Woh Safar Jo Tere Naam Tha Romantic Novel By Hoor Bano
Woh Safar Jo Tere Naam Tha Romantic Novel By Hoor Bano
بارش زور و شور سے جاری تھی۔۔۔وہ گاڑی کو سایڈ پہ پارک کرتا
۔۔۔۔۔باہر نکلا ۔۔۔۔چہرے پہ مُسکراہٹ لاتا وہ اب سیڑھیاں چڑھ رہا تھا ۔۔۔۔آج اُس کی
شادی کو ایک سال مکمل ہو گیا تھا۔۔۔ہاتھ میں گفٹز بیگ اُٹھاۓ وہ اپنے اُس دن کو یاد کر رہا تھا جب
مائدہ اور وہ پہلی بار ملے تھے۔۔۔مائدہ کب سے اُسے فون کر رہی تھی ۔۔۔۔لیکن کام کی
وجہ سے پھنس سا گیا تھا ۔۔۔اب وہ مائدہ کو فون کر رہا تھا لیکن اب مائدہ فون نہیں اُٹھا
رہی تھی۔۔۔۔
ماہِر بینک میں ملازمت کرتا تھا ۔۔۔آٹھ بجے ہی اُس کی ڈیوٹی
ختم ہوئ تھی۔۔۔۔راستے میں شدید ٹریفک ہونے کی وجہ سے وہ مزید لیٹ ہو گیا ۔۔۔راستے سے
گفٹز بھی پیک کرواۓ
فلیٹ کا دروازہ کُھلا تھا۔۔۔۔مائدہ!! مائدہ!! وہ آوازیں لگاتا
اندر داخل ہو رہا تھا۔۔۔۔وہ گفٹز بیگ صوفے پہ رکھتا ہوا بولا۔۔۔
فلیٹ میں ہر چیز بکھری ہوئی تھی۔۔۔۔۔وہ گھبراتا ہوا آگے بڑھ
رہا تھا۔۔۔۔کہ کچن کے باہر مائدہ فرش پہ پڑی ہوئی تھی۔۔۔خون میں لپٹی ہوئی ۔۔۔۔اردگرد
خون ہی خون تھا۔۔۔۔
یہ سب دیکھ کر اُس کا دماغ ماؤف ہو چکا تھا ۔۔۔ابھی کچھ وقت
پہلے ہی تو خوشیوں نے اُن کے دروازے پر دستک دی تھی۔۔۔۔کچھ وقت بعد ہی وہ دونوں والدین
کے رُتبے پر فائز ہونے والے تھے ۔۔
مائدہ!!! ماہِر بھاگتا ہوا اُس کہ طرف بڑھا۔۔اُس کا دل بند
ہو رہا تھا۔۔
مائدہ مائدہ آنکھیں کھولو یہ سب کس نے کیا؟؟ جواب دو۔۔ماہِر
چیختا ہوا بولا۔۔۔۔مائدہ کی آنکھیں کُھلی ہوئی تھیں ۔۔چہرہ آنسوؤں سے تَر تھا۔۔۔
پر مائدہ کی روح جسم سے نکل چُکی تھی ۔لیکن وہ اس بات پر یقین
نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔وہ مائدہ کو گود میں اُٹھاتا ہوا جلدی سے فلیٹ سے نکلا۔۔۔۔
رَش ڈرائیونگ کرتے ہوئے وہ ہسپتال پہنچا۔۔۔۔
کھڑکی کے باہر کھڑا وہ مائدہ کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔اُس کے پاس
ہی ڈاکٹر کھڑا تھا ۔۔۔جس نے نرس کی طرف دیکھ کر اشارہ کیا کہ یہ مَر چُکی ہے۔۔۔
تیز بارش سے وہ بھیگ چُکا تھا۔۔۔
آئ ایم سوری مسٹر ماہِر!!! آپ کی وائف یہاں آنے سے پہلے ہی دَم توڑ چکی تھیں ۔۔۔تین گولیاں ان کے جسم کو چیرتے ہونے نکلیں ہیں ۔۔۔
2nd Sp 👇👇👇
صاحب گجرے لے لو نا!!! پھٹے ہوۓ کپڑوں میں ملبوس چھوٹا سا بچہ ماہر
سے مخاطب ہوا۔۔۔۔
ماہر جو اپنی ہی سوچوں میں گُم آنکھیں بند کیۓ گاڑی کی سیٹ کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا
تھا ۔۔۔
میرا کوئی نہیں ہے جس کے لیے میں یہ گجرے لوں!!!! ماہر نے
اُس بچے کو دیکھے بغیر کہا۔۔۔
ارے صاحب کیوں جھوٹ بولتے ہو!! یہ آپ کی بیگم صاحبہ اور پیارا
سا بچہ آپ کا ہی ہے۔۔۔۔گجرے لہراتا ہوا وہ یارم کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔۔جو ماہر کے
ساتھ والی سیٹ پہ ازلان کو اُٹھائے بیٹھی تھی ۔۔
میں نے کہا نا نہیں چاہیئے ۔۔۔اس کو ویسے بھی گجرے نہیں پسند!!!
بیگم صاحبہ آپ لے لو ۔۔یہ صرف دو ہی گجرے بچے ہیں ۔۔۔کچھ پیسے
اور مل جائیں گے تو ہم سب بہن بھائی پیٹ بھر کر کھانا کھا لیں گے۔۔۔وہ یارم کی طرف
جاتا ہوا بولا۔
اچھا ٹھیک ہے ۔۔مجھے دے دو!!! یارم نے بیگ سے ہزار کا نوٹ
نکالا اور اُس بچے کو دے دیا۔۔اور گجرے بھی لے لیۓ۔۔۔
بہت شکریہ بیگم صاحبہ!!! دیکھ لو صاحب آپ سے اچھی تو بیگم
صاحبہ ہیں ۔۔۔۔ویسے ایک بات کہوں آپ نے اس آگ کے بنے ہوئے آدمی سے شادی کیسے کر لی؟؟؟
بچے کی بات پر ماہر نے غصے سے اُس بچے کو دیکھا ۔۔۔۔
وہ بچہ جلدی سے وہاں سے بھاگا۔۔۔
سگنل گرین ہو چکا تھا ۔۔۔۔گاڑی اپنی منزل کی طرف چل پڑی۔۔۔۔
تم نے بتایا نہیں اُس بچے کو کہ تم نے مجھ سے شادی کیوں کی؟؟اور
یہ گجرے ۔۔کس سے پوچھ کر تم نے لیۓ؟؟؟ اٌس نے کہتے ہوئے گجرے اُس کے ہاتھوں سے لیۓ ۔
ماہر مجھے پسند ہیں گجرے!!!
لیکن مجھے نہیں پسند ۔۔اُس نے کہتے ہوئے وہ گجرے ۔۔گاڑی کی
کھڑکی کھول کر باہر پھینک دیۓ۔۔۔۔۔نہیں ڈاکٹر آپ ایسے کیسے اتنی آسانی سے یہ کہہ سکتے ہیں ۔۔مائدہ
کو کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔میرے بچے کو کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔۔آپ جھوٹ بول رہے ہیں ۔۔۔روتے
ہوئے!! چیختے ہوۓ!! وہ فرش پہ دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا۔۔۔ایک لمحے نے اُس کی زندگی کو بدل
کر رکھ دیا۔۔
نہیں نہیں تم نہیں مَر سکتی۔۔۔۔مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتی
تم۔۔میں تمہیں جانے نہیں دوں گا ۔۔۔۔
ڈاکٹر اُس کو حوصلہ دے کر جا چُکا تھا۔۔۔۔۔۔