Aakhir Qasoor War Kon By Noor

Aakhir Qasoor War Kon By Noor

Aakhir Qasoor War Kon By Noor


آخر قصور وار کون؟

    ازقلم نور

      حرہ بہت سےخدشات دل میں لیے بیٹھی ہوئی تھی۔اب تک گزرے اپنے ساتھ برے واقعات سے جہاں اس کی شخصیت تباہ ہوئی وہی اس کا دل بھی اتنا نازک ہوا کے اب وہ صرف ایک اللہ کی ذات کے علاوہ اب دنیا کے کسی بھی مرد پر اعتبار نہیں کرتی تھی۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس کا نکاح ہوا۔اپنے ہمسفر کو لے کر خوش ہونے کی بجائےدل میں عجیب سی احساسات تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

     حرہ ایک خوبصورت نقوش،درمیانے قد،خوش میزاج،کافی ذہین ہر کلاس میں اول آنے والی اور گورے رنگ والی پیاری لڑکی تھی۔حرہ کا تعلق ایک درمیانے طبقے کے جوائنٹ فیملی گھرانے سے ہے۔جہاں حرہ کے دادا دادی،ایک پھپھواور دوچاچو رہتے ہیں۔حرہ صرف دو ہی بہن بھائی ہیں۔جبکہ حرہ کے والدین احمد صاحب اور والدہ حلیمہ دونوں ہی ان پڑھ اورسیدھے سادھے اپنی زندگی میں اپنے دونوں بچوں کے ساتھ خوش ہیں۔حرہ کے والدین دونوں بہن بھائی سے بہت پیار کرتے ہیں۔ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہیں لیکن جو دوستی والا تعلق ان کا ان سے ہونا چاہیے وہ نہیں ہے۔جس کی وجہ سے بہت سےمصائل کا سامنا کرنا پڑھتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

    حرہ کے والدین کے علاوہ باقی گھر والے سارے پڑھے لکھے ہیں۔گھر کی ساری خواتین باقاعدہ پردے کا بھی اہتمام کرتی ہیں۔حرہ کاوالدین سے زیادہ، وقت اپنی پھپھو کے ساتھ گزرتا۔اس لیے وہ اپنے گھر کے بجائے ہر وقت دادا کے گھر پائی جاتی۔وہاں رہنا حرہ زیادہ پسند کرتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    یہ بات آج سے آٹھ سال پہلے کی ہے جب حرہ بارہ سال کی تھی۔حرہ لوگوں کے رویوں کو بہت باریکی سے اپنے دماغ میں محفوظ کرتی لیکن تھی تو بچی ہی جو خود کو کیسے محفوظ رکھنا ہے نہیں جانتی تھی۔

اسے اگر کوئی چیز چاہیے ہوتی تو دکان پر جا کر خود لے آتی یہ بات اس کے دونوں چچا کو نہیں پسند تھی کے وہ دکان پر جائے تو انہوں نےاسے منا کر دیا اور کہا اگر کچھ چاہیے تو ہمیں بتائو ہم لا دیں گے لیکن تم نے دکان پے نہیں جانا۔ہوتا کچھ یوں تھا جب اس کے چچا گھر نہیں ہوتے تو وہ دکان پے چلی جاتی ان کے ہوتے ہوئے نہیں جاتی۔لیکن ایک دو دفعہ واپسی پر انہوں نے اسے دیکھ لیا وہ کافی ڈر بھی گئی پھر یہ ہوا کے اس نے دکان پے جانا چھوڑ دیا۔اپنے بھائی کو بھیجتی چیز لینے کے لیے لیکن وہ بھی اپنی بات منوا کر، کہ "مجھے بھی چیز دو گی"توجاتا۔وہ بھی مان جاتی۔ایک دو سال ایسے ہی پرسکون گزر گئے۔

پھر کچھ ٹائم بعد اس کے کزن نے عجیب حرکتیں کرنی شروع کر دی تو اس کے چچا اسے منا کرتے کے جب وہ یہاں ہو تو تم نہ آیا کرو۔لیکن سمجھاتے نہیں کے کیوں نہ آیا کرو۔وہ پھر آجاتی لیکن اسے عجیب لگتا۔آہستہ آہستہ اس نے اس کی موجودگی میں آنا کم کر دیا۔اس کے بعد جب وہ کبھی دادا کے پاس ہوتی تو وہ اسے ٹچ کرتے جو اسے عجیب لگتا تو وہ وہاں سے بھاگ جاتی۔

اس کے ساتھ اتناکچھ ہوتاگیا۔لیکن نہ اس کے والدین کو اس بارے میں کچھ پتاچلا نہ اس نے انہے بتایا۔اسے ڈر لگتا رہتا تھا اور کچھ سمجھ نہیں آتی کے وہ کیا کرے۔تو وہ کسی کو کچھ نہیں بتاتی تھی۔

