Mandir Ke Baad Masjid Bhi Giray Gi By Zeeshan Noor Khilji

Mandir Ke Baad Masjid Bhi Giray Gi By Zeeshan Noor Khilji

Mandir Ke Baad Masjid Bhi Giray Gi By Zeeshan Noor Khilji

مندر کے بعد مسجد بھی گرے گی

 

آپ کو یاد ہو گا پچھلے سال حکومت پاکستان نے اسلام آباد میں ہندو مندر کی تعمیر کا اعلان کیا تھا جس باعث ملک بھر کے مذہبی حلقے آگ بگولا ہو گئے اور پھر حکومت وقت کو اپنا یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔ اور سال کے آخر میں کرک، خیبر پختونخواہ میں شدت پسند مذہبی گروہ نے ایک قدیم ہندو مندر کو بھی مسمار کر دیا جس پر باقاعدہ قانونی کاروائی بھی کی گئی لیکن حاصل وصول کچھ نہ ہوا اور اب چند دن پہلے رحیم یار خان میں ایک اور ہندو مندر کو نذر آتش کرنے کے ساتھ ساتھ عبادت گاہ کا تقدس بھی برے طریقے سے پامال کیا گیا۔ یوں ایک سال کی مختصر مدت میں پاکستان میں ہندو مندروں کی مخالفت اور ان کی بے حرمتی سے متعلق تین ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو عوامی توجہ کا مرکز بنے ہیں۔ یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے اور دیکھا جائے تو پاکستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی دراصل خطرے کی گھنٹی ہے اور آنے والے اس خطرے میں ہندوؤں کی بجائے مسلمانوں کا نقصان ہوتا زیادہ نظر آ رہا ہے۔ یہ ایک الارم ہے جو کہ بڑے زور سے بج رہا ہے لیکن اس کو سننے کے لئے کانوں کی بجائے دماغ کی اور عقل کی ضرورت ہے۔ میرے منہ میں خاک، لیکن جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ اگر آج یہاں مندر گرائے جا رہے ہیں تو بہت جلد مساجد کی باری بھی آنے والی ہے۔ ہو سکتا ہے آپ کو یہ باتیں بری لگیں لیکن حقائق کچھ ایسی ہی پیشین گوئی کر رہے ہیں۔

پاکستان میں ایک شدت پسند مذہبی جماعت کے ایک معروف عالم دین ہیں، ان کا نام نہیں لوں گا کیوں کہ پھر یار لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ تم اپنے قلم کے ذریعے فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہو، حالانکہ سچ یہ ہے کہ ایک رائٹر صرف حقائق کو اپنے زاویے سے دیکھتا ہے اور اسے بیان کرنے کی جسارت کرتا ہے اب وہ حقائق خواہ کتنے ہی تلخ ہوں لیکن اس میں رائٹر کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ اور اس دعوے کو ہم ایسے ثابت کریں گے کہ میں یہاں صرف اس مذہبی جماعت اور ان کے عالم دین کی جملہ خوبیوں کا ذکر کروں گا اور پھر آپ خود جان جائیں گے کہ وہ صاحب کون ہیں اور وہ کس مذہبی جتھے سے تعلق رکھتے ہیں اور اس سے یہ بھی ثابت ہو گا کہ فرقہ واریت ہمارے قلم پھیلاتے ہیں یا وہ مذہبی جتھے جنہوں نے اسلام کے نام پر کچھ اس قسم کا گند گھول رکھا ہے کہ ان کا ذکر خیر آتے ہی فرقہ واریت کا تعفن طبیعت کو مکدر کر دیتا ہے۔

یوں تو وطن عزیز میں شروع سے ہی مذہبی انتہا پسندی کو مقتدر حلقوں کی طرف سے پروموٹ کیا جاتا رہا ہے مگر ان مولانا صاحب نے اور ان کے جتھے نے اسے ان بلندیوں تک پہنچایا ہے کہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ مولانا صاحب نے کفر کے فتوے انتہائی ارزاں نرخوں پر بیچنا شروع کر دئیے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ فی سبیل اللہ ایک کے ساتھ ایک فتویٰ فری میں بٹنے لگا۔ لیکن خدا کی کرنی کہیے یا شامت اعمال، آخر کار ایک دن مولانا موصوف بھی ایک علمی مسئلے پر رائے دیتے ہوئے دھر لیے گئے اور پھر انہیں قرون اولیٰ کی ایک مذہبی شخصیت کی شان میں گستاخی کے الزام میں جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ میں بذات خود علماء دین کی فتویٰ بازیوں کو بہت غلط اور گندا دھندہ سمجھتا ہوں لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ مولانا نے واقعی کوئی توہین نہیں کی تھی بلکہ صرف مکافات عمل کی مار مارے گئے تھے۔ ہاں، یہ ضرور ہوا کہ اس کے بعد انہیں کافی ٹھنڈ پڑ گئی اور یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ فتوے اور توہین کی بندوق صرف انہی کے پاس نہیں بلکہ ہر دوسرے مذہبی سوداگر کے پاس ہے اور اس کے بعد راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔

