Breast Cancer written By Maham Safdar

Breast Cancer written By Maham Safdar

Breast Cancer written By Maham Safdar

بریسٹ کینسر آگاہی مہم

از قلم : ماہم صفدر

جیسا کہ ہم جانتے ہیں انسانی جسم ان گنت خلیوں کے اشتراک سے بنا ہے یہ خلیے پیدا ہونے اور پرورش سے لے کر آخر تک تقسیم کے عمل سے گزرتے رہتے ہیں۔ہر Cell کی اس تقسیم اور Growth کا ایک مکمل نظام ہوتا ہے جسے cell cycle کہا جاتا ہے۔ ہر cell یہ cycle ایک مقررہ وقت میں پورا کرتا ہے اور ایک مخصوص تعداد میں تقسیم ہوتا اور grow کرتا ہے۔ اس پورے پراسیس میں ذرا سی بھی خرابی نقصان کا باعث بنتی ہے۔ ایک مقرر کردہ حد سے زیادہ بار تقسیم ہونا نارمل عمل نہیں ہے لہٰذا اسے کینسر یا سرطان کہا جاتا ہے جو کہ ایک مہلک اور جان لیوا بیماری ہے۔ یہ بیماری جسم کے کسی بھی حصے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ کینسر ایک مخصوص جگہ پر ہو سکتا ہے یا پھیل کر دوسرے اعضا کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔

اب اگر باتیں کریں چھاتی کے سرطان کی تو ہم نے دیکھا ہو گا اکتوبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی چھاتی کے کینسر کے بارے میں آگاہی مہم ایک اکتوبر سے شروع ہو کر اکتیس اکتوبر تک عالمی سطح پر لوگوں میں awarness پیدا کرنے کے واسطے چلتی ہے۔ یہ مرض عورتوں میں ہونے والے امراض میں سرِ فہرست ہے۔ زیادہ تر پچاس سے ساٹھ سال کی خواتین اس مرض کا شکار ہوتی ہیں لیکن اب یہ کم عمر خواتین اور ٹین ایج لڑکیوں میں بھی عام ہوتا جا رہا ہے۔ اس مرض کے متاثرین پسماندہ اور ترقی یافتہ ممالک میں یکساں موجود ہیں۔ عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ چھاتی کے سرطان سے صرف خواتین متاثر ہوتی ہیں جو کہ بالکل غلط ہے۔ مرد بھی اس مرض کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ہاں البتہ ایسے مردوں کی تعداد کم ہے اور خواتین زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ کچھ اندازوں اور اعداد و شمار کے مطابق چھاتی کا کینسر ہر آٹھ خواتین میں سے ایک کو اس کی زندگی میں متاثر کرتا ہے۔ چونکہ بلوغت تک مردوں اور خواتین کے چھاتی کے خلیے ایک جیسے ہوتے ہیں اور بریسٹ ٹشوز کی تعداد بھی برابر ہوتی ہے۔ چھوٹی ٹیوبز، رابطے کے خلیے، lymphatic veins اور خون وغیرہ کا سسٹم تقریباً ایک جیسا ہوتا ہے لہٰذا مرد بھی بریسٹ کینسر کا شکار ہونے کے چانسز رکھتے ہیں۔ ساٹھ سے ستر سال کی عمر کے مردوں میں اس کی تشخیص ہو چکی ہے۔ کچھ رپورٹس اور اعداد و شمار کے مطابق ہر سال 390 مردوں میں اس سرطان کے کیسز دیکھنے کو ملتے ہیں جبکہ اس تعداد کے مقابل خواتین کے کیسز کی تعداد تقریباً 54,800 ہے۔

تو اعداد و شمار اور رپورٹس کے مطابق اسے خواتین سے زیادہ منسوب کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ بریسٹ کینسر ایک Hereditary disease ہے۔ یعنی کہ یہ ایک نسل سے اگلی نسل میں جینیاتی عوامل کے باعث منتقل ہو سکتی ہے۔

