Tajdare Khatm E Nabuwat Written By Hina Shahzadi

Tajdare Khatm E Nabuwat Written By Hina Shahzadi

Tajdare Khatm E Nabuwat Written By Hina Shahzadi

تاجدارِ عقیدہ ختم نبوت زندہ باد

ازقلم:- حناشہزادی

 

چلیں تو آج بات کرتے ہیں اُس عزیم ہستی کی،اُس حسین وجمیل،زلف مبارک،کی جس کے چھپ جانے سے تھا ہوجاتا تھا ہر طرف اندھیرا ،اور ظاہر ہونے سے ہر طرف سویرا ہوجاتا،۔۔سُبحان اللہ

اور اُس تبسم کی جس سے پھول بھی ماشااللہ کہ اُٹھتے،تو وہ ہےپاک ہستی میرا مُحمدؐ،صلی اللہ علیہ والہِ وسلم"

دلوں کی دھڑکن ،

جسم کی جان،۔

اورسکونِ قلب ہے جسکانام

وہ ہےمیرانبیؐ میری جان

تو اب بات کرتے ہیں ختم نبوت کی، ختم نبوت کا عقیدہ ان اجتماعی عقائد میں سے ایک خاص عقیدہ ہے، جو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار کئے گئے ہیں عہد نبوتؐ سے لے کراب تک ہر مسلمان اس پر سچے دل سے جان سے ایمان رکھتا آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بلا کسی تاویل اور تخصیص کے خاتم النبیین ہیں بےشک “ بے شک

اور وہ وہی ہیں جنکا ذکر مبارک ہر آسمان سے اُتاری گٸ کتاب میں اللہ کی ذات نے بیان فرمایا،اسی طرح

 قرآن مجید کی ایک سو آیات کریمہ، رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث متواترہ (دو سو دس احادیث مبارکہ) سے یہ مسئلہ ثابت ہےکہ، ”آنحضرت صلی اللہ علیہ والہِ وسلم“ کی امت کا سب سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر ہوا تھاکہ مدعی نبوت کو قتل کیا جائے۔”آنحضرت صلی اللہ علیہ والہِ وسلم“ کے زمانہ حیات مبارک میں اسلام کے تحفظ و دفاع کے لئے جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں تھیں، ان میں سب شہید ہونے والے صحابہ کرام ؓکی جو کُل تعداد تھی وہ 259 تھی“ اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ و دفاع کے لئے اسلام کی تاریخ میں پہلی جنگ جو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہدِ خلافت میں مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ کے میدان میں لڑی گئی، اس ایک جنگ میں شہید ہونے والے صحابہؓ اور تابعین ؒکی تعداد بارہ سو ہے جن میں سے ”سُبحان اللہ“ سات سو قرآن مجید کے حافظ اور عالم تھے۔۔۔۔۔تودوستو“اس بات سےثابت کیا ہوا کے ہماری نسلیں جان کو قُربان کرتی رہیں گی،آخری سانس تک اور ہمارے جوان اس بات پر فخر محسوس کریں گے،کہ ہم ”آنحضرت صلی اللہ علیہ والہِ وسلم“کی اُمت میں سے ہیں۔

اسی طرح رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہِ وسلم کی زندگی کی کُل کمائی اور گراں قدر اثاثہ ”حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، جن کی بہت بڑی تعداد اس عقیدہ کی سلامتی، اور اس کے تحفظ کے لئے جامِ شہادت نوش کرگئی اور آج ہم سب کوان سب باتوں سے  واقعات سے ختم نبوت کے عقیدہ کی عظمت کا بڑاٸی کا اندازہ بہت اچھی طرح  ہوسکتاہے۔

اور بہت سی جانیں، اس عقیدہ کی حفاظت کرتے کرتے،اپنی جان کا نزرانہ پیش کرگٸ،لیکن اِک بھی حرف نہ آنے دیا،

اسی طرح مسیلمہ کذاب نے حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ ”محمد صلی اللہ علیہ والہِ وسلم“ اللہ کے رسول ہیں؟

حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہاں،تو پھر مسیلمہ نے کہا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں (مسیلمہ) بھی اللہ کا رسول ہوں؟

حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ میں بہرا ہوں، اور بہت بہرہ ہوں“ تیری یہ بات نہیں سن سکتا،اور نہ ہی میری سماعتوں تک پہنچے گی کبھی، مسیلمہ بار بار سوال کرتا رہا،اور وہ بار بار یہی جواب دیتے رہے اور مسیلمہ ہربارکہنے پر ان کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا ہر بار، حتی کہ خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن زید کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کو شہید کردیا گیا۔۔اور اس سے بھی اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسئلہ ختم نبوت کی عظمت و اہمیت سے کس طرح والہانہ تعلق رکھتے تھے، کس قدر عشق رکھتے تھے،کہ ہر لمحہ اپنی جان اپنی ہتھیلی پر لیۓ پھرتے تھے،۔۔کہ کب ہمیں موقع ملے اور ہم اپنے نبی صلی علیہ والہِ وسلم کی خاطر قُربان ہوجاٸیں،

تواس واقع کو سُنانے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری بھی کُچھ ذمہ داریاں ہیں جو کہ نبھانی ہیں ہمیں،۔۔۔جان جاتی ہے تو جاۓ، لیکن ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ ہمیشہ زُبان پے رہے،پھر چاہے یہ زُبان ہی کیوں نہ کاٹ دیۓجاۓ لیکن ہمیں ثابت قدم رہنا ہے اپنے عشق کااپنی محبت کا اظہار کرنا ہے،کہ کس قدر شدت سے چاہتے ہیں ہم اپنے نبی کواور وہ ہی آخری رسول ہیں ،ان کے بعد اور کوٸی نبیؐ نہیں آۓ گا،اس عقیدے کو اپنی سماعتوں میں بسا لو کے کُچھ اور سُناٸی ہی نہ دے،

2 Comments

Previous Post Next Post