Mazgan planned Unforgettable Surprise for Yawar Ali Sikandar Episode 30 ...



مژگان نے کمرے کو بہت خوبصورتی سے سجایا تھا۔ کمرے میں مختلف جگہ، بیڈ کے سائیڈ ٹیبلز پہ اور ڈریسنگ ٹیبل پہ اس نے خوشبو والی موم بتیاں جلا کر رکھ دی تھیں اور ساتھ میں اس نے کمرے میں ڈِم لائٹنگ کی ہوئی تھی۔ کمرہ اس وقت خواب ناک ماحول بنا رہا تھا۔ بیڈ کے درمیان میں گلاب کے پھولوں سے دل بنا ہوا تھا اور اس دل میں موتیے سے فِلنگ کی گئی تھی۔ یاور گھر آیا تو اپنے دھیان میں کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے ذہن میں میرال کی باتیں گردش کر رہی تھیں۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی انتہائی مسحور کن خوشبو کا جھونکا اسے محسوس ہوا تھا۔ کمرے کی سجاوٹ دیکھ کر ایک لمحے کو تو وہ بالکل ہی حیرت زدہ رہ گیا تھا۔ یہ کمرہ اس کا بیڈ روم کم اور کسی ہوٹل کا ہنی مون سویٹ زیادہ لگ رہا تھا جس میں رومینٹک سیٹنگ کی گئی ہو۔ یقیناً یہ مژگان نے ہی کیا تھا لیکن آج تو کوئی خاص موقع بھی نہیں تھا۔ اس نے دروازہ بند کرتے ہوئے چند قدم بیڈ کی جانب بڑھائے اور اپنا بازو پہ ڈالا ہوا کوٹ بیڈ کے ایک طرف رکھنے لگا تو بیڈ کے وسط میں پھولوں سے بنے دل کی طرف اس کی نظر گئی۔ اس کے ہونٹوں پہ بے ساختہ بڑی خوبصورت مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔ اسی اثناء میں مژگان کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ اس وقت سُرخ رنگ کی ہاف سلیوز میکسی میں تھی۔ اس نے بالوں کو کھلا چھوڑا ہوا تھا، کانوں اور گلے میں خوبصورت سی ڈائمنڈ جیولری پہنی ہوئی تھی جس کے ساتھ یاور کا دیا ہوا ایم اور وائے والا لاکٹ بھی تھا، ایک کلائی میں رومانہ کے دیے کنگن تھے اور دوسری کلائی خالی تھی۔ ایک ہاتھ کی پہلی انگلی میں اس نے سرخ یعقوت کی خوبصورت انگوٹھی پہن رکھی تھی اور پیروں میں سفید رنگ کی ہیلز۔ سُرخ کے امتزاج کے ساتھ اس نے ہلکا سا کالے رنگ کا سموکی آئی میک اپ کیا ہوا تھا اور گہرے گلابی رنک کی لپ اسٹک اس کے ساتھ بہت سوٹ کر رہی تھی۔ یاور مبہوت سا ہو کر اسے دیکھنے لگا۔ مژگان کے ہاتھ میں ٹرالی تھی جس پہ مختلف قسم کی چیزیں رکھی تھیں۔ وہ ٹرالی تھام کر یاور کے نزدیک آ کر رکی۔ یاور نے ایک بھرپور نظر اوپر سے نیچے تک مژگان پہ ڈالی۔

"ویلکم ہوم۔" مژگان نے اسے اپنی طرف ٹکٹکی باندھے ہوئے دیکھا تو مسکرا کر کہا۔ یاور کو اسے دیکھ کر ایک دم یاد آیا تھا کہ وہ اس سے ناراض تھا۔ وہ مسکراتے مسکراتے ایک دم سنجیدہ ہوا۔

"یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی؟" اس کا انداز ایسا تھا جیسے ابھی تک ناراض ہو لیکن مژگان جانتی تھی کہ وہ صرف اسے دکھانے کے لیے ایسا کر رہا ہے۔ اس کی آنکھوں کی چمک بتا رہی تھی کہ اسے سب کچھ بہت اچھا لگ رہا تھا۔

