Baityon Ko Tahaffuz Dejiye By Zeeshan Noor Khilji

Baityon Ko Tahaffuz Dejiye By Zeeshan Noor Khilji

Baityon Ko Tahaffuz Dejiye By Zeeshan Noor Khilji

Name : Baityon Ko Tahaffuz Dejiye
Writer Name : Zeeshan Noor Khilji
Category : column
Kitab Nagri start a journey for all social media writers to publish their writes.Welcome To All Writers,Test your writing abilities.

بیٹیوں کو تحفظ دیجیے

ان کا نام محمد فائق ہے یہ ایک لبرل خیالات رکھنے والے شخص ہیں ان کی ایک جوان بیٹی سویرا ہے جو کہ یونیورسٹی سٹوڈنٹ ہے۔ فائق صاحب روزانہ صبح آفس جاتے ہوئے اسے یونیورسٹی ڈراپ کرتے ہیں اور لنچ ٹائم میں واپس گھر بھی لے کے آتے ہیں۔ فائق صاحب نے پک اینڈ ڈراپ کی ڈیوٹی اپنے سر لے رکھی ہے کیوں کہ ان کا ماننا ہے حالات بہت خراب ہیں سو جوان بچی کا پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا اچھی بات نہیں۔ اور سویرا جس یونیورسٹی میں پڑھتی ہے وہ ایک مہنگی پرائیویٹ یونیورسٹی ہے، وہاں کا ماحول بھی خاصا کھلا ڈلا ہے خود سویرا صاحبہ بھی خیر  سے اسی رنگ میں رنگی ہوئی ہیں۔ یہ اکثر جینز اور شرٹ پہنتی ہیں اس کے علاوہ عورت مارچ، خواتین کے حقوق اور اس جیسی دوسری خرافات کی زبردست حامی ہیں دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ یہ لائن سے اتری ہوئی ہیں۔ اور پھر اکثر انہیں اس بات کا شکوہ بھی رہتا ہے کہ یونیورسٹی میں لڑکے ان کے جسم کو تاڑتے ہیں، مارکیٹس میں نوجوان ان پر آوازے کستے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس بات کو لے کر فائق صاحب بھی کافی پریشان ہیں لیکن شاید انہوں نے وزیراعظم کا بیان نہیں سنا اس لئے ابھی تک مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ انہیں چاہئیے کہ اپنی بیٹی کے لباس کو درست کریں تاکہ نوجوانوں کو غلط حرکتیں کرنے کا موقع نہ ملے، آخر کو وہ بھی انسان ہیں کوئی روبوٹ نہیں۔

دوسری طرف احسان صاحب ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی بھی ایک جوان بیٹی ہے۔ عروج لڑکیوں کے ایک گورنمنٹ کالج میں پڑھتی ہے۔ احسان صاحب نے اسے ایک رکشا لگوا کر دیا ہوا ہے جو کہ کالج پک اینڈ ڈراپ کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ عروج چونکہ شرعی پردہ کرتی ہے اور مخلوط تعلیمی ادارے میں پڑھنے کی بجائے لڑکیوں کے سرکاری کالج میں پڑھتی ہے اس لئے یہ بہت سکھی ہے۔ اسے سویرا کی طرح کبھی جنسی ہراسمنٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا یہاں تک کہ مارکیٹ میں بھی اسے کبھی گندی آوازوں اور ہاتھوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اور احسان صاحب ایک جوان بچی کے باپ ہو کر بھی بہت مطمئن ہیں کیوں کہ ان کی بیٹی معاشرے کی ہوس سے بچی ہوئی ہے وہ عزیز و اقارب کو بھی یہی تاکید کرتے ہیں کہ اگر اپنی بیٹیوں کو معاشرے کی درندگی سے بچانا ہے تو پھر انہیں شرعی پردہ کروائیے اور مخلوط تعلیم سے بچا کے رکھیے۔

لیکن دوستو کیا آپ جانتے ہیں حقیقت کیا ہے؟ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے دراصل احسان صاحب کی بیٹی عروج کو بھی کم و بیش انہی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کا سامنا فائق صاحب کی بیٹی سویرا کو ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ عروج نے کبھی اپنے باپ کو ان حالات سے آگاہ ہی نہیں کیا۔ شروع شروع میں جب اس نے اپنی ماں سے ان باتوں کا ذکر کیا تو ماں نے برے طریقے سے بیٹی کو ڈپٹ دیا کہ اگر تمھارے باپ یا بھائی کو ان باتوں کا پتا چل گیا تو وہ تمھارا گھر سے نکلنا ہی بند کر دیں گے اس لئے غنیمت اسی میں ہے کہ حالات کا جبر سہتے ہوئے کسی نا کسی طرح اپنی تعلیم مکمل کرو تاکہ اچھی جگہ رشتہ طے ہو سکے۔

صاحبو ! سچ یہ ہے کہ وہ ہماری مغرب زدہ بہن سویرا ہو یا پھر شرعی پردہ دار بیٹی عروج، محفوظ ان دونوں میں سے کوئی بھی نہیں ہے اور یہ ہماری بے وقوفی ہے کہ ہم بجائے اپنی بیٹیوں کی حفاظت کرنے کے لباس کی فضول بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔

دیکھیے، وزیراعظم تو بیان دے کے بھول بھی چکے، ان کی جانے بلا لیکن اپنی بہن بیٹیوں کی حفاظت آپ کی اپنی ذمہ داری ہے۔ اور قانون کو مضبوط کرنے کی بات نہ کیجیے وہ آپ کے کہنے سے نہیں ہو گا آپ کے کرنے کا کام یہ ہے کہ اپنی بہن بیٹیوں کو اعتماد دیجیے تاکہ وہ آپ سے اپنی ہر بات شئیر کر سکیں اور انہیں ہمت اور حوصلہ دے کر اس قابل بنائیے کہ کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے تو وہ وہیں حساب چکتا کر دیں۔ یقین جانیے ان درندوں سے نپٹنے کا یہی موثر حل ہے۔ ایک وقت تھا جب ہماری خواتیں کسی گلی چوراہے سے گزرتے ہوئے گھبراتی تھیں کہ وہاں مرد حضرات کھڑے ہیں۔ خواہش ہے اس معاشرے میں اب ایسا وقت آئے اور ہماری بیٹیاں اتنی ہمت اور حوصلے والی ہوں کہ مرد انہیں دیکھ کر ہی راہ بدل جائیں۔ بہرحال یہ صرف اور صرف آپ کے دیے گئے اعتماد اور پیار سے ہی ممکن ہو گا۔

دیکھیے آج اگر آپ کی بیٹی محفوظ ہے تو دراصل وہ محفوظ نہیں ہے بلکہ آپ کے جعلی رعب کے باعث آپ کو اس کے بارے میں کچھ بتایا ہی نہیں جاتا اور آپ احباب کی محفل میں بیٹھے مغرب زدہ خواتین کے لباس پر تنقید کر رہے ہوتے ہیں جب کہ دوسری طرف کوئی درندہ اپنے دوستوں کی محفل میں بیٹھا آپ کی حیاء دار بیٹی کو چھیڑنے اور پھر اس کے سہم جانے کے قصے مزے لے لے کر بیان کر رہا ہوتا ہے۔

اس لئے آپ کو چاہئیے کہ بجائے آپ وکٹم بلیمنگ کرنے کے یا پھر ایک دوسرے کی بیٹیوں پر کیچڑ اچھالنے کے ان جنسی درندوں سے نپٹنے کے متعلق سوچیں اور ویسے بھی بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں۔

 

ذیشان نور خلجی

Post a Comment

Previous Post Next Post