Jazwa Ka Amin by S Merwa Mirza Episode 4
Jazwa Ka Amin by S Marwa Mirza Episode 4
ناول: جذوہ کا آمن
تحریر: ایس مروہ مرزا
سنیک:-
"یا اللہ، نکاح نہیں کر سکتی ۔ تم مجھے جانے دو میں نکاح نہیں
کر سکتی۔ اپنے مالک کو بلاو میں اسے بتاتی ہوں مجھ پر یہ ظلم نہ کرے۔ میں آمن کی
ہوں، مجھے کسی اور کے نکاح میں نہیں جانا۔ تم ایسا کرو تم مجھے مار دو، ہاں۔ تم
مار دو مجھے لیکن مجھ پر یہ ظلم مت کرو" جذوہ کے کانپتے ہونٹوں سے نکلی اس
بات پر ناصرف اسکے پاس بیٹھئ بلقیس پتھرا گئی بلکے باہر کھڑے آمن سکندر کی آنکھوں
میں بھی خون اترا۔
اپنے آپ پر اس وقت اسے بے شمار نفرت محسوس ہوئی، اب وقت آگیا
تھا کہ وہ اس لڑکی سے سامنا کرتا۔
وہ دونوں تو پھٹی آنکھوں سے ایک نظر ایک دوسرے کو پھر جذوہ
کو دیکھتیں بدحواس ہوئیں اور اسی لمحے آہٹ پر اندر داخل ہوتے وجود پر نگاہ پڑتے ہی
جذوہ کو لگا اسکی دھڑکن رک گئی تھی۔
آمن سر تا پا سیاہ میں لپٹا اسکے سامنے تھا اور آمن کے آتے
ہی بلقیس کے اشارے پر وہ دوسری عورت تھال رکھے مودب ہوئے دونوں باہر نکلیں۔
جذوہ کی آنکھوں میں اپنے نام کی تڑپ دیکھنا آمن سکندر کو مزید
بے سکون کر گیا تھا۔
"نہیں، یہ میری آنکھوں کا دھوکہ ہے۔ یہ آمن نہیں ہے"
جذوہ کا دل بری طرح کانپا اور وہ ہراساں سی بمشکل سانس لیتی سر جھکا گئی۔
"جذوہ مبین" امیر آمن سکندر شاہ کے ہونٹوں نے اسکا نام
لیا ، وہ اسکو بھی اپنا دردناک خیال سمجھ کر سخت روتی ہوئی نفی میں گردن ہلائے
ہلکان تھی اور آمن سے اسکا یہ ہولناک رونا سہا نہ گیا۔
کیا یہ لڑکی اسکے لیے خود کو پابند کیے ہوئے تھی، وہ تو اسے
رسوا کرنے والا تھا۔
یہ سوچ کر ہی آمن نے جھرجھرئ لیے اپنے قدم جذوہ کی سمت
بڑھائے اور وہ تو اپنے ساتھ آکر بیٹھتے آمن سے خوف کھاتی تیز تیز سانس لیے ہانپ کر
کچھ دور ہوئی۔
"مجھ سے نکاح کریں گی؟ آج اور ابھی" لہجے میں مضبوطی
اور سختی لیے وہ اسکے سرخ چہرے اور کانپتے وجود کو اور اسکی یاقوتی آنکھوں میں
جھانک کر استفسار کیے رخ موڑے بیٹھا جو ماتم کناں آنکھیں لیے دعا کی عجیب و غریب
قبولیت پر رنج سے اٹ چکی تھی۔
"میں آمن سکندر شاہ ، وہی آمن جسکے لیے آپ خود کو تین سال سے
پابند کیے ہوئے ہیں۔ نکاح ہوتے ہی آپکی بات آپکی خبر گل جان کو دے دی جائے گی۔ روئیں
مت اور یہ لباس بدل لیں" آمن سپاٹ مگر نہایت بجھے انداز میں کہہ کر اٹھا اور
اک تلخ نظر سخت دلخراش روتی جذوہ پر ڈالی جو کسی صدمے کی سی کیفیت میں مبتلا تھی۔