Gharz written By Hira Fatima Sial

Gharz written By Hira Fatima Sial

Gharz written By Hira Fatima Sial

تحریر: غرض

از: حرافاطمہ سیال

مہناز رات کے پچھلے پہر تہجد کے لیے اٹھی تو سعد جاگ رہا تھا کافی دنوں سے اس کی بیزار طبیعت اور الجھے ہوئے لہجے کو وہ محسوس کر رہی تھی،  رات کے پچھلے پہر  اکیلا  خاموش سیڑھیوں پر بیٹھا دیکھ کر  وہ اس کے پاس چلی گئی 

تم یہاں کیوں بیٹھے ہو سعد؟؟

وہ بھی اس کے پاس بیٹھ گئی ۔

سعد بغیر اسکی جانب دیکھے سوچوں کی دنیا میں گُم بولا “ ایسے ہی کسی کے رویے سے بہت دل دکھا ہے میرا ، مارے دکھ کے نیند بھی نہیں آرہی ۔” اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گیا ۔۔۔ پھر کچھ دیر تک دونوں  میں کوئی بات نہ ہوئی۔

چونکہ مہناز کی غرض اس کی الجھن سلجھانے سے تھی معاملہ کی نوعیت جاننا نہیں اسی لیے وہ خاموش رہی اور  دونوں ہاتھوں کو گالوں سے لگائے اس کی طرف دیکھتی رہی جیسے اس کا چہرہ اس کی روداد سنا رہا ہو ۔ آخر سعد نے خاموشی توڑی اور کہنے لگا:

مہناز آپا ہم جتنا بھی کسی کے پیچھے بھاگ لیں جتنی بھی کسی کی قدر کر لیں جتنا بھی یہ احساس دلائیں یا جتلائیں کہ ہم کتنے مخلص ہیں کوئی فائدہ کیوں نہیں ہوتا؟؟ آخر خلوص ہی کیوں ناقدری کی زد میں آتا ہے ؟

مہناز چند لمحے اس کو دیکھتی رہی اور اک لمبی سانس کھینچ کر مسکرائی  اور بہت ہی دھیمے لہجے میں بولی۔۔۔۔

دیکھو سعد یہ دنیا ہے اور یہ زندگی اس کے کردار ،مطلب ایک کھیل ،جس میں چلتے رہنا شرط ہے رکنا ممکنات میں ہے ہی نہیں تم چاہ کر بھی نہیں رک سکتے۔

سعد اسے ٹوکتے ہوئے کیوں نہیں رک سکتے بہت سے لوگ سالوں پہلے ہوئے صدمے میں رہتے ہیں آگے بڑھتے ہی نہیں؟

وہ اسے سمجھانے والے انداز میں بولی نہیں رک سکتے کیونکہ ہر دن نیا ہوتا ہے  بعض لوگ کسی ایک لاحاصل خواہش ، کسی کے بچھڑ جانے کا غم یا کوئی بھی  دنیاوی روگ لگا کر بیٹھ جائیں تو بھی وہ ہر دن  اٹھتے  ہیں ، کھاتے ہیں ،اپنی زندگی کو معمول کے مطابق گھسیٹتے رہتے ہیں پھر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ آگے نہیں بڑھ رہے وہ آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں ۔بس ان میں زندگی کو جینے کی رمق باقی نہیں رہتی۔

سعد نے اس بات کو سمجھتے ہوئے ایک اور سوال اس کے سامنے رکھا؛

اور جو لوگ ہمارے خلوص کی قدر نہیں کرتے ہم جتنا بھی ساتھ دیں مشکل میں ہمیں اکیلا چھوڑ دیتے ہیں ان کا کیا؟

  وہ اب اصل مدعے پر آرہا تھا مہناز مسکرائی اور پھر اس کی آنکھوں میں جواب پانے کا تجسس دیکھ کر آہستہ سے بولی ؛ “دیکھو سعد “اگر تم مخلص ہو کر کسی کو اپنا بنانے کی کوشش کر رہے ہو تو یہ خوش قسمتی ہے تمہاری کہ تم ناقدرے  نہیں ہو لیکن پھر بھی غور کر لو کہیں کسی اپنے مخلص کی ناقدری تم بھی تو نہیں کر رہے ، کیونکہ انسان ایک وقت میں کسی ایک کے ساتھ مخلص ہوتا ہے  تو کہیں نا کہیں کسی دوسرے کی ناقدری کرتا ہے اور اسے یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ جو درد وہ محسوس کر رہا ہے وہی درد کسی دوسرے کو دے رہا ہے۔

سعد الجھے ہوئے انداز میں بولا: “نہیں سمجھ پایا آپا۔۔۔۔ آپ کی باتیں میری سمجھ سے اوپر ہیں۔

مہناز بولی؛ “ سعد انسان بہت ناشکرا ہے وہ جہاں اچھائی کرتا ہے وہاں سے بدلے میں بھلائی  نہ پائے تو دنیا کے ہر رشتے سے بیر باندھ لیتا ہے اور جا بجا یہی راگ الاپتا ہے کہ دنیا مطلبی ہے لوگ مفادپرست ہیں وغیرہ وغیرہ ، جیسے تم نے اکثر لوگوں کو سنا بھی ہو گا محفل میں بیٹھ کر دنیا کو ظالم اور خود کو مظلوم ٹھہراتے۔ اگر تم خلوص لُٹا رہے ہو اور بدلے میں خلوص یا قدر چاہ رہے ہو تو تم بھی تو کسی غرض سے اس کے ساتھ چل رہے ہو مطلب تو تمہیں بھی ہے ۔۔۔۔ لہذا اگر تو خلوص کے بدلے خلوص چاہتے ہو اور نہیں مل رہا تو چھوڑ دو خلوص لٹانا اور اگر بےغرض ہو کر خلوص لٹا رہے ہوں تو صلہ یقیناً پاؤ گے۔

اللہ نیتوں کو بھاگ لگاتا ہے پیارے۔

کیونکہ

اعمال کا دارومدا نیتوں پر ہوتا ہے”.

 

سعد جنجھلا کر بولا؛۔ “آپا!!  آخر کب تک ایسے تو  لوگ مجھے اپنی ضرورت کے تحت استعمال کر کے آگے بڑھ جائیں گے اور مشکل پڑنے پر کوئی مخلص نہ ملا تو میری نیک نیتی کا کیا فائدہ؟؟؟

مہناز مسکرائی اور کہا کہ “میں نے تمہارے  اس سوال کا جواب ہی تو دیا ہے تمہیں اب بیٹھ کر میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو۔

ایک بات میں تمہیں اور بتا دوں کہ مشکل میں انسان نہیں ﷲ کی ذات ساتھ ہوتی ہے اور جو مدد کرنے آتا ہے ناں اسے ﷲ بھیجتا ہے اور تم بھی تب تک ہی کسی کی مدد کر سکتے ہو جب تک ﷲ چاہے گا۔

زندگی کو فائدے اور نقصان کے ترازو میں تول کر اپنے اعمال کو اچھا یا برا بنانا تمہارا کام ہے “۔

اتنا کہہ کر وہ وہاں سے اٹھ گئی اور سعد سیڑھیوں پر بیٹھا اس کی باتوں کے الجھاؤ میں اپنے سوالوں کے سرے جوڑ کر جواب ڈھونڈ رہا تھا۔

فجر کا وقت ہوا اور ہر سمت ﷲ اکبر کی صدائیں گونجنے لگی۔


1 Comments

Previous Post Next Post