Corruption Written By Isha Qazi

Corruption Written By Isha Qazi

Corruption Written By Isha Qazi

السلام علیکم

میں عشاء قاضی محمد `اکبر ہوں،

میری عمر 18 سال ہے ،اور میں میڈیکل کی

 طالب علم ہوں، میں جانتی ہوں کہ میرے پاس زیادہ معلومات اور علم نہیں ہے۔ لیکن  کرپشن کے بارے میں کچھ

 میرے خیالات ہیں امید ہے کہ آپ اسے پڑھیں  گے اور آسانی سے سمجھے گے۔

آپ سب کا شکریہ۔

عشاء قاضی۔

10 جولائی 2022۔

 

بسم الله الرحمن الرحيم

 

ترجمہ: کنزالایمان؛

   اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں دوڑتا پھرتا ہے تاکہ اس میں فتنہ انگیزی کرے اور کھیتی کو (برباد) اور (انسانوں اور حیوانوں کی) نسل کو نابود کردے اور خدا فتنہ انگیزی کو پسند نہیں کرتا  ﴿۲۰۵

 

کرپشن کیا ہے؟

 

     بدعنوانی سے مراد مجرمانہ، سرگرمی یا بے ایمانی کی ایک شکل ہے۔ اس سے مراد کسی فرد یا گروہ کی طرف سے برے کام کی طرف اشارہ ہے۔ سب سے زیادہ قابل ذکر، یہ ایکٹ دوسروں کے حقوق اور مراعات سے سمجھوتہ کرتا ہے یہ انسان کی فطرت ہے عام الفاظ میں بیان کیا جائے تو کرپشن ایک ان سیکیورٹی ، ڈر ،جنون ، خواہش کا نام ہے مثال کے طور پر ایک انسان ہیں وہ کسی چیز کو شدت سے حاصل کرنا چاہتا ہے اور وہ اس کی خواہش میں اتنا اندھا ہو جاتا ہے کہ ۔ کیا غلط ہے کیا صحیح ہے کا فرق بھول جاتا ہے اور یہاں سے کرپشن کا آغاز ہوتا ہے کرپشن کی ہمارے پاس دو اقسام ہیں

 1۔ضرورت۔

   2۔   عادت۔

 اب بظاہر دیکھا جائے تو یہ دو الگ الگ اقسام ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ ایک ہے پاکستان میں پچاس فیصد آبادی غریب ہے۔ ہر بندہ ہر چیز اچھی سے اچھی اور منافع بخش چاہتا ہے ، اور یہاں سے شروع ہوتی ہے' کرپشن ' آپ خود سوچیں انسان کو کوئی کام منافع دے رہا ہے اور وہ اس کی لت میں لگ جائے تو وہ ہرگز نہیں دیکھے گا کہ وہ اس کے لئے کیا کر رہا ہے خود کو بچانے کے لئے رشوت بھی دے گا۔ وہ اپنے کام کروانے کے لیے پیسے بھی دے گا ،اب تک وہ منافع اس کی ضرورت تھی لیکن جب اس ضرورت سے کہانی آگے بڑھ جائے اور ، اس چیز کی عادت ہو جائے تو یہاں صرف کرپشن عادت بن جاتی ہے پھر وہ یہ نہیں دیکھتا کہ وہ صحیح ہے یا غلط ہے اس کے لیے وہ کام ضروری ہو جاتا ہے ۔ میں نے بہت سے آرٹیکل پڑھیں اور ان سب میں سارا قصور صرف حکومت کا دیکھایا جاتا ہے لیکن میرا سوال یہاں یہ ہے کہ اس سب کے قصوروار کیا صرف حکومت ہے؟؟ میں ہرگز یہ نہیں کہتی کہ حکومت غلط نہیں ہے بے شک نظام خراب انہی نے کیا یہاں کوئی بھی لیڈر یا گورنمنٹ آفیسر اپنے ملک کے ساتھ مخلص نہیں ہے ہمارے افسران قانون کو نہیں مانتے ورنہ پاکستان کے آئین کے مطابق بدعنوانی  کی روک تھام کے لیے  دفاتر موجود ہیں ہے پروموشن آف کرپشن ایکٹ 1947 نافد کیا گیا ہے اور اس کی سزا سات سال قید یا جرمانہ یا پھر یہ دونوں ہے لیکن افسوس کے ساتھ ہم نے کبھی کسی حکمران کو کرپشن کے بعد اس سزا کو پورا کرتا ہوا یا عدالت میں نہیں دیکھا ، ہر ادارے کے اندر کرپشن کو اتنا عام کردیا گیا ہے کہ ہر چیز کو خرید لیا جاتا ہے۔ حکومت کی نوکریاں، ٹیکسٹ ،مہنگائ ، اور ظاہر ہے جب عوام اپنی ضرورتیں پوری نہیں کر سکے گی اور ظاہر ہےحکومتوں نے غلط راستہ دکھائے گی تو وہ اسی رستے پہ جائیں گی ان سب کی وجہ سے عوام کرپشن کرنے پر مجبور ہو گی۔ 