اسی طرح یہ مولانا جس مذہبی جتھے سے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی پچھلے کچھ سالوں سے فساد فی الارض میں پیش پیش ہے یہ لوگ نہتے مسلمانوں سے مار پیٹ کرتے ہیں ان کی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں، کاروبار زندگی مفلوج کر دیتے ہیں اور پھر اس بلوے کو اسلام کا نام دیتے ہیں۔ آپ یقیناً سمجھ گئے ہوں گے میں کن لوگوں کی بات کر رہا ہوں۔

اب دوسری طرف آتے ہیں آپ نے اکثر دیکھا ہوگا ہمارے ہاں علماء دین اور ان کے چیلے مخالف مسالک کی عبادت گاہوں پر دھاوا بولتے ہیں اور مساجد ہتھیانے اور قبضہ کرنے کے چکروں میں پڑے رہتے ہیں اور ایسے معاملات میں نوبت مار کٹائی اور مسجد کے تقدس کی پامالی سے ہوتی ہوئی قتل و غارت تک جا پہنچتی ہے لیکن بات کبھی اس سے آگے نہیں بڑھ پائی۔ مگر غور کیجیے کہ ماضی میں ہم نے ہندوؤں کو بھی قابل نفرت سمجھنے کے باوجود کبھی ان کی عبادت گاہوں پر یوں سر عام دھاوا نہیں بولا تھا لیکن بات اب آگے بڑھ چکی ہے۔ اور علماء کرام کی حرکتوں اور مذہبی جماعتوں کی برکتوں کے باعث آج ہمارے معاشرے میں جس قسم کا متشدد ماحول پیدا ہو چکا ہے کچھ شک نہیں کہ ہندو مندروں کی مسماری کے بعد اب آنے والے وقتوں میں قبضہ گیر علماء کرام مخالف مسالک کی مساجد کے ساتھ بھی یہی سلوک کریں اور یہ مکافات عمل ہے۔ جب ایک فتویٰ باز عالم دین خود فتووں کی زد میں آ سکتا ہے تو کیا بلوائیوں کی عبادت گاہیں دنگے فساد سے بچی رہیں گی؟ لہذا ابھی بھی ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم اس آگ کو اپنی مساجد تک پہنچنے سے پہلے ہی اقلیتی عبادت گاہوں میں ٹھنڈا کر دیں ورنہ کل کو جب یہ الاؤ مزید بھڑکے گا تو کوئی بھی اس سے بچ نہیں پائے گا۔

اس حوالے سے سانحہ رحیم یار خان مندر پر چند گزارشات پیش کر کے بات ختم کروں گا۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ایک مندر کی بے حرمتی میں اور ایک مسجد کی بے حرمتی میں کوئی فرق نہیں ہے۔‏ عبادت گاہ چاہے کسی بھی مذہب کی ہو اس کا ایک تقدس ہوتا ہے اور ہندو مندر کا بھی ایک تقدس ہے لہذا ہمیں یک زبان ہو کر مندر کے حق میں اپنی آواز بلند کرنی ہے اور اس واقعے میں جو بھی مسلمان بھائی شریک ہیں، ہر فورم پر ان کے اقدام کی مذمت کرنی ہے۔ ظلم و بربریت کے اس موقع پر ہمیں ہندو برادری کے ساتھ کھڑے ہونا ہے۔ جان لیجیے کہ مندر کی بے حرمتی صرف ہندو دھرم پر حملہ نہیں بلکہ ہمارے اپنے مذہب اسلام کے سافٹ امیج پر بھی حملہ ہے۔ اور جن احباب کو اس حوالے سے کچھ شک ہے ان پر بھی واضح کر دوں کہ بت شکنی اور فساد فی الارض میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ہمارے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام بت شکن ضرور تھے لیکن وہ فسادی نہیں تھے اور اسلام میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی نے ایویں منہ اٹھا کر کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ کا تقدس پامال کیا ہو۔ منبر سے تقریریں سننے کی بجائے اگر خود تاریخ پڑھی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کن حالات کے باعث اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو بت شکنی کا حکم دیا تھا اور پھر کیوں اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کے تحفظ کا بھی حکم دیا تھا؟ بت شکنی اور اقلیتی عبادت گاہوں کا تحفظ، ہر دو طرح کے حالات کا تاریخی مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ موجودہ حالات میں بت شکنی فساد فی الارض اور ایک جذباتی نعرے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بہرحال مندر کی مسماری کے حق میں سو دلائل بھی گھڑ لیے جائیں لیکن مکافات عمل کی لٹکتی تلوار کو جھٹلایا نہیں جا سکتا لہذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ آنے والے وقتوں میں ہماری مساجد کا تقدس پامال نہ ہو اور وہاں پر دنگا فساد اور ظلم و بربریت کی داستانیں نہ لکھی جائیں تو پھر پہلے ہمیں اقلیتی عبادت گاہوں کو تحفظ دینا ہو گا۔

رہے نام اللہ کا، جو مندر میں بھی ہے مسجد میں بھی۔

 

 

ذیشان نور خلجی



Post a Comment

Previous Post Next Post