Jazwa Ka Amin by S Merwa Mirza Upcoming Novel

Jazwa Ka Amin by S Merwa Mirza Upcoming Novel

Jazwa Ka Amin by S Merwa Mirza Upcoming Novel

Kitab Nagri Proudly Presents Jazwa Ka Amin by S Merwa Mirza 

Kitab Nagri Special

Posted SooN Only On Kitab Nagri

جذوہ کا آمن

تحریر: ایس مروہ مرزا

سٹوری لائن:

بدلے کی داستان، عشق کی تکمیل کا فسانہ

عشق و محبت کی اک منفرد اور نایاب داستان۔ بدلے کی شروعات سے جنم لیتا جنون، دیوانگی کی راہوں پر دیکھیے کیسے گامزن ہوا۔ سر پھرے سے اک مصور کی کہانی جسے دیکھنے والوں کی آنکھ بظاہر سراہتی تو اسکے پیچھے لوگ اسکے عجیب و غریب فن پاروں کو کفر سے جا ملاتے۔

اک ایسے بے چین روح والے کی کہانی جو کسی کا عشق، کسی کی دعا بن کر کس طرح برائی اور بدکاری سے بچ نکلتا ہے۔

عشق کیسے جلائے گا دو دہکتے دل، اور پھر کس طرح بجھائے گا بدلے کی آگ میں جلتے دو وجود۔

شعلے اور آب کے ملاپ کی اچھوتئ داستان، دلفریب واقعات اور سنسنی خیز لمحات کے ساتھ سوز اور رومانوی رنگ لیے ہوئے اک منفرد کہانی۔

********

سنیک پیک:

"جذوہ مبین، کاش آپ اس حکمت پاشا کی بیٹی نہ ہوتیں۔ میں آپ کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کرنا چاہتا، مگر آپکو چھوڑ دیا تو اپنے دل کی تپش سے بہت جلد جل جاوں گا" بہت نرمی سے وہ جذوہ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں سہلا رہا تھا، انداز میں اک خلش اور بے بسی تھی اور اختیاط بھی کہ کہیں وہ لڑکی جاگ نہ جائے۔ جذوہ تو جانتی تک نہ تھی کہ وہ بے گانگنی میں اپنے آمن کے پاس آپہنچی ہے، اس نے اللہ سے آمن مانگا تھا۔ مگر یہ ساتھ بیٹھا شخص تو صرف انتقام لینے آیا تھا۔ جذوہ کی عصمت کو تار تار کرنے کا سوچ کر اب وہ تھک رہا تھا، اس نے خود کو مضبوط کرنے میں تین سال لگائے اور تین سیکنڈ میں وہ سارا ضبط اس بے جان وجود کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوا تھا۔

"کیا یہ نازک سی لڑکی یہ سب سہہ پائے گی؟ یہ تو مر جائے گی۔ یہ کیا ہو رہا ہے مجھے، میں کیوں بار بار اپنے انتقام میں ہار رہا ہوں" آمن کا لہجہ دل کے اندر کہیں بھیگ رہا تھا، وہ گردن موڑے رخ بھی جذوہ کی سمت کیے اسے کتنی ہی دیر دیکھتا رہا۔ پھر اسکا ہاتھ جذوہ کی گال تک گیا، وہ ناکام ہو رہا تھا۔ وہ تو اسے سختی سے ہاتھ لگانے میں بھی ہار رہا تھا۔ جذوہ کی آنکھیں بند تھیں، آمن کو لگا وہ یہ کبھی نہیں کر پائے گا۔

"یہ تمہاری دیوانی ہے آمن، دیوانوں کو تو قبول کیا جاتا ہے رسوا نہیں کیا جاتا" وہ بے اختیار جذوہ کے چہرے سے ہاتھ اٹھا چکا تھا گویا اسے دل نے اسے چلے جانے کا حکم دیا، جذوہ کا ہاتھ ابھی بھی آمن کے ہاتھ میں تھا۔

"جذوہ مبین، میں یہ نہیں کر پاوں گا لیکن آپکو قید کر کے رکھنا میری مجبوری ہے۔ آج تک آمن سکندر شاہ کسی ناجائز کام سے نہیں ڈرا مگر آج عجیب سا خوف ہے۔ شاید اس لیے کہ آپ میرا آئینہ ہیں، اور میں چاہ کر بھی آپ پر ایسا بے رحم ظلم نہیں کر سکتا" وہ کسی ہارے ہوئے انسان کی طرح جذوہ کا ہاتھ بہت نرمی سے بیڈ پر ٹکا کر تھوڑا سرک کر اپنی ہار قبول کرتا بیٹھا، وہ اس پر اپنا سایہ تک پڑنے نہیں دے رہا تھا۔ جذوہ کی دعا قبول ہو گئی تھی، کہیں دور آسمان پر کوئی ستارہ صدقہ اتارنے کو ٹوٹا تھا۔ آمن اٹھ کر چند قدم چلتا صوفے پر جا بیٹھا، اسکی دلسوز نظریں جذوہ پر تھیں۔

"لائے بروئے کار نہ حسن و جمال کو

موقع تھا پھر بھی رات نہ رنگین ہم نے کی" دل نے اک آہ بھری۔

جلد آرہا ہے کتاب نگری کی ویب سائیٹ پر، تیار ہو جائیں ایک اونلائین ماسٹر پیس پڑھنے کے لیے۔


Post a Comment

Previous Post Next Post