Delivery Boy Qatal Case Written By Raheel Qureshi

Delivery Boy Qatal Case Written By Raheel Qureshi

Delivery Boy Qatal Case Written By Raheel Qureshi

راحیل قریشی کا کالم

ڈلیوری بوائے قتل کیس یا یوٹیوبرز کے ہاتھوں درگت۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے معاشرے میں جہاں وقت کے ساتھ تیزی آ رہی ہے انسانی زندگی مشنری بن کر رہ گئی ہے وہاں پر ہی انسانی مثبت رویے،منفیت کا شکار ہو رے ہیں ہمارا معاشرہ اخلاقی گراوٹ کی نچلی ترین سطع پر پہنچ چکا ہے جب طاقت کا نشہ، پیسے کی ہوس، تشدد کی ذہنیت، طاقتورکمزور کو زمین بوس کرنے نکلا ہو تو انسانیت کا ماہ شرف،ظلمت اور جبر کے اتھاہ اندھیروں میں غروب ہوتا محسوس ہو رہاہوتا ہے۔وطن عزیز پاکستان میں ٹی۔وی سکرین سے لے کر اصل زندگی کے مناظر تک اور اخبارات کے صفحات سے لے کر برقی صفحات تک جا بجا غیر شائستہ اور اکھڑ انداز گفتگو سے ہمارا واسطہ پڑ رہا ہے۔شاذوناظرہی کوئی دن ہماری زندگی میں ایسا ہو گا کہ روڈ پر سفر کے دوران کوئی جذباتی مظاہرہ نہ دیکھنے کو ملے۔ عدم برداشت کا ا تنا فقدان ہو چکا ہے کہ سڑک پر جاتی ایک گاڑی دوسری گاڑی کو چھو جائے تو دونوں افراد بیچ سڑک پر رک کر تہذیب کا جنازہ نکال دیتے ہیں.

گزشتہ چند دنوں قبل سوشل میڈیا پر دلخراش واقعہ رونما ہوا جس میں ایک ڈلیوری بوائے رئیس کے دوران ڈلیوری پارسل ایک خاتون آمنہ کے ساتھ غیر مناسب، غیر اخلاقی تعلقات کا رازفاش ہونے پر اس کے شوہرفرحان نے ڈلیوری بوائے کو گھر بلاکر بے دردی سے قتل کر کے اس کی لاش کو آگ لگا دی تھی۔ڈلیوری بوائے رئیس قتل کیس کو بیشتر یوٹیوبرز نے جس جانفشانی سے اس کیس کو عوام الناس کے سامنے پیش کرنے کے لیے شب و روز صرف کیے ہر یوٹیوبر نے اپنی بے پناہ صلاحتیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کیس کے اصل حقائق کو جاننے اور عوام الناس کے سامنے پیش کرنے کے لیے انتھک محنت کی اور غیر جانبدار ہوتے ہوئے اس کیس کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق پیش کیا۔ یوٹیوبرز نے اس کیس کے مرکز ی ملز م فرحان اور اس کی بیوی آمنہ اور ڈلیوری بوائے رئیس کے اہلخانہ کے بیش بہا انٹرویو کیے اور ایسے ایسے حقائق منظر عام پر رونما ہوئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ غلطی یک طرفہ نہیں دوطرفہ تھی۔ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہیں نہ تو ہمارا دین ہمیں ایسے تعلقات کی اجازت دیتا ہے اورنہ ہی ہماری معا شرتی روایات اجازت دیتی ہیں کہ ایک شادی شدہ عورت کسی غیر مرد کے ساتھ تعلقات استوار کرے یا کوئی مرد کسی شادی شدہ عورت کی ذا تی زندگی میں داخل ہوتے ہوئے میاں بیوی کی زندگی جہنم بناتے ہوئے اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی بھی داؤ پر لگائے۔سوشل میڈیا پر جس طرح جذبہ حب الصحافت سے سرشار،بااصول، انسانیت کا درد محسوس کرتے ہوئے صحافتی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کرتے ہوئے عوام تک درست اور بروقت معلومات پہنچاتے ہیں وہ معلومات جن کا آپ تک گھر بیٹھے پہنچنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ معاشرتی درندو ں کے منفی پہلووں کو احسن طریقے سے بے نکاب کر تے ہیں۔ مگر کف افسوس!یہاں ہی ایسے نادان،سستی شہرت کے حامل یوٹیوبرز جنہیں ابھی صحافت کی اکائی بھی معلوم نہیں وہ اپنی غیر سنجیدگی کے باعث اس کیس کے فریقین کو اشتیال دلانے میں ہمہ وقت مصروف عمل ہیں۔ ملزمہ آمنہ سے ایسے ایسے فحش سوالات کر رہے ہیں کہ انسانیت ورطہ حیرت میں مبتلا ہو جائے اور ان کا لب و لجہ سن کر سوچ کے سمندر میں غوطہ زن ہو کہ یہ یوٹیوبرز ہیں یا تفتیشی افیسرز جو شطر بےمحال ہوئے ہیں۔ جن کی کوئی حدود و قیود ہی نہیں یے۔روزانہ ایسی ایسی ناز یبہ الفاظ پر مشتمل منفی طرزِ طریقہ ویڈیوز وائرل کر رہے ہیں روزانہ کی بنیادوں پر کیس کو توڑ مروڑ کر معاملہ کے فریقین کو تشدد کی راہ پر راغب کر رہے ہیں۔خیر کی راہ اختیار کرنے کی بجائے قاتل و مقتول دونوں کے خاندانوں کی یا کسی ایک خاندان کی رہنمائی کر کے معاملے میں مزید بگاڑ پیدا کر رہے ہیں۔ویڈیوز میں فرحان کو مجبور کررہے ہیں کہ اسے آمنہ کو بھی قتل کرنا چاہیے یا اب طلاق دے دینی چاہیے یا رئیس کے خاندان کے غم پر جلتی پر تیل کا کام کریں۔ذہنی پسماندہ،منفیت پھیلانے والے یوٹیوبرز یاد رکھے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مقتول کے وارثین کو جیسے شرعا قصاص کا حق حاصل ہے ایسے ہی قاتل کو معاف کرنے کا حق بھی موجود ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق مقتول کو معاف کرنے سے اس کا اجر اللہ پاک کے ہاں آخرت میں موجود ہے۔

