” ایک کام بھی تم لوگ ڈھنگ سے
نہیں کر سکتے ہو _ میں نے اب تک کس بات کی تنخواہ دی ہے تم لوگوں کو " نگار ایک
طرف لان کے آخری سرے پر ٹہلتے ہوئے.. موبائل کان سے لگائے ہوئے لگاتار اس طرف موجود
شخص کو بھڑک کر باتیں سنا رہی تھی ___
” اس بار مجھے اس لڑکی کی موت
چاہئے وہ جب تک مرے گی نہیں میرے دل کو چین نہیں ملے گا اگر وہ نہیں مری تو میرا بیٹا
کبھی اس سے الگ نہیں ہوگا سمجھے تم لوگ _“ نگار اس بار بہت زور سے دہاڑی تھی _ ہاتھوں
کی مٹھیاں بھینچے ہوئے وہ غصے اور نفرت سے بول رہی تھی ___
” پہلے بھی تم لوگوں کی وجہ
سے کام خراب ہوا تھا اگر اس دن اس کا باپ آ
گیا تھا تو کیا قیامت آ گئی تھی….. دونوں کو مار ڈالتے بندے مارنے میں اب کیوں موت
پڑ گئی تھی تم لوگوں کو " نگار کا بس نہیں چل رہا تھا کی خود ہی گن لے کر ثمین
کے ساتھ ساتھ فائق کا بھی خاتمہ کر ڈالے ___
" اچھا ٹھیک ہے ایلیار آ گیا
تھا بس یہی ایک بہانہ تم لوگوں کے پاس ہے…. ایلیار کی وجہ سے ہی تو وہ اب تک زندہ ہے اور تم لوگ سنو ایلیار کو کبھی پتہ نہیں چلنا چاہئے
کی ثمین کی اصل دشمن اس کی ماں ہے ….. " ان کی آواز زہر میں بجھی تھی مگر اب آہستہ
ہو گئی تھی ___
" مجھے کیسے بھی صحیح مگر اس
لڑکی کی اب موت چاہئے وہ بھی جلد سے جلد " وہ حکم دے کر کان سے موبائل ہٹا کر
آف کر چکی تھی ___
" تم کیا سمجھتی ہو ثمین بی
بی مجھ سے میرا بیٹا ہتھیا لوں گی میں نے تمھاری ماں سے زین چھینا تھا اور اب اس کی
بیٹی سے اپنا بیٹا چھینو گی، تب جاکر مجھے سکون ملیں گا…." وہ ثمین کے تصور سے
بولتی نفرت اور حسد کی ماری ایسی مورت بن چکی تھی کی اس بار خود ان کے بیٹے کا معاملہ
تھا یہ بھی بھول چکی تھی ___
" بہت حفاظت کر رہا ہے نا تمھارا
باپ…. دیکھنا ایک دن اسی کے سامنے ہی تمھارے اتنے ٹکڑے کروں گی کی وہ گن بھی نہیں پائے
گا " شعلہ اگلتی وہ لگاتار غائبانہ ثمین سے کہہ رہی تھی…. اس وقت وہ ایک ایسی
نفسیاتی مریض لگ رہی تھی جسے اپنی بھی سدھ نا ہو __
" ایلیار تم اتنی آسانی سے نوشی
کی بیٹی سے محبت نہیں کر سکتے تمھیں اس سے نفرت کرنی ہے جیسے میں کرتی ہوں _ جیسے ایک
بار میں نے کاٹی تھی اس کی کلائی اب اس کا گلا کاٹ دوں گی" وہ ایک دم سے ہلکے
سے چیخ پڑی تھی ____
"تم جہاں کہیں بھی ہو نوشی
سن لو… میں تمھیں جیتنے نہیں دوں گی، تم نے ساری زندگی مجھے محبت کے لئے ترسایا ہے
تو میں تمھاری بیٹی کو ایلیار کی محبت کے لئے ترسا دوں گی، میں نگار ہوں نگار… میں
محبتیں چھین کر اپنا نصیب بنا لیتی ہوں، سمجھی تم نوشین " وہ آسمان کی طرف چہرہ
اٹھائے پاگلوں کی طرح چلا رہی تھی…. لان کی اس خاموشی ان کی نفرت بھری آواز گونج رہی
تھی ____
" تم نے میرا زین مجھ سے چھینا
تھا نا تو میں نے تم سے… زین ہی نہیں، تمھاری محبت، تمھاری عزت، تمھارے ماں باپ کا
مان، تمھارا غرور، یہاں تک تمھارا شوہر بھی چھین لیا… فائق تک کو تم سے نفرت کرنے پر
مجبور کر دیا…. تمھیں تباہ کر دیا اور اب تمھاری بیٹی کی باری ہے اب وہ نگار کی سازشوں
کا شکار ہوگی اور نگار پھر سے جیتنے کا جشن منائے گی _" وہ بولتے بولتے ایک دم سے ہنسنے لگی.. ہنستے ہنستے وہ وہی لان کے بھیگے
فرش پر بیٹھی تھی… آنکھوں میں ان چاہا پانی اترنے لگا مگر اب بھی وہ ہنسے جا رہی تھی……