi ke ik choty se Hise ki Sachi dastan likhi he.
    mkhalila77@gmail.com

    ReplyDelete
  32. Mai ne apni zindgi ke ik choty se Hise ki Sachi or mohabat ki dastan likhi he.
    mkhalila77@gmail.com

    ReplyDelete
  33. (1)
    داستان بے بسی
    (Dj & RJ FM90 Kasur)
    داستان پیار محبت سے بےبسی بیوفائی رسوائی اور نفرت تک کی۔
    جو مئی 2017 سے شروع ہوئی اس کے ساتھ جس کو میں پیار سے بلی بولتا تھا۔
    مئی 2017 سے بات شروع ہوئی اور کچھ دن بنا کسی رشتے کے نام سے بات ہوتی رہی پھر میں نے اسے کہا ہم بات کرتے ہے کس رشتے کے ناطے تو اس نے کہا محبت کے رشتے کے ناطے۔
    ہاں یار l Love you مجھے تم سے محبت ہے تم بہت اچھے لگنے لگے ہو تمہاری آواز سے محبت ہو گئی ہے اور تم سے۔
    تو میں چپ سا ہو گیا اور ہنس پڑا کیونکہ مجھے یہ سننے کی عادت تھی میں اک FM میں RJ تھا جہاں بہت لوگوں سے l Love you اور پیار کی باتے سننے کو مل جاتی تھی اور پھر لوگ غائب ہو جاتے تھے تو جب اس نے کہا تو مجھے ہنسی آئی اور بولا کہ ٹھیک ہے تم بھی جب چاہو بات کر سکتی ہو تو وہ تھوڑی خوش اور تھوڑی پریشان ہوئی میں نے وجہ پوچھی خوش کیوں اور پریشانی کیوں تو بولی پریشان اس لئے کہ تم نے جواب نہیں دیا پیار کا اور خوش اس لئے کہ غصہ نہیں کیا اور بولی اب میں تم کو تمہارا نام نہیں بلکہ چاند بولا کروں گی۔
    تو میں نے نہیں چاہا کبھی کہ بلا وجہ کسی کا دل دکھے میری وجہ سے کبھی۔
    میں نے بولا جو دل کرے آپ بول لو لیکن میری زندگی میں اور بھی بہت لوگ ہےاور میں نا تو خوبصورت ہوں اور نا امیر بس لوگ مجھے سنتے ہے۔
    اور میں بہت لوگوں کو اچھا لگتا ہوں کچھ لوگوں کو برا بھی لگتا ہوں گا شائد اور لوگ آتے ہیں کچھ پل ساتھ رہتے ہیں اور پھر چھوڑ جاتے ہے مجھے۔
    تو وہ بولی جو بھی اب تم صرف میرے ہو اور کبھی نہیں چھوڑں گی باقی سب چھوڑ جائے گے تم کو دیکھنا میں نہیں چھوڑوں گی۔
    ہائئئئئئے

    راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
    آگے آگے دیکھِیے ہوتا ہے کیا

    قافلے میں صبح کے اِک شور ہے
    یعنی غافل ہم چلے سوتا ہے کیا

    سبز ہوتی ہی نہیں یے سرزمیں
    تخم خواھش دِل میں تُو بوتا ہے کیا

    یے نشان عشق ہیں جاتے نہیں
    داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا

    غیرت یوسف ہے یے وقت عزیز
    میر اِس کو رایگاں کھوتا ہے کیا

    اس کے بعد بات ہوتی رہتی تھی روزانہ اور میری تو اور بھی بہت لوگوں سے بات ہوتی تھی تو میں اس کو دھیان نہیں دیتا اتنا پھر اک دن میں نے صرف اسی سے بات کی تو مجھے محسوس ہوا کہ اس کو بہت محبت ہے مجھ سے اور میں کیا کر رہا ہوں اس رات دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہا اور اس کی باتوں پے ہنسی آتی رہی اور اچھی لگنے لگی گئی تھی وہ مجھے۔ اور اچھی لگنے لگی گئی تھی وہ مجھے۔
    ہائئئئیے۔
    یوں بھی ہوتا ہے کہ یک دم کوئی اچھا لگ جائے.
    بات کچھ بھی نہ ہو اور دل میں تماشا لگ جائے.

