Sanaya's entry in prince home | Prince Charming | Romantic Novel | By Hi...


"یہ لے لڑکی شادی کا جوڑا اور تیار ہوجا "

مممم۔۔۔۔مگر ۔۔۔سنایا نے ہراساں نظروں سے اپنے والدین کی طرف دیکھا ۔۔۔

جن دونوں کو صہیب چودھری کے غنڈوں نے بازوؤں سے پکڑ رکھا تھا ۔۔۔۔اور کچھ لوگوں کے پاس بڑی بڑی رائفلز تھیں ۔جو سنایا نے زندگی میں پہلی بار حقیقت میں دیکھیں تھیں ۔۔۔

"زرا بھی چوں چراں کی تو ایک منٹ نہیں لگاؤں گا انہیں اوپر پہنچانے میں "وہ سنایا کو دیکھ کر دھمکی آمیز انداز میں بولا ۔۔۔

اور اسے ہاتھ میں موجود گن سے عروسی لباس اٹھا کر اندر جانے کا اشارہ دیا۔۔۔۔

سنایا پژمردگی سے وہ لباس اٹھا کر کمرے میں چلی گئی۔۔۔

کچھ دیر بعد وہ تیار ہو کر باہر نکلی ۔۔۔

"سنایا یہ نکاح مت کرنا میں کہہ رہا ہوں نا ۔۔۔چاہے مجھے کچھ بھی ہو جائے تم اس نکاح نامے پہ دستخط نہیں کرو گی "

منیب چودھری نے اپنی بیٹی سنایا سے کہا ۔۔۔۔

"ج۔۔۔جی ۔۔۔بابا ۔۔۔وہ کپکپاتی ہوئی آواز میں بولی۔

"اے لڑکی جلدی حامی بھر ورنہ تیرے باپ کی فراٹے بھرتی ہوئی زبان کو بند کروا دوں گا ۔۔۔۔

"نہیں ۔۔۔میں یہ شادی نہیں کروں گی ۔۔۔اپنے بابا کی سپورٹ ملتے ہی وہ ہمت جٹاتے ہوئے جھٹ بولی ۔۔۔

"آپ میرے ماما اور بابا کو چھوڑ دیں پہلے "

وہ ڈرتے ہوئے بولی ۔۔۔

"ٹھیک ہے چھوڑو انہیں "اس نے اپنے ماتحتوں کو آرڈر دیا ۔

"سنایا یہ میرے بھائی خرم خانزادہ کا پتہ ہے اگر ہم نا رہے تو یہاں چلی جانا "شائستہ بیگم نے اسکے ہاتھ میں ایک کاغذ دبایا ۔۔۔۔

آج سے پہلے تو کبھی اسکے کسی ماموں کا زکر نہیں ہوا تھا تو پھر آج کیسے ؟؟؟وہ حیرت سے اپنی والدہ کو دیکھنے لگی ۔۔۔۔

جسطرح منیب چودھری کے گھر والے اسکی شادی کے خلاف تھے اسی طرح شائستہ کے والدین بھی اسکی شادی کے حق میں نہیں تھے ۔۔۔مگر شائستہ کے بھائی بہت ہی نیک انسان تھے ۔۔۔اسے امید تھی کہ وہ اس کی بیٹی کو وقت پڑنے پہ سہارا ضرور دیں گے ۔

چلی جاؤ یہاں سے بیٹا "انہوں نے اسے پچھلے دروازے سے یہاں سے بھاگ جانے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔کیونکہ منیب اور شائستہ نہتے تھے ۔۔۔اور باقی لوگوں کے پاس اسلحہ تھا ۔۔۔ وہ کبھی بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے ۔۔۔اور اپنی بیٹی کو ہمیشہ کے لیے اس دلدل میں دھکیل نہیں سکتے تھے ۔۔۔

اسی لیے انہوں نے اس راستے کا انتخاب کیا۔۔۔۔اور کسی نہ کسی طرح اسے وہاں سے نکال دیا ۔۔۔۔

سنایا کے وہاں بھاگتے ہی صہیب نے منیب اور شائستہ پہ فائر کھول دیا ۔۔۔۔


Post a Comment

Previous Post Next Post