Gunehgaar Written By Laiba Liaqat

Gunehgaar Written By Laiba Liaqat

Gunehgaar Written By Laiba Liaqat

گنہگار

ازقلم:لائبہ لیاقت.

آلہ آباد کے علاقے میر جنگ میں میں داخل ہوں تو حسبِ معمول لوگ اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہیں. غور کریں تو اس علاقے کی فضا میں کچھ تنگی محسوس ہوتی ہے. آگے بڑھتے جائیں تو میر جنگ کا وہ علاقہ شروع ہو جاتا ہے جس کا شُرفا دن کے اُجالے میں ذکر کرنا بھی گناہ سمجھتے ہیں. رات کے اندھیرے میں اُنکی زبان پہ یہاں کا ذکر آتا ہے یا نہیں خدا بہتر جانے.

سڑک سے داہنی جانب مُڑیں تو ایک بڑی اور کشادہ سی گلی آتی ہے  جس کے آغاز پہ ہی  کتوں کا ایک جھرمٹ توقع کے عین برعکس نہایت خاموشی سے بیٹھا ہے جیسے کسی بات پر نہایت دُکھی ہو یا کسی بات کا سوگ منا رہے ہوں. اسی گلی کے وسط سے دائیں جانب ایک اور کشادہ سی گلی آتی ہے جس میں داخل ہوتے ہی موتیے اور پان کی ملی جلی مخصوص سے بُو آتی ہے جس سے کسی عام انسان کا یاں تو جی متلانے لگی یا سر درد لگ جائے۔ شاید یہاں کے مکین اس بُو کے عادی ہو چکے ہیں.

اسی گلی میں سامنے دیکھیں تو ایک وسیع، پرکشش اور باریک اینٹوں والی عمارت نظر آتی ہے۔ اِسی گلی کے اطراف میں ایسی اور بھی پانچ عمارات ہیں مگر اس عمارت کے رنگ اس کو دوسری عمارتوں سے منفرد بناتے ہیں. یہ عمارت مختلف رنگوں سے مزین ہے جو کہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتی ہے مگر اس عمارت میں رہنے والے نفوس اِس عمارت سے کئی گناہ زیادہ رنگین ہے جو کہ اصل میں لوگوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔

 ذرا غور کریں تو اس عمارت میں ایک مخصوص ترتیب کے ساتھ بنے ہوئے کمرے نظر آتے ہیں. ہر کمرے کے باہر لکڑی کے دوپٹ، لوہے کی سلاخوں والی کھڑکیاں ہیں. انہیں کھڑکیوں میں سے کچھ کھڑکیاں کھلی ہوئی ہیں جن کے آگے آتشی پردے پڑے ہوئے ہیں پردوں کا گہرا رنگ شاید روشنی سے بچنے کے لئے ہے۔ کمروں کے وسط میں ایک وسیع بالکنی ہے جس کی داہنی دیوار کے ساتھ تخت پڑا ہوا ہے۔ اور باقی سب سامنے کی طرف فرشی نشستیں ہیںتینوں منزلوں پر کمروں اور بالکنی کی یہی ترتیب ہے۔

 عمارت کے باہر روبی منزل کے نام کی لکڑی کی تختی نصب ہے اردگرد کی عمارتوں پر بھی ان کی مالکان کے ناموں کی تختیاں نصب ہے۔

 اس علاقے کو مختلف زبانوں میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے. اِسے جسم فروشی کا اڈہ بھی کہا جا سکتا ہے، کچھ جاہل اسے کوٹھے کا نام بھی دیتے ہیں، کچھ جنتی اسے جہنم بھی کہتے ہیں اور اگر ذرا مُہذب زبان استعمال کریں تو اس علاقے کو ریڈ لائٹ ایریا بھی کہا جاتا ہے. سامنی تین منزلہ عمارت کی بات کریں تو وہاں آج بھی حسبِ معمول شور کی آوازیں آ رہی ہیں اور اردگرد کی عمارتوں کے مکین بھی آج روبی منزل میں جمع ہیں. ذرا غور کریں تو یہ آوازیں معمول کی طرح نہ تو قہقہوں کی ہیں اور نہ ہی طبلے یا موسیقی کی ہیں یہ آوازیں تو بہت سے انسانوں کے رونے کی ہیں. وہ عمارت جس میں ہمیشہ قہقہے گونجتے ہیں آج وہاں سے رونے کی آوازیں کیوں آرہی ہیں؟ نہ ہی یہ گلی آج سفید پوشاکوں  والے مردوں سے آباد ہے یہاں تک کہ کتے بھی آج اس گلی میں داخل ہونے سے شرم محسوس کر رہے ہیں. کچھ تو ہوا ہے کہ آج کوئی اس طرف کا رخ بھی نہیں کر رہا۔

 خیر عمارت کے اندر داخل ہوں تو ڈیوڑھی سے گزر کر سامنے کی طرف ایک بڑا سا ہال ہے جو کہ عموماً رقص لئے استعمال ہوتا ہے. اس ہال کے اردگرد عموماً زرد رنگ کے پردے پڑے ہوئے ہوتے ہیں جو کہ آج ہٹا دیے گئے ہیں۔ دیواروں کے ساتھ لگی فرشی نشستوں اور تکیوؤں کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔اِس وقت سارے ہال میں سفید چاندنی بچھی ہوئی ہے.

