Insaan Hain Hum Written By Hina Irshad

Insaan Hain Hum Written By Hina Irshad

Insaan Hain Hum Written By Hina Irshad

عنوان انسان ہیں ہم

بقلم حناء ارشاد

کہنے کو تو انسان ہیں ہم

گزرے وقت میں بے سائباں ہیں ہم

وقت کے کبھی حسیں نشاں تھے ہم

اب کی بار وقت کی ظلمت کے نشاں ہیں ہم

بقلم حناء ارشاد

ہاں ہم آج کے دور میں انسان کی شکل میں حیوان ہیں۔ ہم  نے اب یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس پرچم کے سائے تلے ہم سب ریزہ ریزہ ہیں۔  ہم اب شاید بے حس ہوچکے ہیں یا پھر اپنا ضمیر سلا یا مار  چکے ہیں۔

ہم اس قدر مفاد پرست ہو چکے ہیں کہ ہمیں صرف اپنی ذات سے واسطہ ہے۔  ہماری بلا سے کوئی جیے یا مرے' ہمیں کیا؟

ہمارے لیے یہی کافی ہوتا ہے کہ  ہم محفوظ ہیں۔

کیا ہم سچ میں محفوظ ہیں؟ نہیں ہم ہر گز بھی محفوظ نہیں ہیں۔ یہ کیسی انسانیت ہیں۔ جس نے ہم سے ہمارے اپنوں کو ہی جدا کر دیا ہے۔

ہم تو اب شاید لفظ انسانیت کا اطلاق بھی مفاد کی بنیاد پہ کرتے ہیں۔

بھئی یہ دنیا ہے اور یہی تو اس دنیا کا دستور ہے۔

جیسے کو تیساکچھ دو تو کچھ لو۔

آج اس وقت ہمارا پیارا پاک وطن پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے۔ ذرا سوچیے تو اس سب کی وجوہات کیا ہیں؟ چلیں ان وجوہات  کو چھوڑ بھی دیں تو اس وقت ہمارا سب کے ساتھ رویہ کیسا ہے؟

ہم اگر اردگرد دیکھیں تو کہیں پہ خوشیوں میں لپٹے قہقہے ہیّں تو کہیں سسکیوں میں ڈوبے نوحے ہیں۔

ہم اس بھیڑ میں بھی اکیلے ہی روتے ہیں۔ ہنسنے والوں کے ساتھ تو اک مجمع ہوتا ہے لیکن غم کی اک شب میں بھی کہاں کوئی اک پل بھی ساتھ ہوتا ہے۔

کہتے ہیں کہ جیسی عوام ویسے حکمران۔ اگر ایسا ہی ہے تو کیا ہم اپنا طرزِ زندگی بدل نہیں سکتے؟ جی بالکل اگر اس بات پہ ہمیں مکمل یقین ہے تو ہم اپنا آپ کیوں نہیں بدلتے؟

کہنے کو تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب جب بے تحاشا بے حیائی پھیلی ہے' تب تب عذاب کی صورت میں تباہی نازل ہوئی۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا اس بے حیائی کی مرتب صرف مفلس عوام ہی ہوتی ہے' یا پھر اس عذاب میں سب ہی شامل ہوتے ہیں۔ ہم جب یہ سوال سوچتے ہیں تو ہمارے دماغ میں کہیں نہ کہیں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے اعمال بیشک جتنے بھی برے ہوں' ہمیں انکا حساب صرف اپنے رب و تعالیٰ کو دینا ہے۔ ہم اس دنیا میں اپنے اعمال کے کسی انسان کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں لیکن وہ کیا ہے ناں ہم کہنے کو انسان ہیں لیکن ہم میں انسانیت کی کمی ہوچکی ہے۔ آجکے تازہ ترین واقعات کو ہی لے لیں۔

ہمارے پاک وطن پاکستان میں  سیلاب جیسی نا گہانی  

آفت داخل ہوچکی ہے۔ جو کہ 2010

کی شدت سے کہیں زیادہ شدت رکھتا ہے۔ کیا ہم صرف اسے عذاب ہی سمجھ سکتے ہیں؟ کیا ہم اس ہمارے موجودہ اور گزرے حکمرانوں کی نااہلی نہیں قرار دے سکتے؟

