Baap Ki Nasihat Written By Amna Ajmal

Baap Ki Nasihat Written By Amna Ajmal

Baap Ki Nasihat Written By Amna Ajmal

باپ کی نصیحت اور اللّٰہ پاک کی مدد

آمنہ اجمل، گجرات

 

شہر ایران کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں دو بھائی اپنے بوڑھے باپ کے ساتھ رہتے تھے۔وہ  دونوں بھائی بہت سمجھدار اور صابر تھے۔ ان کے ابا لکڑیوں کا کام کرتے تھے اور اسی سے گھر کا گزر بسر ہوتا تھا۔ان کی ایک چھوٹی بہن تھی جس کا نام فاطمہ تھا۔ وہ لوگ بے شک غریب تھے مگر ہمیشہ حق حلال اور دیانت داری سے کام لیتے تھے۔ فاطمہ کے ابا نے اپنے تینوں بچوں کو ایک بات کی بہت سختی سے تنبیہہ کی ہوئی تھی ” دیکھو بچو! زندگی میں تم پر چاہے

کتنا ہی کڑا وقت کیوں نہ آجائے مگر تم تینوں مجھ سے اس بات کا وعدہ کرو کہ تم تینوں اپنی زندگی میں کبھی جھوٹ کا ساتھ نہیں دو گے اورنہ ہی کبھی حرام  کےلقمے کو اپنے پیٹ میں جگہ دو گے۔

تینوں بچوں نے اپنے ابا سے وعدہ کیا کہ وہ اس وعدے کا پاس رکھیں گے اور کبھی بھی کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جس کی بنا پر ان کا سر شرم سے جھک جائے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ انھی دنوں میں فاطمہ کے ابا کی  طبیعت اچانک سے خراب ہوگئی اور وہ کام کاج کرنے سے بالکل عاری ہوگئے۔ باپ کی بیماری کی وجہ سے گھر کو چلانے کی زمہ داری اب فاطمہ کے بھائیوں کے سر پر پڑ گئی تھی۔ وہ روز صبح کو قریبی جنگل میں لکڑیاں کاٹنے جاتے اور پھر انھیں شہر جا کر بیچ آتے۔دونوں بھائی بہت ایمان داری اور لگن سے کام کرتے۔ گاہگ ان کی فرمانبرداری اور خوش اخلاقی سےمتاثر ہو کر زیادہ مال اب انھی سے خریدنے لگے تھے۔ ابا اپنے بیٹوں کی خوش اخلاقی کے چرچے سن کر بہت خوش ہوتے تھے۔ فاطمہ کے ابا کی طبیعت سنبھلنے کی بجائے مزید خراب ہونے لگی تھی اسی لیے یہاں کے ڈاکٹرز نے انھیں  شہر کے ہسپتال میں جا کر چیک اپ کروانے کا مشورہ دیا کیونکہ یہاں کی دوائیوں سے انھیں کوئی آرام نہیں مل رہا تھا۔ فاطمہ کے ابا نے ڈاکٹر کے اس مشورے کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا۔ وہ غریب لوگ تھے لکڑیاں بیچ کر اپنا گزارا کرنے والے بھلا اب وہ کہاں سے اتنی خطیر رقم لاتے جس کی مدد سے شہر کے بڑے اور مہنگے ہسپتال میں علاج ہوتا۔ بے شک شہر میں سرکاری ہسپتال بھی موجود تھے مگر فاطمہ کے ابا نے سن رکھا تھا کہ وہاں پر بھی کچھ ادویات ایسی ہوتی تھیں جن کو باہر کے میڈیکل اسٹورز سے خود کے پیسوں سے خریدنا پڑتا ہے۔  بس اسی بات نے انھیں شہر کے سرکاری ہسپتال میں  علاج کروانے سے محروم کر دیا تھا۔ جب یہ بات فاطمہ کے بھائیوں کو پتہ چلی تو انھوں نے اپنے ابا سے بات کرنے کی کوشش کی ۔ انھوں نے کہا کہ وہ کچھ دن گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں بناتے اور پھر ان بچے ہوئے پیسوں کو آپ کے علاج کے لیے مختص کر لیتے ہیں۔ مگر فاطمہ کے ابا نے صاف انکار کردیا۔ ایک صبح اچانک فاطمہ کے ابا کو دل کا دورہ پڑ گیا۔ جس کی وجہ سےان کی حالت بدتر ہوگئی۔ افراتفری کے عالم میں فاطمہ کے ابا کو شہر کے سرکاری ہسپتال میں لے جایا گیا مگر وہاں پر دو گھنٹے تک کوئی ڈاکٹر ان کے قریب تک نہ بھٹکا۔ فاطمہ کے بھائیوں نے ایک دو ڈاکٹرز سے التجا بھی کی کہ ان کے اباکی حالت بہت خراب ہے مگر کسی ڈاکٹر نے بھی ان کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔

