Mera Baap Meri Jaan written By Fatima Zahra

Mera Baap Meri Jaan written By Fatima Zahra

Mera Baap Meri Jaan written By Fatima Zahra

"میرا باپ میری جان "

مضمون: افسانہ

رائیٹر:فاطمہ زھراء (بشری )

یا اللہ میرے ابو جان کو جلد صحت یاب کر کے میرے پاس لوٹا دے آپ کے پاس تو پھلے ہی میری امی جان ہے اب ابو جان کو مجھ سے دور نا کرنا ڈیسك پر بیٹھی ہوئی ایمن نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا ۔ابو جان آپ ٹھیک بولتے ہیں جب وقت کی مٹھی ایک دفعہ کھلتی ہے تو آس کی ساری تیتلياں اڑنے لگتی ہے ایک خاموشی رہ جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک عجیب سا پیچھتاوا دل میں بچ جاتا ہے خواب کی عمریں چھوٹی ہونے لگتی ہیں اور جب سوئی ہوئی آنکھیں کھلتی ہے تو ایک اذیت بچ جاتی ہے اور یہ اذیت حقیقت بن جاتی ہے معصوم سے چہرے پر دکھ کے آثار دیکھ کر دور کھڑی مریم کو جھنجھور دیتے ہیں۔۔۔

جب انسان کو اذیت ملتی ہے تو دوڑتی ہوئی خون کی رگوں میں اک درد کی لہرچلتی ہے اپنی رفتار کے ساتھ انسان کے پورے جسم میں وہ تکلیف کی کفیت پیدا کرتی ہے جی کی آہ سات سرحدوں تک سنائی دیتی ہے  میں نے سنا ہے اذیت جب ملتی ہے تو آنکھیں روتی ہیں لیکن جب جب اذیت اپنی بلندی کی مسا فت طہ کرتی ہے تو دل سے خون کے آنسوں ٹپکتے ہیں۔ ۔۔۔

ڈاکٹر مریم آپ یہاں کھڑی ہے ڈاکٹر عمیر نے آپ کو ایمرجنسی وارڈ میں بھلایا ہے ایک سیریس کیس آیا ہے ۔

اوکے ڈاکٹر مریم نے پیچھے مڑ کر دیکھتے ہوئے کہا

ہم اسکی سر جری نہیں کر سکتے جب تک اسکی فیملی میں کسی فرد کی منظوری اور فنڈز کلیر نہیں ہوتے۔۔

ڈاکٹر پلز انکی حالت نازک ہے انکا علاج وقت پر نا ہوا تو کسی خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا

ڈاکٹر مریم ہم لوگوں کو جب تک اجازت نہیں ملتی تب تک کچھ نہیں کر سکتے آپ سمجھنے کی کوشش کرے

پلز ڈاکٹر !! اس بچی کا واحد سہارا ہے ۔۔۔

ڈاکٹر مریم پلز چپ رہے باہر انکی بیٹی بیٹھی ہوئی ہے اس سے سب ڈیٹیل حاصل کرے آپ!

ڈاکٹر کیا میری امی جان ٹھیک ہو جاۓ گی ؟

وہ مجھ سے بات کرے گی؟

پلز ڈاکٹر بتاۓ نا ۔۔۔!

ایمن کو دیکھتے ہی ڈاکٹر مریم اپنے ماضی میں چلی جاتی ہے کیسے وہ اپنی امی جان کو بچانے کے لئے کہتی تھی

ایمن کیا آپ کی فیملی میں اور افراد ہے یاکسی کے ساتھ رابطہ ہو آپ کے پاس آپ کے ابو جان کی کوئی ڈائری ہو۔۔۔

نہیں ڈاکٹر ۔۔!

آپ بتاۓ میرے ابو جان ٹھیک ہو جاۓ گے ایمن کا ایک ہی سوال ڈاکٹر مریم کو بار بار ماضی میں جانے کیلئے مجبور کر رہا تھا ایک بات بتاؤ ایمن کیا آپ اپنے ابو جان سے اتنا پیار کرتی ہے؟؟

میرے ابو جان میرے جینے کی ،میری مسکراہٹ کی وجہ ہے انہوں نے مجھے درد چھپانا سیکھا یا ،مسکرانا سیکھایا انہو ں نے مجھے کبھی بھی امی جان کی کمی محسوس نہیں ہونے دی

عزیزتر وہ مجھے رکھتا تھا ،رگ جان سے*

یہ بات سچ ہے میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے*

لوگوں کے تلخ جملوں کو برداشت کرنا سیکھا یا۔۔۔!

