Masjid Aqsa Ki Tareekh Written By Tuba Ambreen
Masjid Aqsa Ki Tareekh Written By Tuba Ambreen
مسجد اقصیٰ کی تاریخ
طوبیٰ عنبرین (گوجرانولہ)
مسجد اقصیٰ کی تاریخ بہت قدیم
ہے۔ یہ آپ ﷺ کے سفر کی منزل ہونے کے علاوہ مدینہ منورہ ہجرت کے بعد تقریباً سترہ ماہ
تک مسلمانوں کا قبلہ بھی رہا ہے۔ جسکی وجہ سے اِسے "قبلہ اول" ہونے کا اعزاز
بھی حاصل ہے۔
خانہ کعبہ کے بعد یہ دوسری
قدیم مسجد ہے، اور اسکا شمار مسجد نبوی کے بعد تیسرے مقدس ترین مقامات میں ہوتا ہے۔
یہ ایک ایسی سر زمین پر واقع ہے جسے "سر زمین انبیاء" بھی کہا جاتا ہے۔
اس کے چپے چپے پر انبیاء علیہ
السلام کے نشانات موجود ہیں؛ بہت سی قوموں
کے کھنڈرات بھی یہاں ہیں۔
یہاں بستیاں ، پہاڑ، دریا
اور ہر چیز اپنے اندر ایک تاریخ چھپائے ہے۔
مسجدِ اقصیٰ صدیوں سے بہت
سی قوموں کا قبلہ چلی آرہی ہے۔ اسے مسجدِ اقصیٰ، حرم شریف یا مسجد صخرہ یعنی سبز گمبد
والی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔
حضرت عمر ١٤ہجری بمطابق ٦٣٦ میں اپنے دورِ خلافت میں فتح
کے بعد یہاں تشریف لائے اور آپ ﷺ کے سفر معراج کی منزل تلاش کی۔ حضرت عمر رضی اللہ
عنہ نے اپنے مبارک ہاتھ سے اسے صاف کیا اور وہاں مسجد کی تعمیر کا حکم دیا۔
پھر دوبارہ اسکی تاریخ اموی
خلیفہ عبد الملک بن مروان کے دور سے شروع ہوتی ہے۔
مسجدِ صخرہ کے بارے میں ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ ﷺ
نے معراج کی رات یہاں سے سفر کا آغاز کیا۔
اِسی یاد کو برقرار رکھنے کے لیے خلیفہ عبد الملک نے وہاں باقاعدہ مسجد تعمیر
کروا دی تھی۔
اب اس سلسلے میں دو کتابوں
کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ایک الاستاذ عارف باشا العارف کی کتاب ’’تاریخ القدس‘‘ ہے، جو
چار ضخیم جلدوں میں ہے۔ اسے مسجد اقصیٰ کی تاریخ پر سب سے مستند کتاب مانا جاتا ہے۔
جبکہ دوسری کتاب ’’المسجد
فی الاسلام‘‘ الشیخ طہٰ الولی کی ہے۔ اس میں
مسجد اقصیٰ کے بارے میں تاریخ وار واقعات پیش کیے گئے ہیں۔
اس مسجد کے چاروں طرف اونچی
دیواروں کا احاطہ ہے اور مقدس مقامات ہیں۔
اس مسجد کی تعمیر ٧٤ ہجری میں خلیفہ عبد الملک بن مروان
نے شروع کروائی، جبکہ خلیفہ ولید بن عبد الملک کے دور میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔
رجاء بن حیوۃ الکندی اور یزید
بن سلام تعمیرات کے انچارج تھے۔ جب اس مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی، تو مخصوص رقم میں سے
ایک لاکھ دینار بچ گئے تھے۔ وقت کے خلیفہ نے وہ دینار بطورِ انعام اُن دونوں کو دینا
چاہے، مگر اُنہوں نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا؛ حق تو یہ بنتا ہے کہ ہم اپنی
بیویوں کا زیور بیچ کر مسجد پر لگائیں۔ چنانچہ خلیفہ نے اُن دیناروں سے مسجد کی دیواروں
پر سونے کی چادریں چڑھا دی۔
١٣٠ ہجری ابو جعفر کے دورِ خلافت میں زلزلہ آیا، شہروں کو بہت زیادہ
نقصان ہوا۔ اُنہوں نے وہ چادریں اتروا کر پھر سے سکّوں میں ڈھلوا لیں اور لوگوں میں
تقسیم کر دیے۔
پھر اس کے بعد خلیفہ مہدی
