Woh Daur Kab Aayega Written By Areeba Mazhar

Woh Daur Kab Aayega Written By Areeba Mazhar

Woh Daur Kab Aayega Written By Areeba Mazhar

Novel Name : Woh Daur Kab Aye Ga
Writer Name: Areeba Mazhar
Category : Short Story
Novel status : Complete 

عنوان :_وہ دور کب اۓ گا؟

ازقلم:_اریبہ مظہر

 

اماں !اماں جلدی کام نمٹا نمو کےسسرال والے پہنچ

گئے ہیں ثانیہ نے اپنی اماں  رشیدہ بی بی سے کہا

میرا پتر ثانیہ تو انکو اندر بیٹھا دیں میں آرہی ہوں' بس تھوڑی دیر تک دیکھو وہ بڑے لوگ ہے انکو کہیں برا نہ لگ جائیں جا میری دھی رانی انکے پاس جا

"

رشیدہ بی بی نے ہانپتے ہوئے جواب دیا

 

رشیدہ جو کہ غریب گھرانے کی عورت تھی جسکی شادی عارف میاں سے ہوئی عارف میاں کی چھوٹی سی دوکان تھی اللہ تعالیٰ نے دو اولادیں دیں اور دونوں بیٹیاں انکا کوئی بیٹا نہ تھاگھر کا گزر بسر مشکل سے ہوتا تھااج انکی بڑی بیٹی نمرہ(جسکو پیار سے وہ نمو بلاتے تھے)کے سسرال والے تاریخ پکی کرنے اۓ تھے بڑی مشکل اور کفایت شعاری سے تھوڑا بہت جہیز کا سامان جمع کیا تھا رشیدہ اور عارف میاں نے

اور وہی انکی عمر بھر کی جمع پونجی تھی کھانا نمرہ اور ثانیہ نے اچھے سے پیش کیااور اسکے بعد بات چیت شروع ہوئی

دونوں بہنیں دوسرے کمرے میں تھی اور مہمان الگ کمرے میں انکے ماں باپ کے ساتھ براجمان تھے

دیکھو عارف میاں ہم اج اس لئے ائیں ہیں تاکہ نمرہ کی تاریخ پکی کرلیں ہمیں نمرہ کی جلد رخصتی چاہئے اور ساتھ میں مکمل جہیز بھی لیکن اگر کچھ "زمین یا گاڑی ہو جائے تو بہت اچھا ہوگا

نمرہ کی ساس نفسیہ بیگم نے اتراتے ہوئے کہا

وہ انا پرست تھی صرف دولت سے پیار تھا یہ الفاظ سنتے ہی سب سکتے میں ا گئے

نفسیہ بہن خدا کے لئے یہ ظلم نہ کریں میں غریب شخص یہ سب نہیں دے سکتا میں وعدہ کرتا ہوں میری بیٹی اپکو مایوس نہیں کریں گی

عارف میاں نے روتے ہوئے کہا اور انکے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے

 مگر نفسیہ بیگم بے رحم بنی یونہی دیکھتی رہی اور پھر بولی

"اگر عارف میاں رم یہ سب نہیں دے سکتے تو ہمیں یہ رشتہ منظور نہیں اج سے نمرہ میری بہو نہیں  تمہاری بیٹی ہی رہے گی "

نفسیہ بیگم سنگدل بنی یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی

میں منت کرتا ہوں بہن یہ نہ کریں میری بیٹی کا رشتہ  نہ ٹھکرائیں

رشییدہ اور عارف میاں ہاتھ جوڑتے،روتے ہوئے بولے

مگر نفسیہ بیگم جا چکی تھی

نمرہ دوسعے کمرے کی اوٹ سے سب دیکھ اور سن چکی تھی اس نے سن ہوتے وجود کے ساتھ خود کو بند کر لیا

ثانیہ کافی دیر رشیدہ اور عارف کو چپ کرواتی رہی اور سمجھاتی رہی

کہ اچانک اسکو نمو کا خیال ایا اور وہ سب بے ساختہ دروازے کی جانب لپکے

نمو !نمو! میری سوہنی دھی میرا بتر دروازہ کھول اللہ نے تیرے نصیب میں نہیں لکھا تھا وہ لوگ تیرے لئے اچھے نہ تھے وہ تیرے لائق نہ تھے چل دروازہ کھول میرا پتر"

عارف میاں دروازہ بجاتے روتے ہوئے نمرہ کو پکار رہے تھے

مگر سب رائیگاں گیا محلے کی عورتوں کا رش بڑھتا جارہا تھا مگر نمرہ نے دروازہ نہ کھولا بڑی کوشش کے بعد دروازہ توڑا گیا  تو سامنے کا منظر روح کو کپکپا گیا

سامنے نمرہ کی لاش پنکھے کے ساتھ لٹکتی پائی گئی

یہ دیکھتے ہے عارف میاں وہی ڈھے گئے اور اس دنیا سے روٹھ کر چلے گئے ہمیشہ کے لئے

اس قیامت خیزدن میں انکے گھر سے ایک نہیں دو دو جنازے اٹھے تھے

یہ جہیز جیسی لعنت نے ایک ہنستے بستے گھر کو اجاڑ کر رکھ دیا وہ ود مان بیٹی اس ظالم دنیا میں تنہا رہ گئی

اخر یہ جہیز جیسی رسم کا تصور کب مٹے گا کون سا وہ دور، وہ عہد ائیں گا جب لوگ مادی چیزوں کے بجائے انسانوں کے قدر سکھینا شروع کریں گے اور کس وقت تک غریب اپنی جان یونہی گنواتے رہیں گے اور اخر کس دور تک حنادے(حوا کی بیٹیاں)جہیز کی وجہ سے ریجیکٹ یا ٹھکرائیں جائیں گی خدارا انکھیں کھولیں اور اس منحوس رسم کو جڑ سے اکھاڑ دیں  خدارا معاشرے سے یہ لعنت اب ختم کر دینی چاہئے ہم سب کو مل کر مگر اخر وہ دور کب ائیں گا ؟؟؟ اخر وہ دور کب اۓگا؟؟؟؟؟

1 Comments

Previous Post Next Post