"آپ کو اچھا نہیں لگا؟" وہ فکر مند سی ہو کر پوچھنے لگی۔

"میں نے ایسا تو نہیں کہا۔ میں صرف پوچھ رہا ہوں" وہ اس کے موڈ خراب ہونے کے خیال سے سنبھل کر بولا۔

"آپ اتنے دن سے ناراض تھے مجھ سے۔ میں نے سوچا آپ کو منانے کے لیے اچھا سا سرپرائز دوں۔ اگر آپ کو پسند نہیں آیا تو میں واپس لے جاتی ہوں۔"

وہ مایوسی سے کہتے ہوئے ٹرالی تھام کر واپس مڑنے لگی تو یاور نے جھٹکے سے اسکی کلائی تھام کر اسے اپنی بانہوں میں تھام لیا۔ وہ اسے کمر سے پکڑے اس پہ جھکا، اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔

"بہت تیز ہو تم!" مژگان نے اپنی مسکراہٹ چھپانے کے لیے نچلا لب دانتوں میں دبایا۔ " تم چاہتی ہو کہ میں ناراضگی بھی ختم کر دوں اور تم سے حساب بھی نہ مانگوں۔ ہے نا؟" یاور کے ماتھے پہ ہلکی سی تیوریاں نمودار ہوئی تھیں۔ مژگان نے معصوم سا چہرہ بنا کر اثبات میں سر ہلایا۔ یاور گہری نظروں سے اس کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔

"اتنی آسانی سے؟ تمھیں اندازہ بھی ہے تمھاری طرف میرے کتنے حساب نکلتے ہیں؟"

"کتنے؟" مژگان کے معصومانہ طریقے سے پوچھے گئے سوال پہ یاور کی تیوریوں میں اضافہ ہوا۔

"ایک سال میں تین سو پینسٹھ دن اور تین سو پینسٹھ راتیں ہوتی ہیں۔ اور تم مجھ سے دو سال چار مہینے نو دن دور رہی ہو۔ کُل ملا کر آٹھ سو اُنسٹھ دن اور آٹھ سو اُنسٹھ راتیں۔" یاور نے فوراً ساری کیلکولیشنز کر کے اسے بتایا۔ وہ معصومانہ انداز میں آنکھیں پٹپٹا کر اسے دیکھنے لگی۔ کاجل اور آئی لائنر والی آنکھیں اس وقت یاور کے دل پہ بجلیاں گرا رہی تھیں۔

"سوری۔۔۔۔" مژگان نے ڈرتے ڈرتے آہستہ سے کہا۔ اس نے مژگان کو سیدھا کیا اور اپنی اس کی کمر سے اپنا بازو ہٹایا۔

"میں فریش ہو کر آتا ہوں۔" وہ گہرا سانس لیتے ہوئے ایک بھرپور نگاہ اس پہ ڈال کر باتھ روم میں چلا گیا۔ مژگان بے ساختہ مسکرائی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے بناؤ سنگھار کا اثر یاور پہ بہت زیادہ ہو رہا ہے لیکن وہ ظاہر نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ نِک سک سا تیار ہو کر آ گیا تھا۔ وہ اس وقت رات والے کپڑوں میں نہیں تھا۔ مژگان کو سمجھ گئی تھی کہ وہ اس کا سرپرائز انجوائے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے لیکن اوپر اوپر سے نظرانداز کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مژگان نے ٹرالی میں برتن سجائے ہوئے تھے۔ وہ اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ اس کے پاس سے بھینی بھینی سی خوشبو آ رہی تھی۔ مژگان نے اس کی طرف مسکرا کر دیکھا۔

