Aakhri Manzil Complete Novel By Dua Fatima

Aakhri Manzil Complete Novel By Dua Fatima

Aakhri Manzil Complete Novel By Dua Fatima

Novel Name : Aakhri Manzil
Writer Name: Dua Fatima
Category : LATEST COMPLETE NOVELS
Novel status : Complete

Akhri Manzil revolves around the life of a boy who is always thinking to start preparing for his qayamat but always delays those practices. He, one day, saw a dream in which he saw the whole azaab and tormenting of qabr. That proves to be his turning point. The other main lead is hurrem who is very self conscious. She values her self more than anything.

دنیا اختتام کو پہنچی۔۔۔دیکھو۔۔۔پہچانو اس جگہ کو۔۔۔تم کہاں ہو؟”، وہ اپنی طوفان جیسی آواز میں کہہ رہے تھے اور قسم خدا کی۔۔۔ایسی ہولناک آواز اس نے آج تک نہیں سنی تھی۔ “تم اپنی قبر میں ہو۔۔۔اب ہمیں بتاؤ!”

اور پھر اس نے ان کی طوفان جیسی کڑکتی ہوئی آواز سنی تھی۔۔۔وہ ،وہ تین تاریخی سوالات کر رہے تھے جن کے جواب سب سے سہل تھے۔ آسان ترین۔۔۔جو اس کو زبانی ازبر تھے۔۔۔

من ربک؟؟؟ ”، پہلا سوال آندھی کی طرح اس وسیع قبر میں گونجا تھا۔

سوال تو آسان تھا کیونکہ اس کا ذہن تو جانتا تھا کہ اس کا رب اللہ ہے۔۔۔اس کی زبان بھی یہ کہنا چاہتی تھی۔۔۔مگر پتا نہیں کیسے یہ الفاظ اس کی زبان سے ادا نہیں ہو پا رہے تھے۔۔۔اس کو اپنی زبان کسی پنجرے میں قید معلوم ہو رہی تھی۔۔۔وہ کہنا چاہتا تھا  “ربی اللہ”، مگر جو منہ سے نکلا وہ بہت خطرناک تھا۔ اس وقت منکر و نکیر کے سامنے اس کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ “مجھے نہیں پتا”، تھے۔ وہ دو سیکنڈز کے لۓ تو خود بھی حیران رہ گیا تھا۔۔۔یہ اس نے کیا کہہ دیا تھا؟ اسے یہ تو نہیں کہنا تھا۔۔۔اسے تو کچھ اور کہنا تھا۔

بے اختیار اسے اپنی دنیاوی زندگی یاد آئی تھی۔۔۔اپنا بھرم اور اپنا غرور پتا نہیں کیوں اچانک سے یاد آیا تھا۔کیسا رعب تھا اس کا۔۔۔کیا انداز تھا۔۔۔کیا ادائيں تھیں۔کیا ہی بات تھی۔

ما دینک؟؟؟”، دوسرا سوال آندھی کی طرح قبر میں گونجا تھا۔ اس کا دل ان طوفان جیسی آوازوں پہ دہل گیا تھا۔

دوسرا سوال بھی آسان تھا۔۔۔بہت آسان۔۔۔اور جواب تو اس سے بھی زیادہ آسان تھا۔اسے تو پتا تھا کہ وہ اسلام کا پیر و کار ہے۔اس کا دین تو اسلام تھا۔۔۔پیدائش کے وقت اس کے کان میں اذان دی گئی تھی اور وہ اذان اسے مسلمان ہی تو کرتی تھی۔۔۔مگر بیچارہ حیدر۔۔۔وہ شاید بھول گیا تھا کہ اذان کے وقت خاموش ہوجانے سے کوئی اسلام کا پیر و کار نہیں بن جاتا۔۔۔عید کے عید نماز پڑھنے سے کوئی اسلام کو دین نہیں بنا لیتا۔۔۔سالانہ صدقہ دینے سے مسلمان نہیں ہوا جاتا۔۔۔رمضان میں گناہوں سے خود کو روک کے کوئی اسلام اور ایمان کی میراث نہیں حاصل کر لیتا۔۔۔وہ یہ سب واقعی بھول گیا تھا۔