جب بھی کبھی زيادتی کا شکار ہوتی تو ابا جان میرا دل بہلا کر مجھے سب رنج بھلا دیتے تھے اور میرے دل میں  کسی کے لئے کوئی خلش باقی رہتی تھی۔۔۔۔۔

کوئی اطلاح ملی ڈاکٹر مریم ؛

نہیں کچھ معلوم نہیں چلا

ہمیں انکی نارمل ٹریٹمنٹ کر کے گورنمنٹ ہسپتال داخل کرنا ہوگا

نہیں! ڈاکٹر انکی حالت نازک ہے ہم انھیں نہیں بیج سکتے ہم لوگوں کو انکی سر جری کرنی ہوگی

ڈاکٹر مریم آپ دل سے نہیں دماغ سے سوچے اچھا ڈاکٹر ہمیشہ دماغ سے سوچتا ہے اور جب سے مریض آیا ہے آپ الجھی ہوئی سی ہے اور اس بچی کو آپ یقین نہیں دلائے اس سے کہے کے کوشش کر رہے ہیں اس کے ابو جان کو بچانے کی۔۔

جی ڈاکٹر ۔۔۔!

یا اللہ پاک جب حالات مجھے تھکا دیتے تھے تو ابو جان کی باتیں مجھے حوصلہ ہمت دیتی تھی کے میری بیٹی بہادرہے یا اللہمیری امی جان کی طرح ان کو اپنے پاس نا بلانا ایمن کے لبوں پر ایک ہی دعا تھی

وہ ماں کے کہنے پر کچھ رعب مجھ پر رکھتا تھا

یہی وجہ تھی مجھے چومتے ججھکتا تھا

وہ آشنا میرے ہرکرب سے رہا ہر دم

جو کھل کر جی نہیں پا رہا سسكتا ہے

جڑی تھی اسکی ہر اک ہاں فقط میری ہاں سے

یہ بات سچ ہے میرا باپ کم نہیں ہے میری ما ں سے

ہر اک درد وہ چپ چاپ خود سہتا تھا

تمام عمر وہ اپنوں سے کٹ کے رہتا تھا

وہ لوٹتا ہیں رات دیر کو دن بھر

وجود اسکا پسینے میں ڈھل کے بہتا تھا

میرے بغیر تھے سب خواب اس کے ویران سے

یہ بات سچ ہے میرا باپ کم نہیں ہے میری ماں سے

ایمن کی مایوسی ڈاکٹر مریم کو کھا ئے جا رہی تھی ڈاکٹر میں این جی اوز  سے بات کر رہی ہو ں وہ فنڈز کا ارنیج کر دے گے ۔۔

اوکے ڈاکٹر آپ دیکھ لے۔۔۔

ڈاکٹر مریم کو پتا نہیں کیا ہو گیا ہے وہ دماغ سے کیوں نہیں سوچ رہی کوئی بھی فیصلہ بنا سوچے نہیں لیا جا سکتا۔۔۔۔

اب کی بار ڈاکٹر مریم ایمن کے سوال کا جواب دینے کو تیار نا تھی حالات بہت سنگین ہو رہے تھے ڈاکٹر کب تک میرے ابو جان سے مجھے ملنے دیا جاۓ گا۔۔۔بہت جلد آپ اپنے ابو جان سے ملو گی اور خوب ساری باتیں بھی کروگی

ڈاکٹر مریم آپ کیوں نہیں سمجھ رہی آپ اسکو یقین نہیں دلا سکتی اور نا اسکے ساتھ کوئی وعدہ کر سکتی ہے اس کے ابو جان کی صحت یابی کے بارے میں۔۔۔۔اوکے ڈاکٹر

نرس کیا بنا اس مریض کا ! انکی سر جری کامیاب ہوگی ہے اب وہ نارمل ہے اس بچی کو آپ بتا دے

کیسے ہوا یہ سب نرس۔۔۔؟

یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے بس اللہ نے مدد کی ہے

آپ کے ابو جان جلد آپ کے پاس آ جاۓ گے اور آپ ان سے بات کرو  ڈاکٹر مریم اب مطمئن تھی اور سچی خوشی حاصل ہو گی تھی اپنی والدہ کو بچا نہ پانے کی کوشش اسکو راتوں کو سونے نہیں دیتی تھی...کبھی کبھی وہ خود اذیتی کا شکار ہو کر خود سے نفرت کرنے پر مجبور ہو جاتی کہ وہ کیسی بیٹی ہے جو اپنی ماں کو بچا نہ سکی...مگر اج ایمن کی خوشی سے جگماگاتی انکھوں کو دیکھ کر اسے اپنا دکھ،کرب اور پچھتاوا غائب ہوتا محسوس ہو رہا تھا.... ایمن کو اسکا والد لٹا کر اس نے جس سچی خوشی کا ذائقہ چکھا تھا اس نے اسکی زندگی کی ساری کڑواہٹوں کو دور کر دیا تھا

