Bint Aadam Aur Hamara Mashra

Bint Aadam Aur Hamara Mashra

Bint Aadam Aur Hamara Mashra

اری او سکینہ کچھ سنا تم نے ?اری او بلقیس ذرا ادھر آئیو .غضب ہوگیا .کچھ خبر ہے تم سب کو ?قیامت ٹوٹ پڑی .محلّے کی سب عورتیں مجمع کی صورت اکٹھی ہوتی جا رہی تھیں .گلی کے نکڑ پے جو گھر ہے نا .

ابھی پچھلے مہینے جن کی منجھلی لڑکی کی شادی ہوئی تھی .اس کو طلاق ہو گئی ہے .وہ بختاں کی بیٹی ? ہاں وہی وہی .سنا ہے  ولیمے کے دن ہی ان کی اچھی خاصی لڑائی ہو گئی تھی .اس کے لچھن ٹھیک نہیں تھے .اس کی ساس سے بھی میری ملاقات ہوئی تھی وہ بتا رہی تھی کہ قینچی کی طرح زبان چلاتی تھی اسلئے شوہر سے نہیں بن سکی .اس نے تین لفظ کہہ کر فارغ کر دیا ..یہ ہمارے محلے کی ماسی خیرن تھیں جو صبح شام ایسی خبریں ادھر سے ادھر پھیلانے کا کام بڑی تسلّی سے انجام دیتی تھیں . وہ صرف نام کی خیرن تھیں حرکتیں اور عادتیں ان کے نام کے بالکل برعکس تھیں .فی الوقت جو تڑکا لگا کے خبر پھیلا رہی تھیں وہ شمیلہ کی طلاق کی بات تھی جسکو سب شمو کہتے تھے .بمشکل مہینہ پہلے اس کی شادی ہوئی تھی .کوئی کہہ رہا تھا لڑکی کے چال چلن ٹھیک نہیں تھے .کوئی کہہ رہا تھا زبان درازی کی وجہ سے طلاق ہوئی .ساس سے نہیں بن سکی .خدا پناہ کچھ عورتیں تو یہ تک کہہ رہیں تھیں کہ لڑکی کا کسی کے ساتھ چکّر چل رہا تھا بھانڈا پھوٹ جانے پر طلاق ہوگئی .حالاں کہ میں اس محلے میں مقیم ہونے کی وجہ سے ذاتی طور پے اس لڑکی کو جانتی ہوں . عورتوں کی لگائی ہوئی تہمتوں میں کوئی سچائی نہیں تھی. سب باتیں سنی سنائی خبروں پے مبنی محض من گھڑت قیاس آرائیاں تھیں .انتہائی حیرت کی بات ہے اور افسوس کی بھی کہ سب کی زبانیں صرف لڑکی کی کردار کشی کر رہی تھیں .لڑکے یا اس کے گھرانے کے متعلق ایک بات تک کسی نے نہیں کی .ضروری تو نہیں کہ لڑکی ہی منہ پھٹ ہو .کسی نے یہ تو نہیں کہا کہ لڑکا منہ پھٹ اور جھگڑالو تھا ,اسکا کسی کے ساتھ چکّر چل رہا تھا .کیا بدکردار صرف لڑکی ہی ہو سکتی ہے ?

ہرگز نہیں .اگر مرد حضرات بھی کردار کی تہہ شدہ حد سے گر جایں گے تو وہ بھی بدکردار ہی کہلایں گے .اگر عورت کا حیادار اور وفادار ہونا شرط لازم ہے تو وہی قاعدے اور قانون مرد پے بھی لاگو ہوتے ہیں .اگر نباہ کے لئے عورت قربانی دے سکتی ہے  تو سمجھوتہ کر لینے سے کم مرد کی بھی شان نہیں ہوتی .اور یہ کیا بات ہوئی کہ ساس سے نہیں بن سکی .ضروری تو نہیں ہر بار بیوی اور بہو ہی غلط ہو .میں اور آپ سب ایسی بہت سی کہانیاں جانتے ہیں جہاں ساس بھی بہو کے ساتھ ظلم کرتی ہے اور تو اور اپنےماضی کے ہونے والے مظالم کے بدلے بھی بیچاری بہوؤں سے لیتی ہیں .کہیں بہو غلط ہے اور کہیں ساس .کہیں شوہر  قصوروار ہے اور کہیں بیوی .اور کبھی کبھی معاملات دونوں طرف سے بگاڑ والے ہو سکتے ہیں  .جیسے تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے تو اس معاملے میں صرف بہو بیوی ہی کیوں نشانہ بنتی  ھے ? ہر بار ہماری توپوں کا رخ اکیلی لڑکی کی طرف ہی کیوں ?یہ سب ہماری قیاس آرائیاں ہوتی ہیں . ہم ہمیشہ ناکام شادی اور طلاق کا ملبہ اکیلی عورت کے سر پے کیوں تھوپ دیتے ہیں ?مرد کیوں بری الذمہ ہوجاتا ہے  ?سوچ سمجھ کر بات کیجیے .صنف نازک کو کمزور سمجھ کر اس پے کیچڑ اچھالنے کی بجاے حق بات کہنے کی ہمّت پیدا کیجیے .غلط کو غلط کہنے کا حوصلہ جمع کر کے رکھیے. اور کسی بھی بنت آدم کی عزت محض زبان کے چسکے کے لئے مت اچھالئے کیوں کہ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں .جب ہمارا مذہب عورت کو اسکا مقام دینے کا حکم دیتا ہے تو ہم کیوں اسے تضحیک کا نشان بنا کے اسے اس کے حق سے  محروم کرتے ہیں ?