جب بولا تو آواز تھر تھر کانپ رہی تھی۔

مجھے نہیں پتا۔”، اتنی شرمندگی تو اسے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ بھلا پوری زندگی گزار دی پر آج تک اس بات کا علم نہ ہو سکا کہ اس کا دین کیا ہے۔بیس سال کوئی کم عرصہ تو نہیں ہوتا اپنا دین ایمان جانچنے اور پہچاننے کے لۓ۔

ما نبیک؟؟؟”، ویسی ہی کڑکتی آواز میں تیسرا سوال پوچھا گیا تھا۔ نبی کون تھا اس کا؟ ہاں۔۔۔اس کا جواب تو اسے پتا تھا۔۔۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم تھے اس کے نبی۔۔۔پتا تو اس کو تھا پر پتا تو اس کو پہلے دو سوالوں کا جواب بھی تھا۔ وہ تھر تھر کانپتا وجود لیے ایک بار پھر وہی جواب دے چکا تھا جو پہلے دو سوالوں کے جواب میں دیا تھا۔ “مجھے نہیں پتا۔

لیکن سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیوں اس کے منہ سے صحیح جواب نہیں نکل پا رہا تھا۔ مگر شاید حیدر شاہ زادہ بھول گیا تھا کہ صرف یقین اور مان لینے سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمارے نبی نہیں ہو جاتے۔ ان کو ماننے کا مطلب ہے ان کے کہے پر عمل کرنا۔۔۔ان کے اعمال و سنت کی پیروی کرنا۔۔۔ان کی حدیث و فرمان پر عمل کرنا۔۔۔مگر دنیا کی زندگی میں تو حیدر شاہ زادہ اپنے آپ کو فالو کیا کرتا تھا۔ اس کے نزدیک اس سے بہتر ذات تو کسی کی تھی ہی نہیں۔وہ تو خود کو سب کا رول ماڈل گردانتا تھا۔ایسوں کا انجام تو پھر ایسا ہی ہوا کرتا ہے نا۔

منکر و نکیر نے اسے دیکھا تھا اپنی چمکتی آنکھوں سے اور پھر اس نے ان کا بڑا اور بھاری ہتھوڑا اٹھتا ہوا دیکھا تھا۔ وہ ہتھوڑا اس ہی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ایک فلک شگاف چیخ اس کے حلق سے نکلنی تھی پر نکلی نہیں۔ ہتھوڑا پوری قوت سے اس پر برسایا گیا تھا۔ اور اسے وہ ہتھوڑا اتنی قوت سے لگا تھا کہ چند لمحوں کے لئے پوری قبر اس وار سے نکلنے والی چنگاریوں سے روشن ہو گئی تھی۔ اتنا درد۔۔۔اتنی تکلیف۔۔۔تو اسے آج تک نہیں ہوئی تھی۔ جسم بری طرح درد کر رہا تھا۔

اوپر دیکھو۔”، منکر اور نکیر نے اس سے کہا تو وہ اوپر دیکھنے لگا۔ اس کے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا۔  اس کے بالکل اوپر ایک دروازہ وا ہوا تھا۔ ایسا دروازہ بھی اس نے آج تک نہ دیکھا تھا۔۔۔مگر زیادہ حیران کن وہ منظر تھا جو اس نے دیکھا۔۔۔اور زندگی میں پہلی بار اسے کوئی جگہ  دیکھ کے دل سے یہ الفاظ ادا کرنے پڑے تھے، “ہاں یہی جنت ہے۔”، ہاں! وہی جنت تھی۔۔۔اتنے خوبصورت باغات۔۔۔اتنی خوبصورت ندیاں۔۔۔اتنے دلکش مناظر دنیا میں تو نہیں ہو سکتے تھے۔۔۔اس کے دل نے گواہی دی تھی کہ ہاں، یہی جنت ہے۔۔۔بھلا جنت سے زیادہ خوبصورت بھی کوئی جگہ ہے؟ کوئی چیز ہے؟ کوئی مقام ہے؟ اور اس وقت اس کی آنکھوں میں عجیب سی نمی چھلکی تھی۔

