Dastan Umar Marvi written by Riaz Ahmad

Dastan Umar Marvi written by Riaz Ahmad

Dastan Umar Marvi written by Riaz Ahmad

"داستان عمر ماروی"

تحریر ریاض احمد

سعودی عرب

لفظ محبت کا خیال آتے ہی ہر شخص کے ذہن  میں لیلیٰ اور مجنوں کی کہانی آنے لگتی ھے دراصل اس انسانی معاشرے نے شاید کبھی اپنی ذات سے آگے کا سوچا ہی نہیں ہے ورنہ محبت  صرف انسانوں کی آپس میں نہیں ہوتی ہے بلکہ انسانی تاریخ  میں ایک ایسی محبت بھی  ہے جو صرف اور صرف اپنے وطن کی مٹی سے  وابستہ ہے.
    دور حاضر کے اگرچہ مزاج بدل چکے ہیں لیکن  محبت کی اس کہانی میں بہت سی باتیں قابل غور ہیں زیر نظر تصویر میں
یہ وہی قلعہ ہے جس سے عمر ماروی (مارئی) کی مشہور لوک کہانی وابستہ ہے۔ یہ کہانی بادشاہ عمر سومرو کے زمانے (1390-1355) کی ہے، جو اُس وقت بادشاہ تھا اور اس کوٹ (قلعے) میں رہتا تھا۔ تھر کے علاقے ملیر کی ماروی کو عمر بادشاہ وہاں سے اُٹھا کر اس کوٹ میں لایا اور شاہی محل میں قید کر دیا  ماروی کون تھی؟ماروی دراصل صحرائے تھر کے علاقے ملیر کی حسین و جمیل خوبصورت لڑکی تھی گاؤں کے پھوگ نامی شخص نے بادشاہ  کو ماروی کے حسن و جمال کی شاعرانہ انداز میں تعریف کی تو بادشاہ  ماروی کے گوٹھ کی طرف نکل پڑا  بادشاہ جب جب ماروی کے گوٹھ پہنچا تو اس وقت ماروی سہیلیوں کے ساتھ کنویں سے پانی بھر رہی تھی بادشاہ ماروی کو دیکھتے ہی ہوش و حواس کھو بیٹھا اور زبردستی اپنے اونٹ پر بٹھا لیا اور عمر کوٹ لے آیا قلعے میں قید کرنے کے بعد ۔ وہ مسلسل اس کوشش میں لگا رہا کہ ماروی اس محل کی مہارانی بن جائے، مگر ماروی کو نہ محل سے دلچسپی تھی اور نہ خوبصورت کپڑوں اور طرح طرح کی خوراک سے۔ وہ ہر حالت میں واپس اپنے ملیر جانا چاہتی تھی سندھ کے مشہور صوفی شاعرشاہ عبدالطیف بھٹائی نے ماروی کے اس حُب الوطنی کے جذبے کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا اور اپنے 'شاہ جو رسالو' میں "سر مارئی" تخلیق کر کے عمر ماروی کی داستان اور ماروی کے جذبہء حب الوطنی کو امر کر دیا۔ شاہ عبدالطیف سائیں قلعے کی زندگی سے ماروی کی عدم دلچسپی یوں بیان کرتے ہیں: شیخ ایاز صاحب کے ترجمے کے ساتھ

اپنے گھر کی رنگی ہوئی لوئی

کیوں نہ ہو رشکِ اطلس و کمخواب

اے عمر کیا ہے اس کے سامنے

مخملیں بافتے کی آب و تاب

میں نہ پہنوں گی ریشمی ملبوس

چاہے جس رنگ کا بھی ہو کوئی

جان سے بھی عزیز ہے مجھ کو

اپنے پنہوار کی رضا جوئی ، میرے گھر کی رنگی ہوئی رضائی تیرے عیش و عشرت کے بستروں سے زیادہ اہم ہے مجھے شاہی محل کے کسی رنگ یا ریشم کی کوئی ضرورت نہیں ہے مجھے اپنے ملیر کے صحرا کی خوشی یا فضا ہی کافی ھے

عیش و آرام کا لالچ جب کارگر نہ ہوا، تو عمر نے ماروی کو قید و بند کی صعوبتیں دیں مگر قلعے کی پر تعیش زندگی سامنے ہونے کے باوجود ماروی اپنے ملیر، اپنی جھونپڑی اور اپنے غریب رشتے داروں کو بھول نہ سکی۔ آخرکار عمر کو جب یقین ہو گیا کہ زور کی مہندی نہیں لگنی تو اُس نے بڑے احترام سے ماروی کو قید سے آزاد کر دیا۔

اور اب ماروی کا یہ کردار ایک قابل رشک کردار بن گیا ہے۔ لطیف سائیں ماروی کی زبان میں کہتے ہیں:

"خدا شاہد ہے جب روحوں نے باہم، کیے روزِ ازل کچھ عہد و پیماں،

نہ جانے کیوں اسی دن سے ہیں مجھ کو،
 بہت پیارے یہ سب نادار دہقان"

"کیا ہے قید مرے جسم و جان کو، عبث اے سومرا سردار تو نے،

نہ جانے کیوں ہے یہ ایذا رسانی، دیے کیوں روح کو آزار تو نے،

ازل ہی سے ہے مرے دل کو ودیعت، ہوئی ہے پیارے 'مارو' کی محبت۔"خدا جانتا ہے کہ کیوں جب روحوں نے وعدے کئے تھے اس دن سے
مجھے یہ نادار کسان پیارے ہیں ماروی نے پھر بادشاہ عمر سے کچھ شکوہ بھی کیا   تاریخ کہتی ہے کہ ماروی نے بھوک ہڑتال کے دوران جو وطن کی محبت میں الفاظ کہے تھے وہ یہ تھے  اگر میں مرجاوں تو میری لاش میرے اپنوں کے حوالے کرنا اس سے میری روح کو سکون ملے گا اور اگر میری ہڈیاں بچ جائیں تو پھر بھی مجھے میرے وطن بھیج دینا میری روح خود ہی لوٹ آئے گی  واپسی پر ماروی کی پاکدامنی چیلنج کر دی گئی تو ایک قول کے مطابق تو اس نے گرم سیخیں ہاتھ میں اٹھا کر اپنی صفائی پیش کی  دوسرے قول کے مطابق خود بادشاہ عمر سومرو نے گواہی دی ،ایک سال تک بادشاہ وقت وقت کے ساتھ لڑنے والی بہادری ماروی شادی کی رات صرف یہ سوچ کر مرگئی کے اس کا شوہر دوبارہ تو اس کی پاکدامنی پر سوال نہیں اٹھائے گا ؟بہرحال ماروی رول ماڈل ہے وطن سے محبت کرنے والوں کےلئے“اے میری زمین افسوس نہیں
جو تیرے لئے سو درد سہے
محفوظ رہے تیری آن سدا
چاہے جان بھی رہے نہ رہے
 رشتوں کو نبھانے والوں کے لئے تاریخ سندھ میں مذکور کردار کی حامل ماروی کا کنواں آج بھی اداس ھے سندھ کی حکومت کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے تاریخی مقامات بہت تیزی سے کھنڈرات کا منظر پیش کرنے لگے ہیں



Post a Comment

Previous Post Next Post