Kaba Mere Piche Hai Kaleesa Mere Aage Written By Saffa khalid

Kaba Mere Piche Hai Kaleesa Mere Aage Written By Saffa khalid

Kaba Mere Piche Hai Kaleesa Mere Aage Written By Saffa khalid

عنوان: "کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسہ میرے آگے"

از قلم : صفا خالد

انسانی زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ عالم ارواح، حیاتِ ارضی اور علمِ برزخ۔

اللہ عزوجل نے فرشتوں کو حکم دیا کہ میرے

نائب کی تخلیق کے لیے زمین سے اس کا کچھ حصہ اکھاڑ لایئں۔ اس لیے کہ وہ دن رات رب ذوالجلال کے ذکر میں مشغول رہے۔ رب تعالیٰ کی عبادت ہی اس کی زندگی کا فرض اولین ہو۔ فرشتے خدا کی نافرمانی مول نہیں لے سکتے تھے مگر ان کی نظر میں انسان یعنی کہ رب تعالیٰ کا نائب زمین پر محض فساد برپا کر دینے والا تھا۔ مگر پھر بھی وہ زمین سے مٹی لینے پہنچ گئے۔ مٹی نے اپنا حصہ دیا اس یقین پر کہ ایک دن مٹی واپس اپنی مٹی میں آکر مل جاۓ گئ۔

تمام روحوں کو اکٹھا کیا گیا انکو آداب ِدنیا سکھائے گۓ۔ ان کو طریقۂ زندگی بھی سمجھا دیا گیا۔ روحوں کے اس اکٹھ کو عالم ارواح کہا جاتا ہے۔ ہم دنیا میں اکثر ایسے کئی چہرے دیکھتے ہیں جنہیں دیکھ یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس چہرے کو پہلے بھی کہیں دیکھا ہے تو عالمِ ارواح اس بات پر بھی مہر لگاتی ہے وہ چہرے حقیقتاً ہم سے شناسا ہوتے ہیں یہ روحوں کے وہ رشتے ہیں۔ جب تمام ذی روح کو ایک ہی جگہ جمع کیا گیا۔ گویا وہاں تمام روحوں نے حلف لیا ہو گاکہ وہ زمین پر جا کے فساد برپا نہیں کریں گے بلکہ اپنی زندگی کو ربِ کریم کی عبادت اور اطاعت رسول میں وقف کردیں گے۔ 

انسان جس مٹی سے اٹھایا جاتا ہے موت کے بعد اسی مٹی میں اسکو پھر سے شامل کر دیا جاتا ہے۔ اگر ہم لفظ موت کو ڈکشنری پہلو سے دیکھیں تو موت کا لفظی مطلب ملتا ہے "زندگی کا ابدی خاتمہ"۔ یعنی Permanent  cessation  of Life

یہ مفہوم اسلام کی رو سے ایک اگلے دورِحیات کے آغاز کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جسے عالمِ برزخ کہتے ہیں۔

منکر نکیر جب مٹی کے مردہ ڈھیر سے سوال جواب کی کاروائی کرنے کے بعد اس کو قیامت کے لیے ابدی نیند سلا دیں گے۔ اور حضرت اسرافیل علیہ السلام  کے صور پھونکنے کے بعد  جب بنی نو انسان میں ازسرِنو روح پھونکی جائے گی۔ اسکی جزا اور سزا کا تعین محض اس کے اعمال پر ہی مبنی ہوگا۔ اور أخرت بلا شبہ انسان کی رہائش کا ابدی مقام ہے۔   

انسان ان دونوں دورِ حیات کے درمیان میں ایک ایسے مرحلے سے بھی گزرتا ہے جسے حیاتِ ارضی یعنی دنیا کہتے ہیں۔