ہم صرف یہ کہہ کر چپ ہو جائے گے کہ انڈیا/بھارت ہمارا دشمن ملک ہے۔ یہ سب جانی و مالی نقصان انکی وجہ سے ہوا۔  جبکہ انڈیا/ بھارت یہ کام تو  ہر سال ہی کرتا ہے تو بات یہاں یہ ہے کہ ہم نے ان نقصانات سے بچنے کے لیے آخر کیا اقدامات کیے؟

اگست 2022 میں  پانچ جوان صرف اس انتظار میں اپنی چند سانسوں کی ڈور کو تھامے ہوئے تھے کہ شاید کہیں کوئی وقت کا مسیحا آئے اور چند سانسوں کی ٹوٹتی تسبیح کو جوڑتے ہوئے پرو دے۔

یہاں بھی ہم مسلمان کہیں گے کہ انکی زندگی ہی شاید اتنی تھی کیونکہ جہاں چار پانی کے خوفناک ریلے 

میں بہہ گئے تھے' وہی پانچواں جوان بھی بہہ سکتا تھا۔ ہم یہاں یہ مثال لے آئیں گے کہ "جینوں رب رکھے اوہ نوں کون چکھے۔"

استغفرُللَٰہ

کبھی ان لوگوں کا سوچیں تو جنہوں نے کئی گھنٹے امید کی کرن کو تھامے ہوئے اپنوں کے بھیس میں چھپے پراؤں کا انتظار کیا۔

وقت کی چند گھڑیوں میں بھی

 امید کا دامن تھاما تھا

کون جانے کہ کون اپنا تھا

کون جانے کہ کون پرایا تھا

کبھی سوچیے اور محسوس تو کریں کہ کیا وہ بھی ہمارے حکمرانوں کی طرح  زندگی کی رمق نہیں رکھتے تھے۔

چین کے تین علاقے اس وقت پاکستان سے زیادہ بارشوں اور سیلاب کی زد میں ہیں۔ یہ علاقے جنوب مغرب میں واقع ہیں ۔ انکے نام چنگ ڈو' آنگیو آن ' کاجیو اور تبت ہیں۔ چنگ ڈو میں ہر سال 70 لاکھ سے زائد  سیاح آتے ہیں۔ چنگ ڈو میں چوبیس گھنٹوں میں 165.1 ملی میٹر بارش ہوئی لیکن آپ چین کی حکومت کا کمال دیکھیں۔ انہوں نے بری طرح سیلاب سے متاثر علاقے ہی سے 47 ہزار افراد کو علاقوں سے نکال لیا۔

یہی نہیں بلکہ انہیں محفوظ مقامات پہ پہنچایا۔ انہیں ادوایات اور  کھانا بھی میسر کیا۔

چین کی سب سے بڑی بات یہ ہیں کہ انہوں نے کسی بھی بین الاقوامی تنظیم سے مدد کی اپیل بھی نہیں کی اور اس سارے آپریشن کے دوران کسی قسم کا جانی نقصان بھی نہیں ہوا ۔ جبکہ اسکے برعکس ہمارے ملک کا 30% حصہ اس وقت پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔

کوئٹہ  شہر کی تمام سڑکیں' پل  اور موبائل فون ٹاورز ٹوٹ گئے ہیں۔ حتٰی کہ گیس' بجلی اور پانی بھی بند ہے۔

اے -ٹی-ایم اور بینکس بھی جواب دے گئے ہیں۔

صوبائی  دارالحکومت کا باقی صوبائی حکومت سے رابطہ ٹوٹ چکا ہے۔

باقی علاقوں کی بھی صورتِ حال ملتی جلتی ہے۔ متاثرین کی تعداد 3 کروڑ ' 30 پاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ یہ گلگت بلتستان سے لیکر گوادر تک آسمان کی طرف دیکھ کر آہ و زاری کر رہے ہیں۔  اب سوال صرف یہ ہے کہ کیا سیلاب صرف پاکستان ہی میں آیا ہے؟ جواب ہے نہیں۔