کینسر پر ریسرچ کا ایک ادارہ جو Uk میں ہے اس کے مطابق خواتین میں ہر 100 میں سے 3 جبکہ مردوں میں ہر 100 میں سے 10 تا 20 کیسز براہِ راست ناقص جینز کی منتقلی کی وجہ سے اگلی نسل میں یعنی والدین سے بچوں میں ٹرانسفر ہونے کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ چھاتی کے سرطان کی چار مختلف stages ہیں جن میں سے پہلی دو قابلِ علاج ہیں جبکہ تیسری اور چوتھی سٹیج پر معاملہ گھمبیر ہو جاتا ہے اور بیماری سنجیدہ شکل اختیار کر جاتی ہے۔ اگر جینیاتی طور پر کمزوری ہے، قوتِ مدافعت کم ہے تو ماں سے بآسانی بریسٹ کینسر بیٹی میں منتقل ہو سکتا ہے۔ پہلے مرحلے میں چھاتی پر چھوٹے size کی گلٹی بنتی ہے جس میں اگر درد ہونے لگے تو اس بات کا خدشہ واضح ہے کہ کینسر اب نقصان پہنچا رہا ہے۔ دوسری سٹیج پر گلٹی کا size بڑا ہو جاتا ہے مثال کے طور پر لیموں یا اخروٹ جتنا، اسکی جڑیں پھیلتی ہیں اور lymphatic system تک کو نقصان پہنچانے لگ جاتی ہیں۔ تیسری سٹیج پہ کینسر گردن کی ہڈی اور بغل تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور کم از کم نو lymph nodes میں اپنی جڑیں پھیلا کر مریض کو اذیت میں مبتلا کرتا ہے۔ چوتھا اور آخری مرحلہ نہایت تکلیف دہ اور خطرناک ہے کینسر چھاتی کے دیگر حصوں، سینے، جگر، پھیپھڑوں سے لے کر دماغ تک پہنچ جاتا ہے اور یہاں مریضہ یا مریض کا بچنا تقریباً نا ممکن ہوتا ہے۔

بریسٹ کینسر کی تشخیص کے واسطے میموگرافی کی جاتی ہے جس میں چھاتی کی سکریننگ کی جاتی ہے اور نارمل صورتحال سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ پچاس سال تک کی خواتین کو سالانہ یہ examination کروانی چاہییے جبکہ کم عمر لڑکیوں میں یہ تشخیص Ultrasound کی مدد سے کی جاتی ہے۔ کسی بھی قسم کی ظاہری تبدیلی یا نارمل سے ہٹ کر ہونیوالے ڈسچارج (مثلاً خون کا اخراج) کی صورت میں ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہییے۔ چاروں مراحل پر علاج کے مختلف طریقے زیرِ عمل ہوتے ہیں جیسا کہ پہلی دوسری سٹیج پر گلٹی کو سرجری سے ریموو کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ تیسرے چوتھے مرحلے پر کیموتھراپی کی جاتی ہے یا چھاتی کے مکمل حصے کو ہی جسم سے نکال لیا جاتا ہے جس کے مضر اثرات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔

چھاتی کے کینسر کے اس درجہ پھیلنے کی وجہ شرم اور جھجھک ہے جس کے باعث مریضہ اپنا problem کسی کو نہیں بتاتی اور تکلیف برداشت کرتی رہتی ہے۔ اسکے علاوہ اس کی علامات، وجوہات اور نقصانات سے غیر آگاہی بہت بڑا ریزن ہے۔ غلط رویے اور زندگی گزارنے کے غلط طریقے ایسی بیماریوں میں مبتلا ہونے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ صاف ستھری اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنا ہر مسلمان کا شیوہ ہونا چاہییے۔ مناسب اور متوازن خوارک جو قوتِ مدافعت میں اضافہ کرے استعمال کرنی چاہییے۔ ڈپریشن، تنہاٸی اور ذہنی دباو کا شکار خواتین آسان وکٹمز ہیں۔ لہٰذا ٹینشنز سے محفوظ رہنے کی کوشش کریں۔ سبزیاں، پھل اور دہی کا استعمال زیادہ کریں۔ خواتین کو شیرخوار بچوں کو ڈبے کی جگہ پر اپنا دودھ پلانا چاہییے۔ ہلکے رنگوں اور خصوصاً کاٹن سے بنی زیرِ جامہ استعمال کریں جسے رات کو اتار کے سونا چاہییے۔

گزشتہ کچھ سالوں میں ان کوششوں کے نتیجے میں کچھ بہتری دیکھنے کو ملی ہے لیکن ابھی بھی جہالت، عدم آگہی، غربت اور شرم و جھجھک جیسے بہت سے عوامل کی وجہ سے بریسٹ کینسر کے کیسز اور اس کے نتیجے میں ہونیوالی اموات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ چنانچہ اس عالمی سطح پر چلنے والی مہم میں بریسٹ کینسر کا جڑ سے خاتمہ کرنے میں ہر ایک کو حتی المقدور اپنا کردار ادا کرنا چاہییے۔ اللّٰہ تبارک و تعالٰی سب کو ہر طرح کے امراض و آفات سے محفوظ رکھے۔(آمین)


Post a Comment

Previous Post Next Post