Insaaniyat Khatam written By Hasnat Mahmood

Insaaniyat Khatam written By Hasnat Mahmood

Insaaniyat Khatam written By Hasnat Mahmood

انسانیت ختم اور احساسات مردہ ہو گئے۔۔۔

از قلم گل حسنہ (حسنات محمود)

 

ہم کہاں تھے کہاں پہنچ گئے۔۔۔۔۔اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود ہم کہاں کھڑے ہیں۔کیا اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں تمام مخلوقات سے بہتر اور افضل قرار دیا۔فرشتوں سے سجدہ کروایا تھا ۔کیا ہم نے اس شرف کی لاج رکھی۔اس کا حق ادا کیا۔انسان تو بہت ہیں پر انسانیت ختم ہو گئ۔ہم تو بس ہڈیوں کے ڈھانچے اور احساسات سے خالی لوگ ہیں۔ جن کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بلکل مفقود ہوچکی ہے۔انسانوں اور دیگر مخلوقات میں بنیادی فرق ہی عقل و شعور کا ہے۔سب انسان ایک جیسے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے سب کو ایک جیسا پیدا کیا۔سب کی ضروریات زندگی ایک جیسی ہے۔اوصاف ایک جیسے ہیں۔انسانیت کا تصور بھی یہی ہے اور ایک انسانی معاشرے میں تمام انسان ایک دوسرے کو برابر سمجھیں۔جب پیدا کرنے والے نے ہی بغیر کسی تفریق کے پیدا کیا تو کیوں مخلوق اپنے آپ کو خدا سمجھ بیٹھی ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایام تشریق کے درمیانے دن کو خطبہء الوداع ارشاد فرمایا اور فرمایا: "لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے، آگاہ ہو جاؤ! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ رنگ والے کو کالے رنگ والے پر اور کسی سیاہ رنگ والے کو سرخ رنگ والے پر کوئی فضیلت و برتری حاصل نہیں، مگر تقویٰ کے ساتھ"۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے"اللہ تعالى کے ہاں تم میں سے وہ شخص سب سے زیادہ معزز ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے"۔ہم مسلمان ہوتے ہوئے اور ایک اسلامی مملکت میں رہتے ہوئے بھی انسانیت اور احساسات سے عاری ہیں۔دوسروں کے دکھ، درد اور  تکلیف میں دیکھتے ہوئے بھی ہنسنے لگتے ہیں اورخاموشی سے گزر جاتے ہیں۔ روزانہ سڑکوں پر کتنے ہی حادثات ہوتے ہیں۔  ملزم فرار ہو جاتے ہیں ۔لوگ مدد کے لیے پکارتے رہتے ہیں۔مگر کوئ بھی پکار سننے کے باوجود ان کی طرف قدم نہیں بڑھاتا۔اور اسی وجہ سے بے شمار لوگ دم توڑ دیتے ہیں۔اہمیت انسان کی نہیں صرف پیسے کی ہے۔ہر طرف پیسے کے پجاری نظر آتے ہیں جن کو صرف دولت کی حوس رہتی ہے۔انھیں جیتے جاگتے انسانوں کے احساسات کی کوئ پرواہ نہیں۔معاشرے میں شاذونادر ہی لوگ ہیں جن میں انسانیت اور احساسات زندہ ہیں۔جب سے انسان طبقوں اور فرقوں میں تقسیم ہونے لگا  تب سے انسانیت فنا اور احساسات مردہ پائے گئے۔کوئ اگر کسی سے بھلائ کرتا ہے تو اس میں بھی اپنے مفادات کو مدنظر رکھتا ہے۔انسانیت اور احساسات کے مردہ ہونے میں ایک بڑا ہاتھ مشینوں کا بھی ہے۔جن کی ایجاد سے جہاں بہت سی سہولیات فراہم ہو گئیں  وہیں لوگوں کو ایک دوسرے کے دکھ درد اور تکلیف سے کا احساس ہی نہیں رہا۔جب لوگ اپنے ہاتھ سے سخت محنت و مزدوری کرتے تھے تب دوسروں کی بھی تکلیف اور پریشانیاں کو بھی محسوس کرتے تھے۔ایک دوسرے کا احساس تھا۔مدد کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔اب تو بس نفسا نفسی کا عالم ہے۔

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت

احساسِ مروّت کو کُچل دیتے ہیں آلات

احساس الفت و محبت کی اہم کڑی ہے۔احساس ہی سے رشتے میں پائیداری آتی ہے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ کا قول ہے"رشتے خون کے نہیں احساس کے ہوتے ہیں۔ اگر احساس ہو تو اجنبی بھی اپنے ہو جاتے ہیں اور اگر احساس نہ ہو تو اپنے بھی اجنبی بن جاتے ہیں"۔اگر احساسات مردہ ہو جائیں تو انسانیت بھی فنا ہو جاتی ہے۔اشفاق احمد صاحب کہتے ہیں،’فاتحہ لوگوں کے مرنے پہ نہیں بلکہ احساس کے مرنے پہ پڑھنی چاہیے کیونکہ لوگ مر جائیں تو صبر آ جاتا ہے مگر احساس مر جائے تو معاشرہ مر جاتا ہے۔ہمارے احساسات تو اس قدر مردہ ہو چکے ہیں کہ باقی سب تو چھوڑیے ۔اولاد کو لیجئے جن  کو والدین ہمیشہ تپتی دھوپ سے  بچائے رکھتے ہیں۔جب اولاد جوان ہوتی ہے تو ماں باپ صرف توجہ اور تھوڑا سا وقت ہی تو مانگتے ہیں ۔ مگر اولاد تو وہ بھی نہیں دے سکتی۔وہ لوگ جو خون کے رشتوں کا ہی احساس نہیں کرتے ان کے حقوق نہیں ادا کرتے۔وہ کسی اور کے ساتھ کیسے مخلص ہو سکتے ہیں۔باقی رشتے تو بعد میں آتے ہیں۔یہی تو احساسات سے مردہ لوگ ہیں۔

وجود کھوکھلہ ،حوصلے مردہ ہیں

انسانیت فنا،احساسات مردہ ہیں

ذرا سوچیں کہ انسان میں جب انسانیت ہی مفقود ہو چکی ہے تو کیا وہ انسان کہلانے کے لائق

ہے۔حیوانوں اور انسانوں میں کیا فرق رہ گیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اگر انسان مر بھی جائے تو انسانیت زندہ رہتی ہے۔مگر صد افسوس کہ یہاں تو زندہ ہوتے ہوئے بھی انسانیت فنا ہو چکی ہے۔انسان ہونے کے ناتے ہم پر بہت سی زمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں جنھیں ادا کرنا واجب ہے۔انسانیت کا بھی یہی تقاضا ہے۔اللہ نے بھی حقوق العباد پر بہت زور دیا ہے۔اس لئے ہماری  اخلاقی زمہ داری  ہے کہ ہم اپنے اردگرد کے لوگوں کا جائزہ لیں اور اگر کسی کو ہماری ضرورت ہے تو اپنی حیثیت کے مطابق اس کی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔نہ صرف انسانوں بلکہ حیوانوں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آئیں۔احساس کی اشد ضرورت ہےکیونکہ یہی احساس ہے جو بندوں سے ہو تو اللہ کے قرب سے آشنائی ملتی ہے۔اور اللہ سے تعلق مضبوط ہوتا ہے۔بےشک اللہ اپنے پرہیزگار بندوں کو کبھی خالی ہاتھ نہیں لٹاتا۔





Post a Comment

Previous Post Next Post