"کھانا نکالوں آپ کے لیے؟" یاور نے اثبات میں سر ہلایا۔ مژگان نے ایک ہی پلیٹ میں اپنے اور اس کے لیے کھانا نکالا۔ اس نے آج کے دن کے لیے اسپیشل کھانا بنایا تھا۔قیمہ چاول بھری بند گوبھی کے رول اور چاؤمن۔ پلیٹ میں دو کانٹے رکھ کر اس نے پلیٹ دونوں کے درمیان میں کر لی۔ یاور نے چاؤمن کا پہلا نوالہ چمچ میں بھرا اور اس کے لبوں تک لایا۔ مژگان نے اس کی طرف دیکھا، پھر مسکرا کر اس کے ہاتھ سے چاؤمن کھا لیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے کانٹے میں چاؤمن اٹھایا اور یاور کے آگے کیا۔ اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر سارا چاؤمن اپنے منہ میں ڈال لیا۔ چباتے ہوۓ ایک نظر مژگان کو مسکرا کر دیکھا پھر شرارت سے سنجیدہ صورت بنا کر بولا۔

"بہت ٹیسٹی ہے۔ لگتا ہے شیف آج کل بہت محنت سے کھانا بنا رہا ہے۔" یاور کے تبصرے پہ مژگان نے مصنوعی ناراضگی سجا کر اسے دیکھا۔

"یہ سب میں نے بنایا ہے!" مژگان نے ٹرالی پہ رکھی چیزوں کی طرف اشارہ کیا۔ اس کے معصوم سے ناراض چہرے کو دیکھ کر یاور نے اپنی مسکان ظاہر کی۔

"تو میں بھی تعریف ہی کر رہا ہوں۔ " اس نے ایک اور نوالہ کھاتے ہوئے کہا۔ مژگان سمجھ گئی تھی وہ اسے تنگ کر رہا تھا۔ چاؤ من کھانے کے دوران وہ بیچ بیچ میں ایک چمچ مژگان کو بھی کھلاتا تھا اور وہ شرما کر کھا لیتی تھی۔ وہ اس سے کتنی محبت کرتا تھا اس کا اندازہ مژگان کو آج پھر سے ہو رہا تھا۔ چاؤمن کے بعد اس نے بند گوبھی کے پتوں میں قیمہ اور چاول بھرے رول کھائے۔ ایسا نہیں تھا کہ یہ اس نے پہلی بار کھائے تھے، لیکن مژگان کے ہاتھ کے بنے پہلی بار کھا رہا تھا اور اسے سب سے مزیدار یہی لگے تھے جس کی یاور نے دل کھول کر تعریف کی تھی۔

"اپنا ہاتھ دو مجھے!" مژگان نے اس کی بات پہ الجھتے ہوتے ہوئے ایک ہاتھ یاور کی طرف بڑھایا۔ یاور نے وہ ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام کر چوما۔ مژگان اس کے اس عمل پہ مزید حیران ہوئی اور شرما کر اسے دیکھنے لگی۔

"تمھارے یہ خوبصورت ہاتھ ہمیشہ میرے لیے ایسے ہی کھانے بناتے رہیں" یاور نے اس کی آنکھوں میں دیکھا " اور میں ہمیشہ ایسے ہی کھاتا رہوں،" اس نے کمرے میں نظر دوڑائی "روز اس طرح رومینٹک سیٹنگ والے کمرے میں۔۔۔۔۔۔۔ اور اس طرح تم میرے سامنے۔۔۔۔۔" وہ ہلکے سے بہکے ہوئے انداز میں بولا۔ مژگان اس کا موڈ سمجھ گئی تھی۔ اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ کھینچا اور اپنے بنائے ہوئے خوبصورت سے سفید ویلوِٹ کریم کیک کا ایک ٹکڑا کاٹ کر پلیٹ میں رکھ کر یاور کی طرف بڑھایا۔ یاور نے اس کے سُرخ گلال گال اس ڈِم لائٹ والے کمرے میں بھی دیکھ لیے تھے۔ وہ اس کی تعریف پر شرما گئی تھی اور یاور کی نظریں اسے نروس کر رہی تھیں۔ یاور نے پلیٹ اس کے ہاتھ سے لی اور وہ ٹکڑا کھایا پھر خود ایک ٹکڑا کاٹ کر اپنے ہاتھ سے مژگان کی جانب بڑھایا۔ مژگان نے ٹکڑا کھایا تو اس کے ہونٹوں کے کنارے زرا سی کریم لگ گئی۔ یاور نے معنی خیزی سے اس کے ہونٹوں کے کنارے لگی ہوئی وہ کریم دیکھی تھی۔ پھر مسکراتے ہوئے سر جھٹکا۔