…………………………………………………

 

سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس کے علاوہ خود کرپٹ نہیں ہے؟ حکمرانوں کو قصور وار ٹھہرا رہے ہیں تو کیا ہم اپنے ملک کے ساتھ مخلص ہیں؟رشوت اور کرپشن حکومتی اداروں میں کی جاتی ہے تو کیا پرائیویٹ اداروں میں نہیں کی جاتی؟ کیا دودھ والا دودھ میں پانی ملا کے نہیں کرتا؟ کیا چیزوں کو اس سے زیادہ قیمت میں بیچا نہیں کرتے؟   اگر ہم چاہیں تو ہم اسے روک سکتے ہیں لیکن ہم خود اپنے مطلب کے لئے اپنے، مفاد کے لیے ان افسروں کا کھلونا بنتے ہے۔ ہمارا مفاد ہمیں نظر آتا ہے تو ہم بھی بھول جاتے ہیں کہ ہم بدنیتی کر رہے ہیں ۔جتنا قصوروار ہم حکومت کو ٹھہرا رہے ہیں اتنے ہی قصور وار ہم خود بھی ہیں اگر حکومت لالچی ہے وہ اپنے اکاؤنٹ بھر لیتی ہے تو ابھی ان کی جگہ خود کو رکھ کے سوجیں اتنی پاور اتنا پیسہ آپ کے پاس ہوتا تو آپ خود وہ اپنے اکاؤنٹ میں ڈالنے کی جگہ  کیا دنیا پر لگاتے ؟ یا کچھ منافع بھی دیکھتے؟ بات تو حقیقت ہے کہ جیسی ریایا ہوگی، ویسا ہی حکمران ہوگا ، جب ہم خود صحیح نہیں ہے تو ہمیں کیسے دوسروں پر تنقید  کر سکتے ہیں؟ کرپشن پر باتیں کریں تو گالیاں صرف حکمران کو کیوں ملتی ہیں ۔اگر ہم اپنی ہی روزمرہ کی زندگی کے اندر دیکھے عام سی ایک مثال میں بتاتی ہوں ،جیسے انسان کو جہاں سے کوئی مفاد مل جائے وہ وہاں آپنی ضرورت کے حساب سے کرپشن کرتا ہے جو چیز آپ کو عام طور پر مل رہی ہے وہ برینڈ کے نام پر مہنگا کر کے بیجا جا رہا ہے۔ ہم سب اتنے کرپٹ ہو چکے ہیں کہ اپنے آگے کہ مستقبل کو بھی یہ سیکھا رکھا ہے کہ پیسے سے ہر کام ہو سکتا ہے ، پیسے سے بڑی اور کوئی چیز نہیں ہے ۔ ہم بچپن سے ہی اپنے بچوں کے دماغ میں اس چیز کو ڈال دیتے ہیں مثال کے طور پر کسی کامیابی پر ہم تو صرف بطور خوشی پیسے دیتے ہیں یہ ہماری طرف سے تحفہ ہوتا ہے لیکن اس میں یہ چیز بچے کے دماغ میں رہ جاتی ہے کہ وہ کام کرنے سے وہ پیسے ملیں گے ۔  ہم دھرنے دیتے ہیں حکومت کے خلاف ، نظام کے خلاف لیکن یہ حکمران چننے کا حق بھی تو ہمیں دیا جاتا ہے نہ یہ حق دیا جاتا ہے تب بھی تو اپنا منافع دیکھ کے ووٹ اسے ڈالتے ہیں جس سے ہمیں کوئی نہ کوئی مفاد مل رہا ہو ۔ ایک شخص ایک لیڈر غلط ہے تو ہم اسے دوبارہ ووٹ دیتے ہوئے یہ بات کیوں یاد نہیں رہتی؟ ہمیشہ یاد رکھنا جب آپ ایک انگلی دوسروں پر اٹھائیں گے تو باقی کی چار آپ کی طرف ہی اٹھے گی اگر ہم چاہیں تو ہم کرپشن کا بائیکاٹ بھی کر سکتے لیکن ہم بھی اپنا مفاد دیکھ کر جھک جاتے ہیں اور بعد میں شکایت نظام اور حکمرانوں کی کرتے ہے جب تک کوئی کرپشن نہیں کرسکتا جب تک آپ خود اس پر راضی نہ ہو۔ جب تک ہم اپنے اندر سے بدعنوانی ختم نہیں کریں گے اور آواز نہیں اٹھائیں گے  تب تک ہم کرپشن کا شکار ہوتے رہیں گے ،معاشرہ نہ تب تک نہیں بدل سکتا ہے جب تک آپ خود مخلص نہ ہو ایک  سوال یہ بھی پایا جاتا ہے ۔ کہ کسی ایک کے بدلنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ کسی ایک کی آواز اٹھانے سے کچھ نہیں ہوتا تو ذرا سوچیں کہ شاید پاکستان بھی نہ ہوتا ، ہم سب نے اپنے دلوں کے اندر کسی نہ کسی چیز کا بت بنا لیا ہے کسی نے پیسے کا، کسی نے شوہرت کا ،کسی نے  نام کا، اور ہم اس بت کو پوجتے ہیں،    ہمیں نے یہ تک بھلا دیتا ہے کہ ہم جو خود کررہے ہیں وہ صحیح ہے یا غلط .. اگر ہم سب مل کر اپنے اندر سے اس بدعنوانی کو نکال دیں اور اس کرپٹ نظام کے خلاف کھڑے ہو جائیں تو کیا ہم اس نظام کو بدل نہیں سکتے؟ اگر عوام مخلص ہو جائے تو کرپشن کہاں ہوگی ؟ پہلے ہمیں اپنے اندر کے ان بتوں کو مارنا ہوگا