حضرت وائل حضرمی سے روایت ہے کہ حضورﷺ کے پاس ایک قاتل کو پیش کیا گیا اسے مقتول کا وارث لے کر آیا تھا۔ حضورﷺ نے اسے فرمایا کہ کیا تو اسے معاف کرتا ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اسے قتل کرے گا؟ اس نے کہا جی۔ آپﷺ نے فرمایا جاو۔ جب وہ چل پڑا تو آپﷺ نے اس بلایا اور فرمایا کیا تو معاف کرتا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا تو دیت لے گا؟ اس نے کہا نہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا پھر تو اسے قتل کرے گا؟ اس نے کہا جی۔ آپﷺ فرمایا جاو۔ جب وہ چل پڑا تو آپ ﷺ نے فرمایا اگر تو اسے معاف کردے تو وہ تیرے اور تیرے مقتول کے گناہ کا ذمہ دار ہو گا لہذا اس نے اسے معاف کر دیا اور چھوڑ دیا۔میں نے قاتل کو دیکھ وہ اپنی تندی (یارسی) کو گھسیٹتا ہو جا رہا تھا۔ (سنن (نسائی حدیث 4727)

  لاہور پولیس کی مثال ہے کہ جب کسی مجر م کو پکڑنے کا ٹھان لے تو یہ نہ دن دیکھتے ہیں نہ رات، مجرم کو پکڑنے کے لیے یہ ملز م کو دوسرے ملکوں سے بھی پکڑ لاتے ہیں۔آئی جی پنجا ب ڈاکٹر عثمان انور کی سربراہی میں جس تیزی کے ساتھ پنجاب پولیس میں خوشگوار تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں عوام اور پولیس کے مابین خلیج کو کم کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔عوام براہ راست شکایت درج کرانے اور ان شکایات کے ازالے کے لیے 1787ہیلپ لائن کو مکمل فعال کیا ویب بیسڈ کمپلینٹ ریزولیوشن سسٹم قائم کیا اور اس سارے سسٹم کو خود آئی جی صاحب دیکھ رہے ہوتے ہیں بلکہ فالو اپ بھی لے رہے ہوتے ہیں۔رئیس قتل کیس میں بھی لاہور پولیس نے جس سوچ اور حکمت کے تحت ہر طرح کی ٹیکنالوجی کا استعمال عمل میں لا کر ملزم کو 24گھنٹے کے اندر گرفتار کر کے پابند سلاسل کیا ان کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔  جنہوں نے اپنے آرام سکون کی پروا کیے بغیر دن رات، اس کیس پر صرف کی اور اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہوئے انہوں نے اپنے ڈیپارٹمنٹ کا مورال بلند کیا اور واضح کیا کہ ہم قتل کے مجرم کو زیر زمین بھی نکال سکتے ہیں۔

