Jo Tu Chahay Main Raazi By Areeba Awan Episode 6
Jo Tu Chahay Main Raazi By Areeba Awan Episode 6
"ثنا۔"میر نے اسے پکارا۔اسے اپنی آواز کسی کھائ سے نکلتی
محسوس ہو رہی تھی۔روم میں پیاری کی سسکی گونجی۔میر کے سانس میں سانس آئ۔جلدی سے
آگے بڑھ کر پورے روم کی بلب آن کرتے اس نے جلدی سے کھڑکیاں بند کیں۔سسکیوں کی آواز
بیڈ کے بائیں جانب سے آ رہی تھی۔وہ بیڈ کے پاس دو زانوں بیٹھے آنسوؤں سے تر چہرہ
سر جھکائے بری طرح رو رہی تھی۔جسم ہولے
ہولے لرز رہا تھا۔میر سرعت اسکے پاس پہنچتے اسکے سامنے دو زانوں بیٹھا۔
ثنا
آپ ٹھیک ہیں؟؟اسکا چہرہ اوپر کرتے پریشانی سے پوچھا۔پیاری کے رونے میں اور روانی
آئ۔
"برے ہ۔ہیں۔آپ بہت برے ہیں۔۔۔۔۔آ آپ ہمیشہ مجھے تکلیف دیتے ہیں۔۔۔۔میں
یتیم ہوں نا۔۔۔میرے ماما بابا نہیں اسلیے آپ مجھے تکلیف دیتے ہیں۔۔۔۔اگر میرے ماما
بابا ہوتے تو آپ مجھے کبھی تکلیف نا دے سکتے۔۔۔۔آپ بھی اور اور بی جان بھی مجھے
پسند نہیں کرتے۔۔۔۔۔ہمیشہ مجھے ہرٹ کرتے ہیں۔۔۔۔دیکھنا جب میں ان دونوں کے پاس
جاؤں گی نا۔۔اور آپکی شکایت لگاؤں گی۔۔۔۔میں ماما بابا سے آپکی شکایت لگاؤں
گی۔۔۔۔"
روانی
سے بہتے آنسوؤں کےساتھ ہچکیوں کے درمیان کہتی وہ میر کو کانٹوں پر گھسیٹ گی۔اسے
ہمیشہ لگتا تھا۔کہ پیاری کو میر کے حصے کا پیار بھی مل رہا ہے۔پر وہ یہ کبھی نا
سمجھ سکا۔کہ اسکی زندگی میں جو خلا ہے۔وہ رابیل بیگم اور حسن صاحب کسی صورت نہیں
پوری کر سکتے۔ماں باپ کا نعم البدل کوئ نہیں ہو سکتا۔اسے معلوم تھا پیاری حساس ہے
پر اس نے کبھی نہیں سوچا تھا۔کہ وہ خود کو یتیم سمجھتی ہو گی۔اسے تو ہمیشہ وہ
لاابالی سی لڑکی لگتی تھی۔
"جو یتیم کا دل دکھاتا ہے اللہ تعالٰی اس سے ناراض ہوتے
ہیں۔۔۔میں انہیں آپکی شکایت لگاؤں گی۔مجھے جانا یے انکے پاس ۔۔۔مجھے ماما بابا کے
پاس جانا ہے۔۔۔۔آپ گندے ہیں۔۔۔سب مجھے ہرٹ کرتے ہیں۔۔۔میں آپکو اچھی نہیں لگتی
مجھے ماما بابا کے پاس جانا ہے۔۔۔۔"
میر
نے تڑپ کر اسکے لزرتے وجود کو اپنے حصار میں لیا۔اسے خود نہیں معلوم ہو سکا کہ کب
اسکی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے۔
"چھوڑیں مجھے۔۔۔آپ برے ہیں۔۔۔۔مجھے ہرٹ کرتے ہیں۔۔۔مجھے ماما
بابا کے پاس جانا ہے۔۔۔میں ان سے آپکی شکایت لگاؤں گی۔"
میر
کے ساتھ لگی وہ روتے ہوئے ہاتھوں کے مکے اسکے سینے پر برسا رہی تھی۔میر سختی سے
اسے خود میں پھنچے ہوئے تھا۔
"آئ ایم سوری۔مجھے معاف کر دیں۔میں سب ٹھیک کر دوں گا۔"
اسکے
بال سہلاتے میر بار بار معافی مانگ رہا تھا۔پر وہ اسے سن ہی کہاں رہی تھی۔وہ اپنے
رُو میں بولے جا رہی تھی۔اسکے سینے سے لگے۔اسکی ہی شکایتیں لگانے کی بات کر رہی
تھی۔
وہ
میر شہریار کی منکوحہ تھی۔ اسکی فیری۔۔جسے اتنے سالوں سے وہ اپنی نفرت کا نشانہ
بناتا آیا تھا۔آج وہ رو رہی تھی۔تو اسکا دل بے چین ہو رہا تھا۔آج اسے ثنا سلمان کی
تکلیف کا احساس اپنے سینے پر ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔آج اس کی آنکھوں سے گرتے گرم
آنسوں اسے جھلسا رہے تھے۔وہ بری طرح ٹوٹا تھا۔جس لڑکی کی تکلیف اسے سکون دیتی
تھی۔آج اسی لڑکی کی تکلیف پر وہ تڑپ رہا تھا۔
روتے
روتے ثنا وہیں نیند کی آغوش میں چلی گی۔۔میر نے ایک نظر اسکے سرخ متورم چہرے کو
دیکھتے کرب سے آنکھیں بند کیں۔کچھ دیر وہ یونہی اسے اپنے ساتھ لگائے بیٹھا رہا۔پھر
اپنی آنکھوں سے بہتے آنسوں صاف کرتے اس نے آرام سے پیاری کو اپنی باہوں میں اٹھاتے
بیڈ پر لٹایا۔پھر کمفرٹر اس پر درست کیا۔وہ نیند میں بھی رونے کی زیادتی کی وجہ سے
تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہچکیاں لے رہی تھی۔وہ سوتے ہوئے بلکل محصوم سی بچی لگ رہی تھی۔میر
اسے دیکھے گیا۔پر دیکھنے کا انداز بدل چکا تھا۔آج ان آنکھوں میں پیاری کے لیے زرا
بھی نا پسندیدگی کا یا نفرت کا تاثر نہیں تھا۔وہ ٹکٹکی بھاندے کتنی ہی دیر اسے
دیکھے گیا۔۔
ناول پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے ڈاؤن لوڈ کے بٹن پرکلک کریں
اورناول کا پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کریں 👇👇👇
Direct Link
Free MF Download Link
پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے نیچے دئیے لنک پر کلک کریں
ناول پڑھنے کے بعد ویب کومنٹ بوکس میں اپنا تبصرہ پوسٹ کریں اور بتائیے آپ کو ناول
کیسا لگا ۔ شکریہ