اے اللہ کے دشمن!”، آواز پھر سے گونجی تھی۔ وہ دم سادھے انہیں سنے گیا۔

اگر تم اللہ کی عبادت کرتے، تو یہ تمہاری منزل تھی!”، وہ آواز اب کی بار اتنی خوفناک نہیں لگی تھی جتنے وہ الفاظ لگے تھے۔تو یہ وہ تھا جو اس نے گنوا دیا۔۔۔اپنے ہاتھوں سے۔۔۔اپنے ان ہاتھوں سے جن کی مہارت پہ اسے ساری زندگی بہت فخر رہا تھا۔ کیا فائدہ اس مہارت کا جب سب سے قیمتی چیز ہی گنوا دی تھی؟اتنا پچھتاوا اسے آج تک کسی چيز کا نہیں ہوا تھا جتنا آج، اس وقت، اس لمحہ ہوا تھا۔اس نے اپنی جنت گنوا دی تھی۔وہ تڑپ رہا تھا واپس دنیا میں جانے کے لیے، پر کیا اب جانا ممکن تھا؟ کاش وہ کوئی نیک اعمال کر لیتا۔۔۔کاش وہ اللہ کی عبادت کر لیتا۔۔۔کاش وہ اپنے دین اور ایمان پہ توجہ دے دیتا۔۔۔کاش وہ قبر کی تیاری کو بڑھاپے کے لیے بچا کر نہ رکھتا۔۔۔کاش وہ اپنے اعمال درست کر لیتا۔۔۔کاش وہ نیکی کے کام کر لیتا۔۔۔کاش وہ اس عذاب سے پہلے باخبر ہوتا تو وہ گناہ نہ سر زد کرتا۔۔۔کاش وہ اللہ سے اب واپس جانے کی مہلت مانگ سکتا۔۔۔کاش وہ دنیا میں واپس جا کر اپنے اعمال سدھار سکتا۔۔۔کاش وہ ایک اور موقع حاصل کر سکتا۔۔۔کاش اس کو ایک موقع۔۔۔صرف اور صرف ایک موقع مہیا ہو جاتا۔۔۔کاش!

اور آخر میں بس یہ ‘کاش ‘ہی بچ جاتا ہے۔۔۔صرف گہرا پچھتاوا انسان کو اپنے شکنجے میں لے لیتا ہے۔۔۔وہ نہ دنیا کا رہتا ہے نہ دین کا۔۔۔نہ وہ اس دنیا میں کامیابی حاصل کر  پاتا ہے نہ آخرت میں کامیاب ہو پاتا ہے۔حیدر شاہ زادہ کو آج اپنے وجود سے بے حد نفرت ہو رہی تھی۔۔۔بے حد گھن آرہی تھی۔۔۔یہ اس نے کیا کر دیا تھا؟ اپنی دنیاوی زندگی کے لۓ اپنے اصل کو فراموش کر دیا تھا؟اپنی اصل زندگی کو بھلا بیٹھا تھا؟

پھر جہنم کے دروازے وا کیے گئے تو اسے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی خیز لہر دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔جنت جتنی خوبصورت اور دلکش تھی، جہنم اتنی ہی خوفناک اور ہیبت ناک تھی۔۔۔جلتے انگارے جیسے اس نے کہیں نہ دیکھے تھے۔۔۔آگ۔۔۔تپش۔۔۔لاوا۔

سب بیان سے باہر تھا۔۔۔تو وہ اس کا مستحق تھا؟ حیدر شاہ زادہ واقعی اسی جہنم کا ہی  مستحق تھا۔۔۔نیکی تھی بھی کہاں اس کی کوئی؟

 

Kitab Nagri start a journey for all social media writers to publish their writes.Welcome To All Writers,Test your writing abilities.
Aakhri Manzil Complete Novel By Dua Fatima is available here to download in pdf form and online reading.
Click on the link given below to Free download Pdf
Free Download Link
Click on download
give your feedback

ناول پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے ڈاؤن لوڈ کے بٹن پرکلک کریں
 اورناول کا پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کریں  👇👇👇
 


Direct Link


Free MF Download Link


FoR Online Read

ناول پڑھنے کے بعد ویب کومنٹ بوکس میں اپنا تبصرہ پوسٹ کریں اور بتائیے آپ کو ناول

 کیسا لگا ۔ شکریہ


Post a Comment

Previous Post Next Post