Azaadi by Aroosa Younis

Azaadi by Aroosa Younis

Azaadi by Aroosa Younis

آزادی
آزادی ، حقوق ، عزت اور مقام کی جنگ جو لڑی جا رہی ہے اسے کسی طور بھی غلط کہنا صرف نا مناسب ہی نہیں ہو گا  بلکہ ناانصافی بھی ہو گی، عورت اور مرد کی یہ  حقوق کی لڑائی جو آج ہر گھر میں لڑی جا رہی ہے ، دلائل پہ دلائل دیے جا رہے ہیں ، الگ الگ خیالات سامنے آتے جا رہے ہیں ، اب یہ لڑالی بحث مباحثے سے بڑھ کر جنگ کی صورت احتیار کر چکی ہے .
آزادی ہر ایک ذی روح کا حق ہے ، چاہے وہ جسمانی آزادی ہو یا ذہنی آزادی ہو .مرد اور عورت دونوں آزادی کے حقدار ہیں ، لیکن آزادی کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ حقوق کی آڑ میں اپنی حدود کو بھولے ، خود سری کی زندہ مثال بن کر گلیوں میں آزادی مانگتی پھریں ، فیمینیزم کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ نازیبا الفاظ کے پوسٹر ہاتھوں میں اٹھائے ، چیختے چلاتے ہوئے سڑکوں کی رونق بن کر پھریں ،فیمینیزم کے نام پہ بدتمیزی ، فاحش گوئی ، بے عزتی ، گستاخانہ لہجہ اور زبان درازی کرنا عورت کے نام پہ سیاہ دبہ لگانے کے مترادف ہے ،عورت کے نام کو ذلیل ورسوا کرنے کے برابر ، اپنے آپ کو کمزور تسلیم کرنے کے برابر ہے  اپنا حق طلب کرنا جرت مند ، بہادر اور دلیر انسان کی نشانی ہے ، اور دین و ایمان کے مختص کیے گے دائرے کے اندر رہ کر اپنا حق طلب کرنا تو کیا چھین کہ لینا بھی جائز ہے   اور عورت کوئی ٹوٹی ، بکھری ہوئی کمزور شے نہیں ہے جسے اپنا حق مانگنے کے لیے چیخنے چلانے کا سہارا لینا پڑے ، عورت مضبوتی میں اپنی مثال آپ ہے ، نا جھکنے والی ہے نا ٹوٹنے والی ہے ، نا پست قدم ہے ، نا ہی گھبرا کر میدان چھوڑنے والی ہے ، وہ نڈر ہے ، بے خوف ہے ، با ہمت ہے اور اپنے مقام کو سمجھنے والی ہے ، اپنی ذات کو ہر دم عزت دینے والی ہے ، نا اسے طوفانوں کا خوف ڈراتا ہے اور نا مخالف ہواوں کا رخ اسے راستہ بدلنے پہ مجبور کرتا ہے ، جہان ایک طرف وہ اپنے جذبات کی جنگ میں فتح پانے والی ہے تو وہیں دوسری طرف احساس اور نرم گوشہ رکھنے والی بھی ہے ، تکالیف کو زندہ دلی سے برداشت کرنا ہمیشہ سے عورت کا شیوا رہا ہے .
صنفی تعصب کی جنگ نے اودھم مچا رکھی ہے ، افراتفری کے عالم میں الجھے ہوئے خیالات اس جنگ میں جلتی پہ تیل کا کام سرانجام دے ریے ہیں اور حقیقی معانے میں جن مسائل پہ توجہ دی جانی چاہیے تھی اس پہ بات بہت کم کی جا رہی ہے ، ظلم وستم کی بھڑ چڑھتی ہوئی عورتیں جن کو آج بھی بولنے تک کا حق نہیں دیا گیا ، تعلیم کا حق نہیں دیا گیا ، ان کی سوچوں کو غلامی کی زنجیروں سے جکھڑا گیا ہے ، ان کے خوابوں پہ پابندی لگا دی گی ہے ، ڈر اور خوف کے سائے میں پلتی ہوئی ایسی ہزاروں بچیاں جن کی امیدوں کے پنکھ کاٹ کر ، ان کی پیشانی پہ غلامی کی مور لگا کر ان کے ہونٹوں پہ تالے لگا دیے گے ہیں ، ہزاروں غریب لاچار بے بس  عورتیں جن کو شادی کے نام پہ کسی کالی کوٹھری میں بند کر دیا جاتا اور ظلم و بربریت کے سارے بادل ان پہ اس لیے برسائے جاتے ہیں کیوں کہ غریب ماں باپ کی بیٹیوں کی ڈولی اٹھنے کے بعد صرف لاش ہی اٹھتی ہے ، ہزاروں لڑکیاں جن کے تقدس کو پامال کیا جاتا ہے ، ان کی عزتوں کو کرچی کرچی کر کے بکھیر دیا جاتا ہے اور پھر کسی نالے ، کسی کھیت یا کسی گھٹر سے ان کی لاش ملتی ہے اور اس پر بھی مورد الزام اسی کو ٹھرایا جاتا ہے ،کبھی بدچلن تو کھبی بھٹکی ہوئی ، کبھی آوارہ تو کھبی بے غیرت ، سر راہ چلتے چلتے کوئی بھی تیزاب پھینک کر چلتا بنے گا اور اس عورت کی زندگی کو جہنم سے بدتر بنا دے گا، آج بھی دنیا میں ہزاروں گھرانے ایسے ہیں جہان بیٹی پیدا ہونے پہ ماں کو طلاق کے تین لفظ بول کر گھر سے باہر نکال پھینکا جاتا ہے ، بیٹی پیدا ہونے کو بد قسمتی سمجھا جاتا ہے ، بیٹی کو نا قابل برداشت بوجھ سے تشبیخ دی جاتی ہے ، جہیز کے چند رپوں کیلے عورت کو زندہ جلا دیا جاتا ہے ، آج بھی کئی علاقوں میں عورت کو پاوں کی دھول سمجھا جاتا ہے ،تیسرے درجے کی چیز تصور کیا جاتا ہے ، اب بظاہر  زندہ درگور تو نہیں کیا جاتا لیکن ہزاروں ایسی خواتین ہیں جن کے جذبات ، احساسات ، حقوق اور خواب درگور کر کے انھیں زندہ لاش بن کر زندگی گزانے پہ مجبور کیا جاتا ہے ، رشتوں کی دھائی دے کر ان کے حصے کی خوشیوں کو کسی اور کے مزار کی زینت بنا کر سجا دیا جاتا ہے ، ہونٹ سیے پوری زندگی چپ کا روزہ رکھ کر گزارنے کو کہا جاتا ہے ، اس کا مقام چھین کر اسے دہلیز پر  کسی فقیر کی مانند کھڑا کر دیا جاتا ہے .
کیا ہم آگاہ نہیں ان سب حقیقتوں سے یا ہم بے حسی کی پٹی اپنی آنکھوں پہ باندھے اپنی مرضی سے اسے نظر انداز کر رہے ہیں ؟ ذرا ٹھریے اور سوچیے ! کیا اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے آپ کا عورت ہونا ضروری ہے ؟ نہیں ہر گز نہیں   

