Aulad Ki Tarbiyat Kaise Kare Written By Sawera Ansari

Aulad Ki Tarbiyat Kaise Kare Written By Sawera Ansari

Aulad Ki Tarbiyat Kaise Kare Written By Sawera Ansari

Novel Name : Aulad Ki Tarbiyat Kaise Kare
Writer Name: Sawera Ansari
Category : ARTICLES
Status : Complete


آرٹیکل

 

اولاد کی تربیت کیسے کریں؟۔                  

از۔۔سویرا انصاری

 

اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ آج کے دور میں بچے والدین کا کہنا ماننا پسند نہیں کرتے۔۔ اور ہر دوسرے والدین کی یہی شکایت درج ہوتی ہے کہ ہمارا بچہ تو ہمارا کہنا مانتا ہی نہیں ۔۔

اور اسی وجہ سے ہمارے معاشرے میں کافی بیگاڑ پیدا ہوچکا ہے ۔۔ اور اب بھی ہو رہا ہے۔۔۔جہاں تک نگاہ پہنچ سکی تو ہم یہ دیکھ سکے کہ والدین بچوں کو جب کسی کام سے روکتے ہیں تو عموما بچہ وہی کام کرنے کی ضد کرتا ہے ۔

 

اب سوال یہ ہے کہ بچہ ضدی کیسے اور کب بنتا ہے ؟ اس کی ایسی کیا وجوہات ہیں جو والدین کو بچوں کی پرورش اور تربیت کرتے ہوۓ مدِّ نظر رکھنی ضروری ہیں؟

 

تو جناب اس سوال کا جواب بہت چھوٹا اور مختصر سا ہے۔

کہ والدین اپنے بچوں کی بہت سی خواہشات پوری نہیں کرتے ۔۔۔۔ جس کی وجہ سے بچے باغی ہو جاتے ہیں کچھ بچوں میں ضد دیکھی جا سکتی ہے پر وہ وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہے پھر ختم ہو جاتی ہے ۔۔اور کچھ بچے ایسے ہوتے ہیں جن میں ضد وقت کے ساتھ ساتھ بغاوت کی صورت اختیار کرتی ہے۔۔۔ اور یہ بچے اپنے والدین اور اپنے معاشرے کے لیۓ ایک چیلنج ثابت ہوتے ہیں،

 

یہ تو بات ہے بچوں کی خواہشات کو پورا کرنے کی، میں یہ نہیں کہتی کہ ان کی ہر خواہش کو پورا ہی کردیا جاۓ، کہ اس کا فائدہ ہی کیا ہے بچے اس طرح مزید ضدی اور ڈھیٹ ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس کی وضاحت ضروری ہے۔۔لہذا یاد رکھیں۔۔۔

 

اس کی وجہْ خاص یہ بھی ہے کہ مثال کے طور پر آپ یوں سمجھ لیں کہ اگر آپ کا بچہ ابھی چھوٹا ہے اور وہ آپ سے کوئی ایسی چیز مانگ لیتا ہے جو کہ اس کے لیۓ ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ کچھ والدین کرتے یہ ہیں کہ وہ ڈانٹ ڈپٹ کر کے بچوں کو وقتی طور پر روک دیتے ہیں۔۔۔لہذا اب جتنی دفعہ اس بچے کا اس چیز سے سامنا ہوگا وہ وہی ضد بار بار کرےگا اب ہر بار وہ ڈانٹ سنے گا اور بسسسسس

یہ ڈانٹ ہی تو سارے فساد کی جڑ ہے ۔۔۔ بچہ ڈانٹ سن سن کر بھی اپنی پسندیدہ چیز کو نہیں چھوڑتا کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے کسی چمکنے والی اٹریکٹو چیز کی طرف کھنچے چلے جانا ۔۔۔ بچے کا اس چیز کو نا چھوڑنے کا ریزن (وجہ) یہ بھی ہے کہ آپ نے اسے یہ بتایا ہی نہیں کہ وہ چیز اسے کس کس طرح نقصان پہنچا سکتی ہے۔ 

لہذا اس ڈانٹ کے منفی اثرات بچے پر پڑیں گے، بچے آپ سے بد گمان ہوں گے کہ آپ ڈانٹتے رہتے ہیں ، اور پھر دور ہوتے جائیں گے حتی کہ بچہ ڈانٹ کے ڈر سے بہت سی باتیں نہ خود آپ کو بتاۓ گا اور نہ ہی آپ تک پہنچنے دے گا۔۔۔۔ اور یہی سے ہمارے معاشرے میں خرابیاں ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔،

 