 

[سور اور بد دیانتی کی بنیاد سراسر ظلم اور زیادتی پر  ہے۔۔ ہمارے ملک کے ڈوبنے کا سبب سیاستدان نہیں ،معذرت کے ساتھ کہ یہ ہم سب کے اجتماعی گناہوں نے اس ملک کو دبایا ہے]۔

 

 ذرا سوچیں 14 سو سال قبل جو تعلیمات دی گئی ، قانون بنا کر دیے گئے کیا ہمیں وہ یاد ہیں ؟؟ جو معاشرتی قانون حضرت علی رضہ اللہ تعالی عنہ نے بنائیں وہ باقی دنیا نے تو یاد رکھیں مگر افسوس آج  ملک کو بنایا اسلام کے نام پر گیا وہ ہی اسے بھول گئے  اور   پاکستان میں کرپشن ایسے ہیں جیسے  رمضان المبارک  کے رویے رکھنے کے بعد فطرہ دینا۔۔  

     

 ہمارے  ذہنوں  میں  یہ بات ڈال دی گئی  ہے کہ جس کے  پاس طاقت ہے  وہ کرپٹ ہیں  پر طاقت  غلط نہیں  ہوتی، طاقت  کو استعمال  کرنے  والا کرپٹ ہوگا تو طاقت  غلط  ہوگی ۔بطور مثال اپنے  ہمسایہ ملک  ترکی کے حکومت کے پاس بھی  ہیی  طاقت ہے جو ہماری حکومت کے پاس ہے اور  عوام کے پاس بھی   پھر   فرق  کیوں ؟

زرا  سوچیے!!!!!!!

 

    ترجمہ: کنزالایمان؛

  ''اے پیغمبر؛ ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے تاکہ خدا کی ہدایت کے مطابق لوگوں کے مقدمات میں فیصلہ کرو اور (دیکھو) دغابازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا''  ﴿۱۰۵﴾سورہ نساء۔۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کے لیے رہنمائی فرمائے آمین

عشاء قاضی۔


1 Comments

Previous Post Next Post