سچ میں شکریہ ڈاکٹر

تیرے آنگن کی میں بولتی چڑیا

تیری اغوش میں اتر کر گنگناتی ہوں

بڑا ہی مسکراتی ہوں تیری با ہنوں کے جھولے میں

تحفظ کا،محبت کا بہت احساس پاتی ہوں

کبھی ابو جان کی آنکھیں بھیگ جاتی ہے

تو کبھی میں رو دیا کرتی ہوں

مجھے با نہوں میں وہ بھر کر ہی کہتے

تماری آنکھ میں آنسو؟

تمیں کس نے رلایا ہے

ذرا تم نام تو بتاؤ

کہ اس کی شامت آ ئی ہے

تو میں ہنس دیا کرتی ۔۔۔۔۔۔۔!!

ڈاکٹر مریم نے ایمن  کے گلے لگتے ہوے کہا

"کچھ ایسے رشتو ں کے لئے ھمارے دل سےکئے جانے والے فیصلے دماغ سے کئے جانے والے فیصلوں سے کئی درجہ بہتر ہوتے ہیں"‎ ‎

  درددل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

ڈاکٹر مریم آپ کو تو خوش ہونا چاہیے آج آپ نے جوجد و جہد کی ہے اس سے اک بیٹی کو اس کے باپ سے ملا دیا ہے۔۔۔

جی ڈاکٹر عمیر۔۔۔۔

آج آپ میرے ساتھ چاۓ پینے چلے گی پلز آج نہ مت کیجیۓ گا میں بہت دل سے بولا ہے پلز پلز پلز پلز

اوکے لیکن ڈاکٹر افشین برا نہ مان لے آخر وہ آپ کی منگتر ہے۔۔۔

اوہ پلز ڈاکٹر ابھی ذکر نہیں کرے اب پکا رات کو 6 پم کو لینے آوںگا ۔۔۔

اوکے لیکن ایک  بات بتاۓ آخر اتنے مخالف کیوں ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔

رات کو بتاؤگا ۔۔۔۔

میں کب سے انتظار کر رہی ہوں آے نہیں شاید بھول گئے ہونگے میں گھر چلے جاتی ہوں۔۔۔

ڈاکٹر مریم عمیر کا انتظار کر رہی ہو وہ نہیں آے گے ڈاکٹر افشین نے مریم کے پہلو میں کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔۔۔

جی ۔۔۔۔۔

ہماری اگلے ماہ شادی ہے تو ضرور آنا ضرور ڈاکٹر افشین مسکراتے ہوئے بول کر چلے گی۔۔۔

آپ نے اگر نہیں آنا تھا تو مجھے بتا ہی دیتے ڈاکٹر عمیر ۔۔۔

سوری میں نہیں بتا سکتا۔۔۔۔

ایک سال گزرنے کے بعد ڈاکٹر مریم کی ملاقات ڈاکٹر عمیر سے ہوئی تو ڈاکٹر عمیر کے چہرے پر رونق چھا گی جو ایک سال پہلے مریم کے جانے کے ساتھ چلی گئی تھی

آپ کی شادی نہیں ہوئی ڈاکٹر۔۔۔۔

میں تمہیں پسند کرتا ہوں تب بتایا نہیں تھا توآج  تک میں خوش نہیں رہاافشین کبھی میری خوشیوں کی وجہ نہیں بنی وہ کسی اور سے شادی کر چکی ہے۔۔۔۔

میرے دل میں کسی کے لئے کوئی خلش نہیں ہے ہر دفعہ میرے کردار پر الزام لگتے رہے اور ہر طرح کے سوالوں سے ہمکنار ہونا پڑھتا جو بعد میں مجھے اذیت دیتے لیکن میں اپنے بابا کی باتوں کو ذهن میں رکھتے ہوے معاف کر دیتی۔۔۔۔

میں کافی دیر بعد اپنا بابا سے ملی ہوں آپ کو ان سے بات کرنا ہوگی۔۔۔۔

اوکے مریم ڈاکٹر عمیر کے چہرے پر تازگی پھیل گی۔۔۔۔۔

دو سال گزرے کے بعد ڈاکٹر عمیر اور مریم کا ایک بیٹا تھا جو ایک ہستی بستی فیملی میں تبدیل ہو گے ہوے تھے۔۔۔۔۔


Post a Comment

Previous Post Next Post