     ایک دن،رات کو وہ اپنے چچا کے پاس سو گئی۔مختلف جگہ سونے پر اس کی نیند کچی ہوتی تھی۔لیکن وہ سوئی ہی رہی۔رات کے کسی پہر اس کے جو چچا اسے اس کے کزن کی عجیب حرکتوں کی وجہ سے اس کے پاس جانے سے منا کرتے تھے۔آج وہ بھی رات کی تاریکی میں اس کے ساتھ غلط کرنے کی کوشش کرنے لگے۔جس چچا کے ساتھ وہ اتنا پیار کرتی تھی اس رات کے بعد وہ کبھی دوبارہ اپنے چچا کے پاس نہیں گئی۔اور نہ ان کے لیے اس کے دل میں کوئی فیلینگ رہی۔اس بات کا ذکر اس نے کچھ ٹائم بعد اپنی والدہ سے بھی کیا۔لیکن انہوں نے کچھ بھی نہیں کہا۔اس دن جو تھوڑا بہت اس کے دل میں اعتبار نام کا بیج تھا وہ اس دن کے بعد خود ہی ختم ہو گیا۔آہستہ آہستہ اس نےان سب وجوہات کی وجہ سے پھر دادا کے گھر اور اپنے رشتے داروں کے گھر جانا بالکل نہ ہونے کے برابر کر دیا۔مردوں پے اعتبار ختم ہونے کے ساتھ،اسے اپنے والد کا،اسے پیار کرنا بھی اچھا نہیں لگتا۔جس سے اس کے والد اور والدہ ناراض ہوتے۔لیکن وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی اور نہ اپنے جذبات انہیں بتا پاتی تھی۔اسے اس بات کا خوف رہتا کے ہر شخص اس کے ساتھ ایسا کر سکتا ہے جب گھر کےہی بندے اس کے ساتھ ایسا کر سکتے ہیں تو باقیوں سے کیا امید کی جائے۔

وقت کا کام ہے گزر جانا اور وہ گزر ہی جاتا ہے۔لیکن ان سب سے جو اس کی شخصیت تباہ ہوئی اس سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑھا ۔

      اب آٹھ سال بعد وہ بیس سال کی ہو گئی ہے۔اس کا رشتہ بھی ہو گیا ہے۔گھر میں گہماگہمی کا سما ہے۔لیکن حرہ بہت سےخدشات دل میں لیے بیٹھی ہوئی تھی۔اب تک گزرے اپنے ساتھ برے واقعے سے جہاں اس کی شخصیت تباہ ہوئی وہی اس کا دل بھی اتنا نازک ہوا کے اب وہ صرف ایک اللہ کی ذات کے علاوہ اب دنیا کے کسی بھی مرد پر اعتبار نہیں کرتی تھی۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس کا نکاح ہوا۔اپنے ہمسفر کو لے کر خوش ہونے کی بجائےدل میں عجیب سی احساسات تھے۔اسے سمجھ نہیں آ رہی بحثیت شوہر جب اس کا شوہر اس کے پاس آئے گا تو وہ کیسا ریکٹ کرے گی۔اور کیا یہ سب جو اس کے ساتھ ہوا اسے اپنے ہمسفر کو بتانا چاہیے یا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔یا جو پردہ اللہ نے رکھا ہے وہ اسے برقرار رکھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

      آخر قصور وار کون میں سب ہی قصور وار ہیں۔پہلے حرہ کے والدین جنہوں نے اس کے ساتھ دوستانہ رویہ نہیں رکھا۔اسکے بتانے پر بھی اس کی کوئی حفاظت نہیں کی۔دوسرے پر سکول میں اس کے اساتذہ جو سکول میں بچیوں کو سیلف ڈیفینس نہیں سیکھاتے نہ انہے اچھے اور برے ٹچ کے بارے میں بتاتے ہیں۔تیسرے پر اس کی فیملی جو دوسروں سے تو اس کی حفاظت کرتے لیکن گھر کے اندر وہ اپنے خاندان سے بھی محفوظ نہیں۔

       اس لیے والدین کو چاہیے اپنے بچوں کو ضروریات زندگی کے ساتھ ساتھ تھوڑا سا اپنے ساتھ اٹیچ کریں تاکہ وہ ہر بات آسانی سے آپ کے ساتھ شیر کریں۔اور اگر وہ کوئی بات آپ کو بتائیں تو ان کی بات پر توجہ دیں نہ کے اسے نظر انداز کر دیں۔آپ کا بچہ یا آپ کی بچی چاہے جتنے بھی چھوٹے ہوں انہیں بچہ سمجھ کر اکیلا نہ چھوڑیں۔اور نہ اپنے علاوہ کسی کے پاس چھوڑیں۔کسی پر اعتبار نہ کریں مطلب کسی پر بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کی بچیاں آج کےاس معاشرے میں صرف اپنے باپ،بھائی اور شوہر کے ساتھ ہی محفوظ ہیں۔اس کے علاوہ کسی کے ساتھ محفوظ نہیں ہیں۔جو باتیں بچوں کو بتانے والی ہیں وہ انہیں لازمی بتائیں۔آج آپ انہیں ضروریات زندگی فراہم کرنے میں اتنا مصروف ہیں کہ آپ کو پتا بھی نہیں کے جو سب سے بڑھ کر ان کے لیے ضروری ہے وہ ان سے چھین لی جاتی ہے۔ان کی شخصیت کو تباہ ہونے سے بچائیں۔تباہ شدہ شخصیت کی مالک کئی حرہ اپنے ہمسفر کے ساتھ بھی خوش نہیں رہ سکتی۔کیوں کے انہیں اک خوف ہر وقت رہتا ہے۔کہ انہیں اپنے ساتھ بیتے واقعات بتانے چاہیے کے نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ خوف انہیں خوش بھی نہیں رہنے دیتا۔

Post a Comment

Previous Post Next Post