فاطمہ کے بھائیوں  مایوس ہو کر اپنے ابا کو شہر کے ایک پرائیوٹ ہسپتال میں لے گئے جہاں پر جاتے ہی انھیں ایک لاکھ کا بل جمع کروانے کا پرچاتھمایا گیا ۔بل پر موجود رقم دیکھ کر دونوں بھائیوں کے طوطے اڑ گئے۔ انھوں نے کہا کہ ہم بہت غریب ہیں اور لکڑیاں بیچ کر اپنا پیٹ پالتے ہیں اس لیے انھیں شام تک کا وقت دیا جائے۔ہسپتال کا عملہ اچھا تھا انھوں نے دونوں بھائیوں کو شام تک کا وقت دے دیا۔ اب دونوں بھائی پریشانی کے عالم میں جنگل کی طرف چل دئیے اور لکڑیاں کاٹنے لگے۔ لکڑیوں کو بیچ کر جو  پیسے ملے بہت تھوڑے تھےاس لیے ان دونوں نے اپنے کسی قریبی دوست سے ادھار پیسے لینے کے بارے میں سوچا۔ مگر دونوں بھائیوں کو کسی جاننے والے نے ایک پیسہ تک نہ دیا۔ غریب لوگوں کا نہ تو کوئی رشتے دار ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی دوست احباب۔ اس بات کا اندازہ آج ان دونوں کو ہو گیا تھا مگر ان کے ایک رشتے دار نے انھیں ایک مفت کا مشورہ ضرور دیا تھا وہ مشورہ ذرا ملاحظہ فرمائیے گا ” دیکھ چھوٹے میرے پاس تو تم دونوں کو دینے کے لیے ایک دھیلا نہیں ہے مگر میں ایک لاکھ کا بندو بست کرنے میں تم لوگوں کی مدد ضرور کرسکتا ہوں۔ یہ بات سن کر دونوں بھائی خوش ہوگئے۔دونوں بھائیوں کا  رشتے دار انھیں کویت سے آئے ہوئےنظیر صاحب کے گھر چوری کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔اپنے رشتے دار کی بات سن کر دونوں بھائی پریشان ہو جاتے ہیں  مگر چوری کرنے کے علاؤہ ان کے پاس پیسے جمع کرنے کا کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔ جیسے ہی دونوں بھائی چوری کی غرض سے  نظیر صاحب کے گھر کی طرف جانے لگے ان میں سے اچانک ایک بھائی کو اپنے باپ کی نصیحت یاد آئی۔ اس نے دوسرے بھائی کو بھی اس نصیحت کی یاد دہانی کروائی کہ کس طرح ان دونوں نے اپنے بوڑھے باپ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کبھی حرام کے لقمے کو اپنی زندگی کا حصہ نہیں بننے دیں گے۔اس بات کے یاد آتے ہی دونوں بھائیوں نے اللہ پاک سے توبہ کی اور اس کی بارگاہ میں اپنی بےبسی سے نجات حاصل کرنے کے لیے دعا مانگی۔ جب دونوں بھائی مایوسی کے عالم میں ہسپتال  کی طرف روانہ ہوئے تو دیکھتے ہیں کہ ویران سڑک پر گاڑی کے پاس ایک شخص خون میں لت پت پڑا ہوا ہے۔دونوں بھائی فوراً سے اس زخمی کی مدد کرنے کے لیے آگے بڑھے اور اسے پانی کے چھینٹے مار کر ہوش دلوایا ۔ ایک بھائی نے اس زخمی کے زخموں پر اپنے آستین کو پھاڑ کر باندھ دیا۔ وہ زخمی شخص ہوش میں آنے کے بعد انھیں اسی پرائیوٹ ہسپتال جانے کو کہتا ہے جہاں پر ان دونوں کے ابا ایڈمٹ تھے۔وہ دونوں اسے اپنے کندھوں کے سہارے ہسپتال تک لے کر آتے ہیں ۔جیسے ہی وہ ہسپتال کے اندر داخل ہوتے ہیں تو ہر ڈاکٹر اور نرس ان کی طرف لپکتا ہے۔جس زخمی شخص کو وہ دونوں بھائی اپنے کندھوں کے سہارے ہسپتال تک لے کر آئے تھے وہ اس پرائیوٹ ہسپتال کا سنئیر انچارج اور مالک تھا۔سنئیر ڈاکٹر کو جب پتہ چلتا ہے کہ ان دونوں بھائیوں کا باپ بھی اسی ہسپتال میں علاج کے لیے داخل ہے تو وہ ان کے اچھے اخلاق اور صلح رحمی سے  متاثر ہو کر ان کے باپ کا نہ صرف مفت میں علاج کرتا ہے بلکہ ان دونوں بھائیوں کو اپنے ہاں ایک اچھی نوکری بھی دے دیتا ہے۔

نتیجہ: جب آپ اپنے والدین کا کہنا مانتے ہیں تو نہ صرف آپ برے کاموں سے بچتے ہیں بلکہ اللہ پاک کی طرف سے بھی مدد کی صورت میں انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔



Post a Comment

Previous Post Next Post