ڈلیوری بوائے رئیس کے والدین کے لیے جواں سالہ بیٹے کی اچانک موت کا سننا ہی قیامت نہیں تھا جس بے دردی سے رئیس کی موت ہو ئی وہ قیامت خیز مناظرنے ہر ذی شعورکو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اولاد چاہے جیسی بھی ہو والدین کے جگر کا گوشہ ہوتی ہے۔ انکی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے ماں، باپ اولاد پیدا ہوتی ہے توانکے روشن مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں کہ کیسے یہ جلد از جلد جوان ہوں اور ہم ان کے بہتر مستقبل اور انکی خوشیاں دیکھیں۔جب بیٹا گھر سے باہر جاتا ہے تو مائیں دعائیں دینے کے لیے دروازے تک انکے پیچھے جاتی ہیں گھر واپس آنے پر سکون کا سانس لیتی ہیں۔باپ اپنے بیٹے کو جواں ہوتا دیکھ کر اپنے اپ کو مضبوط گردانتا ہے کہ وہ اب بڑی سے بڑی مشکل بھی آئے تو اسے کمزور نہیں کر سکتیں۔رئیس کے بوڑھے والدین کے لیے بڑھاپے میں جوان بیٹے کے قتل نے انکی روح کو لہولہان کر دیا۔قدرت نے اولاد کے لیے یہ شفقت صرف انسانی دل و دماغ میں ہی نہیں ڈالی بلکہ گائے، بھینس، بکری غرض ہر جانور میں اپنے بچوں کو بھیڑوں اور شیروں کی یلغار سے بچاتے بچاتے اپنی جان نثار کر دیتے ہیں۔ڈلیوری بوائے رئیس کے بوڑھے والدین کو زندگی میں واپس لانا ہو گا تاکہ ان کا دکھ کا مداواکم ہو سکے۔

امریکی لکھاری ریمنڈ کارور کا فسانہ ”زندگی“ یاد آ گیا۔ ایک ماں اپنے بچے کی سالگرہ کے لیے کیک کا آرڈر دیتی ہے مگر اگلے روز ہی اچانک اس بچے کا ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے اور وہ بچہ کومہ میں چلا جاتا ہے۔بچے کے اچانک ایکسیڈنٹ اور اس کے بعد کومہ میں چلے جانے سے والدین کربی کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ڈاکٹر انہیں اس کرب کی کیفیت میں حوصلہ دیتے ہیں کہ آپ لوگ پریشان مت ہوں آپ کا بچہ گہرئی نیند میں ہے جو کسی بھی وقت ہوش میں آ سکتا ہے۔اسی دوران بیکری والا جسے بچے کی سالگرہ کے کیک کا آرڈر دیا ہوتا ہے جو انہیں فون کرتا ہے کہ کیک تیار ہو چکا ہے اور اسے حاصل کرسکتے ہیں وہ کال اٹینڈ نہیں کرتے انہیں لگتا ہے جیسے انہیں کوئی تنگ کر رہا ہے۔ وہ غصہ میں فون کو بند کر دیتے ہیں اسی دوران ہسپتال سے ڈاکٹر انہیں افسوس ناک خبر سے آگاہ کرتے ہیں کہ لاکھ کوشش کے باوجود وہ انکے بچے کی زندگی کو نہیں بچا سکے۔یہ قیامت خیز خبر ان کی روح کو لہو لہان کر دیتی ہے جیسے آسمان ٹوٹ کر ان پر آن پڑا ہو۔گھر واپس آ کر وہ بچے کی آخری رسومات ادا کر کے فارغ ہی ہوتے ہیں کہ بیکری سے دوبارہ کال آتی ہے تو وہ جان جاتے ہیں کہ یہ تو بیکری والے کی کال ہے۔وہ غصے سے مغلوب ہو کر بیکری پہنچتے تاکہ اس کی خبر لے سکیں کہ وہ اس غم کی کیفیت میں انہیں کیوں پریشان کر رہا ہے۔  ان کے منہ لال تھے آستینیں چڑھی ہوئی تھیں، ماتھوں پر تیوریاں چڑ ھی ہوئی تھیں۔سخت ترین سردی میں جب وہ بیکری کے اندر داخل ہوتے ہیں تو بیکری خوشگوار گرماہٹ سے انکا استقبال کرتی ہے۔جیسے ہی وہ بیکری مینیجر کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے تذکرہ کرتے ہیں کہ تمہیں معلوم ہے کہ ہمارا جواں سالہ بیٹا اچانکایکسیڈنٹ سے رخصت ہو گیا ہے انکے چہرے اور منہ سے غمگین خبر سن کر بیکر ی مینیجر افسردہ ہو جاتا ہے۔کچھ دیر سکوت چھا جانے کے بعد وہ انہیں گرما گرم کافی پیش کرتا ہے۔جو انکے اندر مثبت تبدیلی رونما کرتی ہے اس دوران مینیجر انہیں اپنی تنہائی اور ادھیڑ عمری کے واقعات سناتا ہے وہ کافی اور بیکری کی اشیا ء کھاتے رہے اور انکی دلچسپ گفتگو سنتے سنتے صبح ہو گئی۔اب ان کا وہاں سے اٹھنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا زندگی اور موت کی اس سے بہتر تشریح ممکن نہیں۔ غم چاہے کتنا ہی بڑا ہو، جوان اولاد کا ہو یا بوڑھے والدین کا، زندگی میں واپس آنا ہی پڑتا ہے۔

بزرگوں کا قول ہے تلوار سر کاٹتی ہے اور تحمل و برداشت دل جیتتا ہے۔تلوار کی پہنچ گلے تک اور حلم و برداری کی پہنچ دلی کی گہرائی تک ہوتی ہے۔جہاں تلوار ناکام ہو وہاں عفوودرگزر فتح کا جھنڈا گاڑتا ہے۔

 




Post a Comment

Previous Post Next Post