Tujh Pe Dil Hara Complete Novel By Tooba Siddiqui
Tujh Pe Dil Hara Complete Novel By Tooba Siddiqui
تم اپنی طاقت میں اتنے
اندھے ہوگئے کہ تم نے مجھے ہلکے میں لے لیا۔ اور یہ اوور کنفیڈینس تمھیں لے ڈوبا۔
اب کہاں جاؤ گے احمد شاہ
کس سے لو گے مدد۔ تمھارے گناہوں کے حساب کتاب کا وقت آچکا ہے۔
کہا تھا نا میں نے میں
جان سے مار دوں گا اگر میری زیشی کو تکلیف دی۔ تمھیں کیا لگا تھا مزاق کر رہا تھا
میں ہممم۔۔ میری زیشی کو مجھ سے دور کردیا تم نے۔ میرا بچہ اس دنیا میں آنے سے
پہلے ہی چلا گیا۔
میری بیوی کی یاداشت تک
سے کھیل گئے تم۔ اسے اذیت دی اسے تکلیف دی۔ اسے بےآبرو کرنا چاہتے تھے تم ہاں۔
تم ۔۔ تم جیسا ناپاک
انسان اسے بےآبرو کرے گا جس نے ہمیشہ اپنی آبرو کی حفاظت کی۔
دیکھ احمد شاہ دیکھ۔۔
اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی تو میری زیشی کے کردار کو داغدار نہیں کرسکا۔ دیکھ وہ کل
بھی پاک تھی اور آج بھی پاک ہے۔
تجھے پتا ہے ممی نے بچپن
میں ایک بات سیکھائی تھی۔
ممی نے کہا تھا کہ ہم دوسروں کی عزت کی عزت کریں گے
تو ہماری عزت کی عزت ہوگی۔
اس کے بعد سے میں نے کبھی
بھی کسی لڑکی کو کسی کی عزت کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا۔
دیکھو اللّٰہ نے میری عزت
کی کس طرح حفاظت کی۔ اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی کوئی اسے بےآبرو نہیں کرسکا۔
زریشہ کل بھی بالاج شاہ کی
تھی اور آج بھی بالاج شاہ کی ہے۔
بالاج کہتا ہوا احمد شاہ
کے قریب آیا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھیں
اور زریشہ ہمیشہ صرف
بالاج شاہ کی رہے گی۔ وہ پاک ہے اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت
کرتی ہے۔ بالاج شاہ کبھی مر بھی گیا تب بھی کوئی احمد شاہ آکر اسے بےآبرو نہیں کر
سکے گا کیوں کہ بالاج شاہ سے پہلے اس کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے احمد شاہ۔
بالاج احمد شاہ پہ آنکھیں
گاڑھے کھڑا تھا۔
عینی اس نے ایک بار کلب میں
تمھیں بھی چھیڑا تھا نا۔ اس پہ جتنا دل چاہے ہاتھ صاف کرو اور اسے پاکستان لے جانے
کی تیاری کرو۔
میں اسے آسان موت نہیں
دوں گا۔ یہ زندگی نہیں موت کی بھیگ مانگے گا مجھ سے۔ اس کی سزا اسے پاکستان جاکر
ملے گی۔
اور اگر یہ ہوشیاری کرے یا
بھاگنے کی کوشش کرے تو اس کے گارڈز اس کی اپنی اور تم تینوں کی گنز میں جتنی گولیاں
ہیں سب اس کے سینے میں اتار دینا۔
بالاج نے عینی اور شیراز
سے کہا تو انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔
میں جارہا ہوں اپنی زیشی
کے پاس وہ میرا انتظار کر رہی ہوگی۔ پاکستان میں ملتے ہیں احمد شاہ۔ تمھیں بہت ساری
چیزوں کا حساب کتاب دینا ہے۔
بالاج پراسرار مسکراہٹ کے
ساتھ کہتا ہوا باہر نکل گیا۔
عینی نے ایک کے بعد ایک
چار تھپڑ احمد شاہ کو رسید کیے۔ اس کا ہاتھ نازک نہیں تھا بہت بھاری تھا جو احمد
شاہ کا گال سجا گیا تھا۔
تمھیں سزا دینا کا حق سب
سے زیادہ بالاج شاہ کا ہے ورنہ دل تو کر رہا ہے ساری گولیاں تمھارے اندر اتار دوں۔
عینی نے حمد شاہ کا گریبان
پکڑ کر کہا۔
احمد شاہ کی بربادی شروع ہوچکی تھی۔ اب سزا ک وقت تھا مہلت ختم ہوگئی تھی۔ اب حساب کتاب ہونا تھا۔
ناول پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے ڈاؤن لوڈ کے بٹن پرکلک کریں
اورناول کا پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کریں 👇👇👇
Direct Link
Free MF Download Link
ناول پڑھنے کے بعد ویب کومنٹ بوکس میں اپنا تبصرہ پوسٹ کریں اور بتائیے آپ کو ناول
کیسا لگا ۔ شکریہ