وہ بھاری دل سے اس شخص کے سامنے آرکی تھی۔
مقابل نے اسکی موجودگی محسوس کرتے اسکی جانب پیش رفت کی تھی
منہم نے سختی سے آنکھیں میچ لیں۔
وہ اسکے شانوں پہ زور دیتے بجائے آج اسے بستر پہ دراز کرنے
کے اپنی گرفت میں لے گیا تھا۔منہم کیلئے یہ عمل قطعی نیا تھا۔
وہ اسکے کندھے سے نائٹی کی اسٹرپ کھولتے ان پہ لب جمائے
اسکے بالوں کو جوڑے کی قید سے آزاد کرگیا تھا جنہوں نے اسکی پشت کو مکمل ڈھک لیا
تھا۔
اسکی دھڑکنیں منتشر سی تھیں اپنی کمر پہ رینگتا اسکا ہاتھ
منہم کے وجود میں کرنٹ کی لہر دوڑا گیا تھا۔
"پپ۔۔۔پلیز۔۔"
وہ ممنائی تھی احتجاجی سرگوشی اتنی آہستہ تھی کہ اسکے قریب
ٹہرا شخص بھی سمجھ نہیں پایا تھا کہ اس نے کیا کہا ہے تبھی وہ جھکا تھا اور اسے
جھٹکے سے اٹھائے بیڈ کی طرف لایا تھا۔
وہ کوئی اس شخص کی محبوبہ نہیں تھی پھر کیوں وہ اتنا سہج
سہج کے اسے رکھ رہا تھا۔
جیسے ہی وہ اس پہ جھکا
خود پہ بھاری وجود محسوس کرتے منہم نے کروٹ بدلتے دوسری جانب رخ کیا تھا۔
کاش کہ اس قید سے رہائی آسان ہوتی۔
ایک پچھتاووں میں لپٹا آنسو اسکے گالوں پہ لڑھکا تھا۔
کمرے میں چھائی خاموشی اتنی گھمبیر تھی کہ وہاں موجود دونوں
نفوس ہی ایک دوسرے کی سانسوں کا ارتعاش محسوس کرسکتے تھے۔
مقابل کو جیسے یقین تھا کہ وہ آنکھیں نم ہیں تبھی ہتھیلی کی
پشت ان گیسوؤں کی گرفت سے رخساروں کو آذاد کرتے ان پہ مرہم رکھنے کو سہلانے لگے
تھے ۔
اتنی نفاست بھرے لمس پہ منہم کو پہلی بار احساس ہوا کہ وہ
اپنے گراہک نہیں بلکہ شوہر کے پہلو میں دراز تھی۔
جبھی ان سانسوں کے ردھم میں
تیسری آواز شامل ہوئی تھی۔
منہم نے پلکوں کے دیوان پہ بوجھ محسوس کیا تو بےساختہ ہی
آنکھیں کھولی تھیں۔
پورا کمرہ ہی روشن تھا اسکی دھڑکن تھمی تھی ایک قیامت سی اس
پہ گزری تھی۔
یہ تنہائی یہ قربت تو راز رکھی جانے والی تھی پھر آج یہ حد
بڑھی تو کیوں؟