    ہم سوالات کا حل سوچ رہے ہوں ابھی تک.
    اور ماتھے پہ محبت کا نتیجہ لگ جائے.

    پھر میں خود اس کا انتطار کرنے لگ پڑا اور اس سے بات کرنے لگ پڑا کیونکہ یہ سب سے مختلف لگی تھی اور کچھ دن تک اس کے لئے خود کو بے چین سا محسوس کیا اور اک دن بات کرتے کرتے میں نے بھی i love you بول دیا تو وہ خوش ہوئی اور بہت پیار سے جواب دیا اور پھر محبت شروع ہو گئی ہماری۔
    اور اس نے کہا چاند تم کو اک بات کہوں غصہ نہیں کرو تو میں نے بولا ہاں کہو میری بلی میری پیاری۔
    تو اس نے کہا تم سب کو چھوڑ دو نیا نمبر لے لو اور صرف میرے ہو جاؤ تو میں نے کہا لوگوں کا دل نا دکھ جائے اور میرا کام بھی ایسا ہے کہ میں چھپ نہیں سکتا جب بھی براہراست پروگرام کروں گا تو لوگ ناراص ہوں گے کیا تم ایسا چاہتی ہو کے میری اہمیت کم ہو جائے وہ پریشان ہوئی اور بولی نہیں ہرگز نہیں تو میں نے کہا میں وعدہ کرتا ضروری بات کے علاوہ کسی سے کوئی بات نہیں کروں گا۔ اور میرا سب کچھ تم ہی ہو تو اور کیوں کسی اور سے ایسا رشتہ یا ایسی ویسی بات کروں گا۔ تم بےفکر رہو میں الله پاک کو حاضر رکھ کر کہتا اب تم سے پاک دمنی اور ہمیشہ ریشہ نبانا چاہتا ہوں اور دعا ہے کہ اب سے نکاح تک اور اخری سانس تک تمہارے ساتھ رہوں۔
    ہائئئے۔
    جس کو دنیا جنون کہتی ہے۔
    میرا ہوش و حواس ہوتا ہے۔

    بات چلتی رہی سب اچھا جا رہا تھا۔
    اس کی خاطر سب کو چھوڑ دیا کیونکہ اب وہ ہی سب کچھ تھی نمبر نیا لے لیا اب اسی کا ہو کر رہنا چاہتا تھا۔
    لیکن اک میری اور دوست تھی جو بہت دیر بعد بات کرتی تھی کئی کئی مہینے گزر جاتے تو تھے تو میں نے اس کے بارے میں بتایا تو بولی کوئی بات نہیں آپ اس سے بات کر لینا اور میری بھی کروانہ اب جب رابطہ کر تو۔
    میں نے کہا ٹھیک ہے۔
    خیر اس دوران اس دوست کی تو کال نہیں آئی اور نا رابطہ کیا اس نے۔
    بہت اچھی ہے وہ۔
    آج تک میں نے اس دوست کو نہیں دیکھا بس اک احساس اور دوستی کا رشتہ ہے ہمارا۔
    اچھا خیر بہت مہینے ایسے چلتا رہا اور جیسے ہر کوئی پیار میں وعدے قسمے پاپندی لڑائی نارضگی سب چلتا رہا۔
    ہائئئئیے

    زمانے سے چھپا رکھا ہے۔
    تیرے لیے ہم نے خود کو بچا رکھا ہے~

    اس دوران دو مملاقات..........
    Meri Zindagi ki Sachi dastan.
    mkhalila77@gmail.com

    ReplyDelete
  34. Asalam o Alikum..novel golden stone ka season 2 kb ay ga?...mai kafi arsy sy dekh rahi mjhe kahin ni mila

    ReplyDelete