چین ہو' ایران ہو' ترکی ہو' یا پھر ملائیشیا یا پوری دنیا  ہی کیوں نہ ہو۔

سیلاب و زلزلے اور خشک سالی تو وہاں پہ بھی آتی ہے لیکن وہاں کی حکومت اور لوگ 'اپنے لوگوں کو بچا بھی لیتے ہیں اور وہاں کی حکومت انہیں کسی مدد کے بغیر بحال بھی کر لیتی ہے مگر کیسے؟ جبکہ ہم ہر آفت اور مصیبت میں اپنے لوگوں کو موت کی طرف دھکیلتے ہوئے' امداد' امداد کی صدائیں لگانے لگتے ہیں۔ نعوذباللّٰہ ہم اسے بھی بھیک مانگنے کا بہانا بنا لیتے ہیں۔

آخر ایسا کیوں؟ کیا دوسری اقوام سپر ہیومن پاور ہیں ؟ یا پھر کیا ہم انسانوں کی کوئی پست ترین شکل ہے؟ آخر ہمارا مسئلہ کیا ہے؟ شاید ہم اپنی قوم کو آفتوں سے لڑنے کے لیے تیار ہی نہیں کر پاتے۔ آگ لگ جائے' پانی آ جائے'یا پھر کوئی بھی حادثہ پیش آ جائے تو ہم میں سے کوئی شخص بھی اس سے نمٹنا نہیں جانتا۔  آج تک ہماری حکومت نے کاغذی منصوبہ بندی کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا۔ کیا ہم نے قومی سطح پر بھی بھی

NDMNA

اور صوبائی لیول پہ

PDMNA

بنا دیے ہیں۔ یہ بھی نام کے ادارے ہیں اور یہ ہلاکتوں  کے ڈیٹا جاری کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرتے۔ حالات یہ ہیں کہ ہم آجتک ملک میں مغیر افراد کی فہرست تک نہیں بنا سکے۔

کیا ہماری حکومت پچھلے پچھتر سال سے اس قدر نا اہل ہے کہ وہ اس جدید دور میں بھی مغیر حضرات' انکے خاندان کا ڈیٹا ہی حاصل کر کے ریکارڈ میں رکھ لیتی۔

ہم ہر دفعہ مصیبت کی گھڑی میں امداد کے نام کی بھیک  مانگنے کے لیے کیوں تیار رہتے ہیں۔

 کیا ہم اس جدید دور میں سیالانی ٹرسٹ' دعوت اسلامی'اخوت کاروان علم' ایدھی سنٹر  یا کوئی ایسا ادارہ جو ہمیں ناگہانی آفتوں کے  وقت مدد دے' تیار نہیں کرسکتے۔

پاکستان ایک ایٹمی قوت رکھنے والا ملک ہونے کے باوجود پسماندہ ملک ہی ہے۔

آخر کب ہم خود مختار ہونگے۔

ہمارے پاس شعور ہونے کے باوجود ہم لاشعور زندگی ہی کیوں گزار رہے ہیں؟

ہمیں بس اک قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔ بس حوصلے و جذبے کے ساتھ اک لائحہ عمل تیار کرکے اس پہ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

ہم کسی سے کم نہیں ہیں لیکن ہمیں ضرورت ہے اک بند مٹھی کی۔ اس بند مٹھی کی وجہ سے ہم ان شاء الله پوری دنیا پہ ثابت کر دیں گے کہ  جو گزر گیا'  اس میں ہم امید تھے لیکن آج ہم یقین ہیں۔

آئیے آج اور ابھی سے اک بند مٹھی کی صورت اختیار کریں۔  جنہیں ہماری ضرورت ہے'  ہم انکی ضرورت اپنی استطاعت سے بڑھ کر پوری کریں۔

اس وقت کے مہاجر ہیں اب ہم

اس وقت میں اک دوجے کے ساتھی ہیں اب ہم

آؤ اس وقت میں طاقت بنیں اب ہم

کہ سب کہہ اٹھیں دو سے ایک ہیں اب ہم

اے وقت تو بھی گواہی دینا کہ

جو کچھ ہم پہ بیت گیا

اس میں بے بس تھے بس ہم

 اب کی بار امیدوں کا مرکز بنیں گے اب ہم 

از حناء ارشاد




Post a Comment

Previous Post Next Post