"کیا ہوا؟" مژگان اس کا سر جھٹکنا نوٹ کر چکی تھی اس لیے پوچھا۔ وہ مسکرایا اور قریب رکھے ٹشو باکس سے ایک ٹشو نکال کر اس کے ہونٹ کے کنارے سے کریم صاف کی۔ مژگان جھینپ گئی اور نگاہیں جھکا لیں۔ جب کھانے پینے سے فارغ ہو چکے تو مژگان ٹرالی واپس رکھنے کے لیے اٹھی۔

"کہاں جا رہی ہو؟"

"چیزیں واپس رکھنے۔" پھر اس کی سوالیہ نگاہوں کا مفہوم سمجھ کر بولی "وہ میں نے آج سب کو چھٹی دے دی ہے" اس کی بات سن کر یاور کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔ وہ اس کی نظروں سے گھبراتے شرماتے ہوئے ٹرالی لے کر باہر چلی گئی۔ اسے واپس آنے میں کچھ دیر لگ گئی تھی کیونکہ وہ ساری چیزیں سمیٹ کر واپس آئی تھی۔ ملازموں کو اس نے چھٹی دے دی تھی۔ وہ یاور کے لیے سب کچھ خود کرنا چاہتی تھی۔ کھانا بنانے سے لے کر کمرے کی ایک ایک چیز تک اس نے خود سجائی تھی۔ وہ واپس کمرے میں آئی تو یاور کمرے کی ڈیکوریشن کو بغور دیکھ رہا تھا۔

"ہمممم۔۔۔۔۔کافی محنت کی ہے تم نے۔" اس کے ہونٹوں پہ بہت دلکش اور موہ لینے والی مسکراہٹ رقص کر رہی تھی اور اس کی آنکھیں بھی خوشی سے چمک رہی تھیں۔ مژگان کو اس کی مسکراہٹ بہت پیاری لگ رہی تھی۔

"آپ کے لیے کِیا ہے سب۔ اب تو آپ ناراض نہیں ہیں نا مجھ سے؟" وہ اس کے سامنے کھڑی اسے اُمید بھری نظروں سے دیکھے ہوئے پوچھ رہی تھی۔ یاور نے اپنا رُخ اس کی جانب موڑا اور چلتے ہوئے اس کے بالکل نزدیک آیا۔ اس کے ہونٹوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ تھی اور وہ محبت بھری نظروں سے مژگان کو دیکھ رہا تھا۔

ناراض تو میں پہلے بھی نہیں تھا۔ بس تھوڑا سا غصہ تھا تم پہ۔ لیکن آج تم اتنی خوبصورت لگ رہی ہو کہ میں تمھاری ہر غلطی معاف کرنے کو تیار ہوں۔“ اس نے ایک ہاتھ اس کے کمر کے گرد باندھا اور اسے جھٹکے سے اپنے قریب کر لیا۔ مژگان کی نظریں خود بخود جھک گئیں۔ یاور نے اس کے ماتھے پہ پیار دیا۔

تھینک یو سو مچ یاور!“ مژگان نے آہستہ سے شرماتے ہوئے اس سے کہا اور اس کے سینے پہ سر رکھ دیا۔ یاور کی دھڑکن ایک دم سے تیز ہوئی تھی۔ اس نے مژگان کو اپنی بانہوں کے حصار میں لے لیا۔  پھر ایک دم اس کے کانوں میں میرال کی آواز گونجی۔