 روبی منزل کی مالک  روبی بائی آج دن دہاڑے اپنے قیمتی ہیروں کو لیے اس ہال کے وسط میں براجمان ہیں یہ ہیرے ان کا وہ اثاثہ ہیں جن کو وہ رات کے اندھیرے میں ہی کمروں سے باہر نکالتی ہیں. کیا وجہ ہے کہ سب کے سب نگینے  آج روبی  بائی کے گرد اس طرح جمع ہیں۔ یہ سب نگینے مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں اور سب کی کہانی الگ ہے مگر اس وقت ان کی آنکھوں اور چہروں کے تاثرات اس طرح ہیں جیسے کسی نے ان کے سَر سے چادر چھین لی ہو کیونکہ آج ان سب کی روبی ماں جو پولیس کے چھاپے پڑنے پر نہ صرف اپنی لڑکیوں کے اگے دیوار بن کر کھڑی ہو جاتی تھیں بلکہ وہاں موجود دل بہلانے کے لیے آۓ مردوں کی بھی  ڈھال بنتی تھی اور خود تھانے کے چکر کاٹ کر آیا کرتی تھیں وہ روبی ماں آج کسی کے بھی آواز دینے پر  اٹھنے کو تیار نہیں ہیں۔

 صبّو لڑکھڑاتی چال کے ساتھ داخلی دروازے سے روبی منزل میں داخل ہوئی کچھ لڑکیاں تو یوں  نڈھال تھیں کہ جیسے ان کا کوئی قیمتی سرمایہ لٹ گیا ہو اور کچھ اُچک اُچک کر  صبّو کی اوٹ میں منتظر نظروں سے دیکھ رہی تھیں جیسے وہ اُس کے پیچھے سے کسی فرشتے کے نکلنے کی منتظر ہوں. سب لڑکیوں نے صبّو کے تھکے ہوئے چہرے کی طرف دیکھا جس پر آنسوؤں کے مٹے ہوئے نشانات ابھی بھی موجود تھے صبو نے نفی میں گردن ہلا کر سب کو جواب دیا اور خود آہستہ روی سے چلتی ہوئی روبی بیگم کے بے جان وجود کے پاس آئی جو کہ فجر کے وقت دل کے دورے کی وجہ سے  بے جان ہو چکا تھا۔

 صبّو گھٹنوں کے بل روبی بیگم کے پاس بیٹھی اور کہنے لگی روبی ماں آج تو ساتھ والے  گاؤں کا پنڈت بھی اپنے شمشان گھاٹ میں آپ کو جلانے کی اجازت نہیں دے رہا. صبح سے سارے علاقے کے مولویوں کے پاس سے چکر کاٹ چکی ہوں  آپ کا جنازہ پڑھانا تو دور کی بات کوئی آج اس رنگین عمارت سے سفید کپڑے میں لپٹے وجود کو کندھا دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ سب کے بقول آپ گنہگار ہیں۔

 آج تو کوئی مرد اس گلی کی طرف دیکھنا بھی گناہ سمجھ رہا ہے۔ جن مردوں کی راتیں آپ رنگین کرواتی تھیں وہ سب آج جنتی بن بیٹھے ہیں اور اس ناپاک گلی میں داخل ہونے کو تیار نہیں ہیں. آج سب ہندو مسلم کا فرق ختم کرکے مرد بن بیٹھے ہیں جن کی غیرت انکو کو کسی ناپاک وجود کو ہاتھ لگانے سے  کچوُکے  لگاتی ہے آج تو طبلے والا بھی نہیں آیا آخر کار مرد جو ٹھہرا۔ آج تو کتے  بھی اس گلی میں داخل نہیں ہو رہے. اور آج ہم سب آپ کے ٹکڑوں پر پلنے والیں اس قدر بے بس ہیں کہ ہم بھی آپ کو  کندھا نہیں دے سکتیں صبّو کے الفاظ سن کر ہال ایک بار پھر سسکیوں اور آہوں سے گونج اٹھا۔

Post a Comment

Previous Post Next Post