مختصرا یہ کہ ہر اولاد کو والدین کے پیار کی اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے چاہے وہ نومولود بچہ ہو یا پھر نوجوان ہوتی اولاد لڑکا ہو یا لڑکی ۔۔ اگر آپ صرف پیار دے رہے ہیں تو آپ کو توجہ پر غور کرنا چاہیۓ اگر آپ دونوں دے رہے ہیں پھر بھی اسی صورت حال کا سامنا ہے تو آپ کو انہی دونوں چیزوں پر پھر سے غور کرنے کی ضرورت ہے ، لازما سی بات ہے کہ ہم کہیں نا کہیں غلطی کر رہے ہوتے ہیں۔ کہیں تربیت میں۔ کمی کر کے تو کہیں توجہ میں کمی کر کے،

بچوں کو باغی بنانے والے ہم خود ہوتے ہیں ۔۔ ہماری ڈانٹیں بچوں کے ذہنوں میں بچپن سے ہی سروائو کرتی ہیں حتی کہ بچہ بڑا ہونے لگتا ہے تو اس میں ڈر اور خلا کا عنصر باقی رہنا شروع ہو جاتا ہے ، اور پھر جب جب اسے ڈانٹ پڑتی ہے وہ اسی ڈر والے خول میں خود کو لپیٹ لیتا ہے ۔ اس کے برعکس جو بچے ڈرتے نہیں وہ بدتمیز ، حاضر جواب، اور بد اخلاق ہو جاتے ہیں۔۔۔

 

جانتے ہیں کیوں ؟

کیونکہ ہماری خراب تربیت بچوں میں چڑچڑاپن پیدا کردیتی ہے ۔۔اور اسی چڑچڑےپن کی وجہ سے بچے والدین سے لڑتے ہیں سیدھے منہ بات نہیں کرتے ۔۔۔اور والدین یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ کہنا نہیں مانتا یہ سنتا نہیں ہے ۔۔۔۔

ہماری کوتاہی یہ بھی ہے کہ بچے ہمارے ہوتے ہوۓ بھی ہمارے نہیں ہیں۔۔۔۔ہمیں بس اپنے بچوں کو اپنا بنانا ہے ۔۔

اب ایک مثال اور بتاؤں تو شاید آپ سمجھ جائیں۔۔۔

اگر آپ کا بچہ چھری سے کھیلنا چاہتا ہے اور سب جانتے ہیں کہ وہ اس کے لیۓ ٹھیک نہیں ہے ۔ لیکن چونکہ وہ چھوٹا ہے اور لازماً  اسے تو نہیں معلوم۔۔۔ پھر کیا اسے ہمیں ڈانٹنا چاہیۓ؟ نہیں بلکل بھی نہیں۔۔۔ ہمیں اسے پیار سے سمجھانا ہوگا۔۔ اگر وہ نا سنے تو کیا پھر  ہم اسے ڈانٹ سکتے ہیں؟۔ تو جی نہیں ، ہر گز بھی نہیں۔۔۔ اب آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اب اس بچے کو پریکٹیکل کر کے دکھانا پڑے گا۔۔۔اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کس طرح اسے عملی طور پر یہ کر کے دکھا سکتے ہیں کہ آپ کا بچہ اس کھلونے سے نا صرف رک جاۓ بلکہ اسے دل میں بھی برا جانے۔۔۔

 

تو یہ وہ باتیں تھیں جن کی وجہ سے نہ صرف گھر والوں کو پریشانی ہوتی ہے ، بلکہ ایسے بچوں کی وجہ سے معاشرہ بھی ڈسٹرب رہتا ہے، کیونکہ ایسا بچہ بہت جلدی لوگوں کی طرف سے بدگمان ہو جاتا ہے،  پھررررر۔۔۔ کیا ہوتا ہے مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ، 

یقینا آپ اپنے آس پاس ایسے لوگوں کو دیکھتے ہوں گے ۔۔۔

ایسے والدین ایسے بچے ۔۔۔ لہذا ان تک یہ پیغام پہنچائیں۔۔

پہلی بات :

 ان کو نرمی سے سمجھائیں

دوسری بات :

 ان پر تنقید نہ کریں ۔

اور آخری بات:

ایسے لوگوں سے ہمدردی کریں ان سے نفرت نا کریں نہ ہی برا جانیں۔۔۔کیونکہ ایسے لوگوں کو ہمدردی کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔

 

بات اس امید کے ساتھ ختم کرتی ہوں کہ آپ سمجھ گۓ ہوں گے۔۔۔ان شاءاللہ ،دوبارہ دوسرے کسی معاشرتی نقطے کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گی۔۔۔

شکریہ

دعاؤں کی طلبگار ۔۔۔

لکھاری ۔۔۔ "سویرا انصاری"



Kitab Nagri start a journey for all social media writers to publish their writes.Welcome To All Writers,Test your writing abilities.
Aulad Ki Tarbiyat Kaise Kare Written By Sawera Ansari is available here to download in pdf form and online reading.
Click on the link given below to Free download Pdf
Free Download Link
Click on download
give your feedback


Follow Our Whatsapp Channel FoR Latest Novel Update         👇👇👇👇
  

Follow Us On Instagram                    👇👇👇👇 


Follow Us On Instagram Tiktok



Post a Comment

Previous Post Next Post