ایک دو ماہ قبل کی بات ہے ایک لڑکی کے سسرال والوں نے اسے قتل کر کے اس کی موت کو حادثاتی قرار دے دیا .حالاں کہ سب کو پتا تھا کہ اس کی موت حادثاتی نہیں تھی ہسپتال کے سی سی ٹی وی کمیرے چیک کرنے پے پتا چلا کہ لڑکی کی موت اسکی سانس بند کرنے کی وجہ سے ہوئی .جس میں شوہر کے ساتھ ساتھ ساس بھی شریک تھی .معاملہ عدالت تک پہنچنے سے پہلے ہی رفع دفع کردیا گیا کیوں کہ انکے مطابق اسکی موت ایسے  ہی لکھی تھی .اسکو بزدلی کہیں بے حسی یا پھر ظلم ?? حوا کی بیٹی کا خون اتنا سستا? بنت آدم اتنی بےوقعت ?آخر کیوں ?کسی نے تیل ڈال کر جلا دیا .کسی نے گلا گھونٹ دیا تو کوئی بیچاری زہر دے کر مار دی گئی .شروع سے عورت ہی  سہتی آئی ہے کہیں کسی مرد کا کوئی ایسا قصّہ نہیں سنا .ہم کب تک بیٹیوں کو بوجھ سمجھ کر سر سے یوں اتارتے جایں گے .فرض ادا ضرور کیجیے لیکن یوں سروں سے گھٹریاں اتار کے  مت پھینکیں .اور یہ بھی کڑوا سچ ہے کہ جیسی عزت آپ اپنی بہو کو دیں گے بیٹی سمجھ کر یوں آگے آپکی بیٹی بہو بن کر بیٹی جیسی عزت پاے گی .اپنی بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیجیے اور کسی قدردان کے ہاتھ میں اسکا ہاتھ تھمایں .بیٹیاں بیاہنے میں سمجھداری سے کام لیجیے .دونوں فریقین کی رضامندی لازم ہے  .

ہمارے معاشرے کا ایک یہ بھی بہت بڑا تضاد ہے کہ ہم بیٹے کی پسند پے آزاد خیال ہوجاتے ہیں اور بیٹی کی دفعہ ہماری غیرت جاگ اٹھتی ہے .ایسے ہزاروں واقعات نظروں سے گزرتے کہ فلاں نے غیرت کے نام پے بیٹی کا ,بہن کا قتل کردیا .معمولی سی بات نسلوں کی دشمنی تک چلتی ہے .اور پسند سے شادی کرنا کونسا گناہ ہے .یہ حق اور آزادی تو ہمارا مذھب اور دین بھی دیتا ہے پھر ہم کیوں نیا مذہب تشکیل دیے بیٹھے ہیں .اس ضمن میں ہمیں اپنے آپکو بدلنا ہوگا . اپنی رحمتوں(بیٹیوں)  کو عزت سے عزت دار گھروں میں رخصت کریں  .ورنہ ہماری سنگدلی کی بھینٹ حوا کی بیٹیاں یوں ہی چڑھتی رہیں گی .اپنی کلیوں کو اتنا سستا مت کیجیے کہ کوئی بھی انھیں ڈالے .ابن آدم کی طرح بنت آدم کو بھی جینے کا پورا حق حاصل ہے .یوں اس کے حقوق کا استحصال مت کیجیے .

 

نور ملائکہ جہلم

 


Post a Comment

Previous Post Next Post