جس لڑکی کی خاطر تم نے مجھے چھوڑا ہے نا، وہ بھی تمھارے ساتھ نہیں رہ سکے گی۔ میری بددعا ہے یہ۔

اس کے دل میں ایک دم پریشانی در آئی۔ اگر پھر سے مژگان اس سے دور ہو گئی تو؟ نہیں نہیں۔ وہ ایسا نہیں ہونے دے گا۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا تھا۔ مژگان نے اس کی دھڑکنوں کا ارتشعاش بدلتے ہوئے محسوس کیا تو سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ اس کے چہرے پہ سنجیدگی اور پسیشانی کے آثار دیکھ کر مژگان کو فکر ہونے لگی۔ ابھی تو اتنا خوش لگ رہا تھا۔

کیا ہوا؟ کوئی پریشانی ہے؟“ یاور نے اسے فکرمندانہ انداز میں پوچھتے ہوئے دیکھا تو مسکراہٹ سجا کر نفی میں سر ہلایا۔

آئی لو یو سو مچ مِسز مِژگان یاور علی سکندر!“ اس نے مژگان کو زور سے خود میں بھینچ لیا۔ اس کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی۔ مژگان کو اس کے اس طرح بھینچ لینے پہ الجھن اور حیرت دونوں ہونے لگیں۔ اس کے انداز میں ایسا کچھ تھا جو مژگان کی چھٹی حس کو محسوس ہو رہا تھا۔ وہ فکر مند تھا۔ تھوڑی دیر مژگان اس کے ساتھ لگی کھڑی رہی پھر جب الگ ہونے لگی تو یاور اسے چھوڑنے پہ راضی نہیں ہوا۔

میں یہیں تو ہوں آپ کے پاس۔ کہیں نہیں جا رہی میں۔“ اس نے پھر سے چھڑوانے کی کوشش کی تو یاور نے گرفت ڈھیلی کی اور آہستہ سے اس سے الگ ہو کر اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔

میں تمھیں کچھ دینا چاہتا ہوں۔“ پتا نہیں کس بات کا دھڑکا تھا اسے۔ مژگان کو ایسا ہی محسوس ہو رہا تھا۔ وہ اپنے کلازٹ کی طرف گیا اور سیف میں سے ایک فائل نکالی۔ پھر فائل اس کی طرف بڑھائی۔

یہ کیا ہے؟“ مژگان نے اس سے فائل لیتے ہوئے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

کھول کر دیکھ لو۔“ یاور نے آنکھوں سے اسے کھولنے کا اشارہ کیا۔ مژگان نے ناسمجھی کے انداز میں فائل کھولی اور پڑھنا شروع کیا۔ اوپر نکاح نامے کے اوریجنل پیپرز تھے اور نیچے اس کے گھر کی رجسٹری کے کاغذات تھے۔ جیسے جیسے وہ پڑھنے لگی، اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلنے لگی تھیں۔

یہ سب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے یہ گھر ویڈنگ گفٹ کے طور پہ نکاح پر ہی تمھیں دے دیا تھا۔ لیکن تمھیں مجھ سے بھاگنے کی اتنی جلدی تھی کہ تم نے مجھے بتانے کا موقع بھی نہیں دیا۔“ یاور نے اس سے کہا تو مژگان کی آنکھیں بے اختیار اس کی محبت کے باعث پانیوں سے چمکنے لگی تھیں۔ دو سال پہلے سب کچھ ایک غلط فہمی کی بنا پہ ہوا تھا اور وہ اسے چھوڑ کر بھی چلی گئی تھی۔ اس نے دوبارہ نکاح نامے پہ نظر دوڑائی۔ اس میں تین کروڑ اس کا حق مہر اور نکاح کے تحفے میں یاور کا یہ گھر اس کے نام پہ درج تھا۔ مژگان جذبات کو بمشکل قابو کرتے ہوئے اس کے سینے سے لگ گئی۔ وہ یاور سے بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر اسے الفاظ نہیں مل رہے تھے۔ کبھی کبھی کہنے کو بہت کچھ ہوتا ہے لیکن کچھ جذبوں کو الفاظ کے سانچے میں نہیں ڈھالا جا سکتا۔ مژگان بھی اس وقت ایسا ہی کچھ اس کے لیے محسوس کر رہی تھی۔