بن جعفر نے مسجد کی حدود میں ترمیم کر کے چوڑائی کم کر دی اور طول میں اضافہ کر دیا۔
٤٢٦ ہجری خلیفہ الظاہر کے دور میں زلزلہ آیا، تو مسجد کو
بھی نقصان ہوا تھا؛ انہوں نے مسجد کی مرمت کروائی۔ مسجد کا گنبد بھی بنوایا جو آج تک چلا آرہا ہے۔
مزید انہوں نے مسجد کے شمال
کی جانب سات دروازے بنوائے۔
٤٩٢ ہجری میں صلیبیوں نے مسجد اقصٰی پر قبضہ کر کے اسکے ایک حصے
کو گھوڑوں کا اصطبل اور کچھ حصے کو گودام بنا لیا۔
کہا جاتا ہے کہ صلیبی گنبد
صخرہ کے ٹکڑے توڑ کر اپنے علاقوں میں لےجا کر سونے کے عوض فروخت کیا کرتے تھے۔ ٤٩٢
ہجری سے ٤٨٣ ہجری تک اس پر صلیبیوں کا قبضہ رہا، سلطان صلاح الدین ایوبی نے ٥٨٣ ہجری
میں اس مسجد کو آزاد کروا لیا تھا۔
انہوں نے اسکی مرمت کروا کر
صلیبی دور کے تمام نشانات ختم کروائے اور حلب کا خاص ممبر وہاں نصب کیا۔
٥٩٥ ہجری میں پہلی بار ایوبی خاندان
نے مسجد کو گلاب کے پانی سے غسل دیا۔
بہت سے خلفاء اپنے اپنے دور
میں اس مسجد کی مرمت کرواتے رہے۔ ان میں ملک عیسیٰ، ملک المنصور سیف الدین الامیر عبد
العزیز العراقی کے نام سر فہرست ہیں۔
کچھ عرصہ مسجد اقصٰی اور صخرہ خلفائے عثمانی کی تحویل
میں رہیں۔ ۱۹۲۲ عیسوی میں مفتی اعظم فلسطین الحاج امین الحسینی نے ترک
انجینئر کمال الدین ابک سے مسجد کی ازسرنو تعمیر و مرمت کرائی۔ اس پر شام، مصر ، فلسطین
، کویت، بحرین اور امریکہ میں رہنے والے عربوں نے اپنی آمدنی وقف کی۔
١٩٤٥ میں یہودیوں نے مسجد پر بم پھینکے، جس سے باب اوسط گر گیا تھا؛
پھر کچھ عرصے کے بعد وہ مسجد پر قابض ہو گئے تھے۔
١٩٦٩ء میں آتشزدگی کے نتیجے میں مسجد اقصٰی کو شدید نقصان ہوا تھا اور
یہودیوں نے منبر کو توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
مسجد میں چار اذان گاہیں ہوا
کرتیں تھیں، جن کو باب المغاریہ، باب السلسلۃ، باب الغوانمہ اور باب الاسیاط کے نام
سے جانا جاتا ہے۔
اس کے دس دروازے الاسیاط، الحطۃ، شرف الانبیاء، الغوانمہ،
الناظر، الجلید، القطانین، المتوضا، السلسلۃ، المغاربہ، جبکہ چار دروازے السکینۃ، الاقصیٰ،
التوبۃ، البراق مقفل رہتے ہیں۔
مسجد اقصیٰ کے اطراف سولہ
سو میٹر لمبی دیوار ہے۔
صخرہ کے نیچے غار انبیاء علیہ
السلام ہے۔ بہر حال ہر دور کے خلیفہ نے اس کو مزید پرکشش بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
یہودی اور عیسائی شروع ہی
سے اس پر قابض ہونے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ
السلام اسی جگہ آئینگے اور ہم انکی بیعت کر کے مسلمانوں سے جنگ کریں گے۔
یہودیوں کے مطابق یہاں پر
ایک دیوارِ گریہ ہے، جو انکی عبادت گاہ کا بچا ہوا حصہ ہے؛ اسکو پانے اور مستقل ہیکل
سلیمانی بنانے کے لیے وہ اب بھی اس پر قابض ہیں۔ اور مسلمانوں کا قتلِ عام کرتے چلے
آرہے ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام آئیں یا حضرت مہدی علیہ السلام آئیں۔
اللّٰہ کے قانون ختم نبوت
کے مطابق وہ شریعت محمدی ﷺ پر چلیں گے اور مسجد اقصٰی مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے اور
قیامت تک رہے گی۔