 ان تینوں مراحل میں سے نازک ترین مرحلہ بھی یہی ہے۔ ذی روح کے مشاغیلِ زندگی، وہ تمام اسباب جو اس کی پیدائش سے لے کر موت تک اس کے لیے متاعِ جان ہوتے ہیں اس دورانیے میں شامل ہیں۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس پر کوئی بھی مہر درج نہیں ہوتی یعنی وہ کس مذہب فرقے یا مسلک کے تحت اپنی زندگی گزارے گا۔ وہ جس خاندان میں اپنی آنکھ کھولتا ہے اس خاندان کی تہذیب، روایات اور ثقافت کے ساتھ ساتھ اس خاندان کے عقائد کو بھی اپنا صدق عقیدہ مان لیتا ہے۔ جب کہ قرآن پاک دعوت دیتا ہے غور و فکر کی۔ تاکہ سچائی کی کھوج کی جا سکے۔

 مگر آج کا انسان بھٹک گیا ہے اس نے اپنی زندگی کے قرینے تبدیل کیا کیے اس کی ترجیحات بھی بدل گئیں۔ انسان نفس کا تابع ہو کر رہ گیا۔ ترجیحات کا تمام تر دائرہ اس عارضی زندگی کے گرد لپٹ گیا۔ ہم مغرب کی پیروی میں اتنے غرق ہوگئے کہ اپنی  اقدار کے ساتھ ساتھ اپنی زبان تک کو بھی روند ڈالا۔ پہلے بچے کے آنکھ کھولنے کے ساتھ ہی دادی اور نانی اس کو لا الہ کی لوری دیا کرتی تھیں مگر آج حالات یکسر تشویشناک ہیں بچہ تنگ کرے یا والدین مصروف ہوں تو اسے موبائل فون تھما دیا جاتا ہے بچے کی تربیت گاہ اگرچہ ماں کی گود نہیں رہی اب بلکہ موبائل فون پر چلنے والے کارٹون یا پھر ان کارٹونوں کا موجد پہلی درس گاہ بن گیا۔

 بچوں کو فجر کی اذان کے ساتھ ہی قرآن پاک کی تعلیم کے لیے مساجد یا درسگاہوں کی طرف روانہ کر دیا جاتا تھا۔ مگر آج بچوں کو ان کے سکول کے وقت پر ہی جگایا جاتا ہے۔ اور قرآن پاک کی تعلیم دینے کے لیے قاری صاحب کو گھر تشریف لانا پڑتی ہے۔ چناچہ سکول سے وہ علم حاصل ہوتا ہے جسے حاصل کرنے کے لئے بچے کا ادارے کی طرف چل کر جانا ضروری ہے۔ جب کہ قرآن پاک کی تعلیم کا گھر پر ہی انعقاد کر لیا جاتا ہے۔  کیونکہ جدید وقت کے تقاضے بدل گئے ہیں۔ ایک طریقے سے یہ امر بھی درست ہے والدین کو بچے کے معاملے میں کسی اجنبی پر بھی بھروسہ بھی نہیں کرنا چاہیے مگر اپنی رسومات کو بھی پس پشت نہیں ڈھال دینا چاہیے۔

آج کا انسان سوشل میڈیا پر پوری رات غارت کرنے کے بعد فجر کے اوقات میں خود پے نیند طاری کر لیتا ہے۔ ظہر اور عصرکا وقت اس کے کام کاروبار کی نظرر ہو جاتا ہے۔ مغرب سے عشاء تک وہ تھکا ٹوٹا بدن لئے گھر لوٹتا ہے۔ کچھ ثانیے آرام کرنے کے بعد وہ اپنا قیمتی اور نادر وقت پھر سے سوشل میڈیا جیسے موذی مرض کے نام کر دیتا ہے۔ یہی شب و روز اس کی ہستی کا کل سرمایہ بن کے رہ جاتے ہیں۔  اور پھر اچانک سے اسے ٹھوکر لگتی ہے اسے یاد آتا ہے کہ کوئی ہے جو مجھے گرنے سے روک لے گا۔ ایک ذات ایسی بھی ہے جو اسے زمانے کی گرد سے بچا لے گی۔ 

تو پھر اس کی نمازیں بقاعدہ ہو جاتی ہیں۔ تہجد کے اوقات بھی تسلسل میں آ جاتے ہیں۔ مگر انسان کا ضمیر تب تک نہیں بدلتا جب تک اس کا خمیر نہ بدل جائے۔