تمھارے پچھلے دونوں گھر بھی میرے پاس ہیں۔ آئی ایم سوری میں نے تمھارا گھر خرید کر تمھیں وہاں سے نکلنے پہ مجبور کیا تھا لیکن اس وقت مجھے سچائی کا علم نہیں تھا۔ اس کی وجہ سے میں بہت گلٹی محسوس کرتا ہوں۔ لیکن اس گھر کا ان سب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ تم یہ مت سوچنا کہ تلافی کے طور پہ یہ گھر میں نے تمھارے نام کر دیا ہے۔ نہیں! یہ گھر میں نے بہت محنت سے بنایا تھا اور میرے پاس سب سے قیمتی اس وقت یہی ہے جو میں تمھیں دے چکا ہوں۔ یہ میری محبت کا ٹھوس ثبوت ہے۔“ مژگان نے اس کے سینے سے اپنا سر اٹھایا اور اسے اسے ڈبڈبائی آنکھوں سے دیکھا۔

اگر یہ سب مجھے پہلے معلوم ہوتا تو میں میرال کی باتوں میں بالکل بھی نہیں آتی۔“ اس نے محظ مذاق کی نیت سے کہا تھا۔ یاور نے اسے بہت غور سے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔

اب اگر تم نے مجھے چھوڑ کر جانے کا سوچا بھی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا!“ وہ اسے دھمکی دے رہا تھا تو مژگان کو اس کی آنکھوں میں گہرائی اور آواز میں عجیب سا خوف محسوس ہوا تھا جیسے اسے اب بھی کوئی ڈر تھا۔

میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔ وعدہ۔“ یاور نے گہری نظروں سے اس کی آنکھوں میں دیکھا، جیسے یقین کر رہا ہو کہ وہ سچ کہہ رہی ہے۔ مژگان کو اس کی خاموشی میں بھی اس کی بولتی آنکھوں کے سارے الفاظ بہت واضع سنائی دیے تھے۔

امید۔۔۔۔

یقین۔۔۔۔۔

محبت۔۔۔۔۔۔

عشق۔۔۔۔۔۔۔

مان۔۔۔۔۔۔

اور اسے پھر سے کھو دیے کا خوف اب بھی اس کی آنکھوں میں تھا۔ یاور نے آنکھیں جھپک کر اپنی گیلی آنکھوں کا پانی اندر اتارا اور اسے اپنے بہت قریب کرتے ہوئے آہستہ سے اس کے ماتھے پہ پیار بھرے احساس کے ساتھ چوما۔

ایک بات کہوں آپ سے؟“ وہ جو اس کے ہونٹوں پہ جھکنے لگا تھا، اس کی بات سن کر رک گیا اور خاموشی سے اسے دیکھنے لگا۔

آئی لو یو۔“ مژگان نے بہت ہمت کر کے دھڑکتے دل کے ساتھ اپنی محبت کا اقرار کیا تھا۔ وہ اس کے لیے سجی سنوری تھی، اسے اپنا آپ سونپنے کے لیے تیار تھی، اس کے لیے سارا دن محنت کر کے اتنا سب کچھ کیا تھا اور اس کے خوف کو محسوس کر کے اپنی محبت کا اقرار بھی کر دیا۔ مژگان کے ان لفظوں سے یاور کے دل کو ڈھیروں سکون ملا تھا۔ اس کا خوف ایک دم ہی کہیں غائب ہو گیا تھا۔ اس نے بے انتہا محبت سے مژگان کے سارے وجود کو اپنے حصار میں لے لیا تھا۔


Post a Comment

Previous Post Next Post