 عورت اور مرد کے اس تعصب سے بالا تر ہو کر سوچیے ، ان سب مسائل کے حل کیلے آواز اٹھانے کیلے آپ کا انسان ہونا ضروری ہے ،آپ کے اندر کی  انسانیت آپ کو مجبور کرے گی بولنے پہ ، آپ کی چپ کو توڑنے پہ .اگر آپ فیمینیزم کے اس بھاری بھرکم لفظ کو استمعال کر رہے ہیں تو کسی اچھے اور مثبت کام کے لیے کریں نہ کہ غیر ضروری تعصب  ، جنگ اور نفرت پھیلانے کے لیے ، عورت مارچ کا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کی خلاف ورزی کریں بلکہ اس کا مقصد ان عورتوں کو اپنے حقوق کے بارے میں آگاہ کرنا ہے جو اپنے حقوق سے ناآشنا ہیں ، ان کو ہمت دلانا ہے کہ وہ مضبوط ہیں اور انھیں اپنے حق کی جنگ کیسے لڑنی ہے ، عورت مارچ اگر فاحشی ، عریانی ، تکبر ، غلط بیانی ،تعصب، غصہ،تکرار اور جنگ کو طول دیتی ہے تو یقینا یہ فیمینیزم میں تو نہیں آتی ، اگر آپ کسی قوت اور طاقت کے حامل ہیں تو آپ پر فرض ہے کہ آپ کمزور کی مدد کریں  پھر چاہے وہ مرد ہو یا عورت .

ہمارے حقوق اللہ نے ہمارے لیے پہلے سے مختص کر دیے ہیں ، چاہے وہ  علم حاصل کرنا ہو یا  عزت  جا و  مرتبے کا حق ، جائیداد میں حصہ ہو یا پال پوس کر شادی کروانا ہو ، بیوی کیلے نرم گوشہ رکھنے کا حق ہو یا ماوں کے قدموں تلے جنت ہو .ہر ایک ایک حق کو صاف شفاف الفاظ میں قرآں و حدیث میں بیان کر دیا گیا ہے ،
جب اللہ نے خود عورت کو ان حقوق سے نوازا ہے تو یہ حقوق کسی کی میراث نہیں ہیں جو کوئی یوں ہی دینے سے انکار کر ئے ، ارادے اتنے مضبوط ہوں کے چٹان سے ٹکرا کر بھی نا ٹوٹیں ، باآواز بلند ، یک زباں ہو کر بول پڑھو جو حق دیا ہے اللہ نے وہ حق ہم لے کے رہیں گے ، نا رکیں گے ، نا ڈریں گے ، نا دب کے اب ہم رہیں گے ، جنگ لڑو تو لڑیں گے پر جو حق دیا ہے اللہ نے وہ تو ہم لے کے رہیں گے



Post a Comment

Previous Post Next Post