جب اس کی آزمائش کا وقت ٹل جاتا ہے تو وہ پھر سے اس دنیا کی رعنائیوں میں کھونے لگتا ہے۔ اس دنیا کے خوبصورت دھوکے پھر سے اس کو اپنی راہ میں کہیں گم کر دیتے ہیں۔ کیونکہ برائ کی اڑان زیادہ لمبی ہے اس لیے انسان مزید اس دلدل میں دھنستا  جاتا ہے۔

مگر پھر بالوں کی چاندی ڈھلتی عمر کا نقارہ بجانے آ جاتی ہے۔ ماضی کسی فلم کی طرح زندگی کے پردے پر ظاہر ہونے لگتا ہے۔ پھر پچھتاوے کے بادل اس کی زندگی کے سورج کو گھیر لیتے ہیں۔ اور بقیہ زندگی ماضی کا حساب دینے میں نکل جاتی ہے۔

 تو کیا ضروری ہے کہ آج کا پڑھا لکھا انسان بھی جو ستاروں پہ کمند ڈالنے کی ہمت و طاقت رکھتا ہے۔ جس نے چاند تک کو فتح کرلیا۔ کیا وہ اپنی زندگی کے آخری ایام بھی ماضی کی نظر کردے گا؟ کیوں وہ اپنے آج پہ غور نہیں کرتا! کیوں اس کو اپنے مسائل کے لئے کسی نفسیاتی معالج کی ضرورت پڑتی ہے؟ وہ کیوں صراط مستقیم نہیں اپناتا؟ وہ کیوں تفرقے میں پڑ کے اپنی نسل تک کو برباد کر لیتا ہے؟

 ٹھیک ہے دنیا میں رہ کے اس کے ڈھنگ سیکھنے بھی حصہِ حیات ہیں۔  مگر زندگی کو دنیاوی خواہشات میں لپیٹ کر آخرت سے منہ موڑ لینا خود کو سراسر مغالطے میں رکھنے والی بات ہے۔ ہر غلطی کی سزا ، ہر گناہ کا انجام تہہ ہے۔ قبر سے لے کے پل صراط تک کا سفر انتہائی کھٹن ہے مگر آسانیاں دینے والی ذات نے قرآن ِحکیم اتارا تاکہ انسان ہدایت حاصل کرے۔ ایسی ہدایت جو اسے دنیا میں رہنا سکھا دے۔

 آج ہر طرف برائی کے رنگا رنگ خاکے موجود ہیں جو ہاتھ کے ہاتھ بٹ رہے ہیں۔ مگر اللہ کی رسی کو تھامنے والے ہاتھ اب کمزور پڑھتے جا رہے ہیں۔

 کیا یہ انسانی زندگی کا المیہ نہیں ہے۔؟ میں آپ سے سوال کرتی ہوں آپ میں سے کتنوں نے غور و فکر کیا ہے ؟ کتنوں نے قرآن پاک کی پہیلیوں کو خود سے سمجھنے کی کوشش کی ہے؟ کتنوں نے نیکی اور بدی میں تمیز کرنا سیکھ لیا ہے؟ کون ہے وہ جس اپنے نفس پر قابو پالیا ہے؟ اور ہے کوئی جس نے اس دنیا پر اتارے جانے کا عظیم مقصد سمجھ لیا ہے؟

آئیں آج اپنا احتساب کرتے ہیں۔ جو ماضی میں ہو گزرا اس کو لپیٹ کے کہیں رکھ دیتے ہیں۔ بخشش کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ آیئں اب اپنے مستقبل کو سمبھال لیتے ہیں۔ آیئں اپنی آخرت کو اب سنوار لیتے ہیں۔ آیئں اپنی نسل کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھال لیتے ہیں ۔وقت کی ریل ہر سانس کے فاصلے کو گھٹاتی جا رہی ہے۔آیئں کہ اس سے پہلے یہ سفر تہہ ہو جائے۔ آئیں کہ اس سے پہلے منزل ہم سے چھن جاۓ۔ 

میں دعوت دیتی ہوں ان آیات کی طرف جو ہر ذی روح کو غوروفکر کرنے کی تلقین کرتی ہیں۔

اللہ عزوجل آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔

آمین

از قلم: صفا خالد

فیصل آباد


Post a Comment

Previous Post Next Post