Muqadar Written By Iram

Muqadar Written By Iram

Muqadar Written By Iram

"مقدر"

ازقلم ارم

 

نی زبیدہ کیتھے مر گٸ کُکڑیوں کو ڈربے میں ڈال بدل لیندے سے چڑھ کے آ گیا او نسرین تو ہی سن لے کلموہی!!!

اماں جی صحن میں بچھی چارپاٸ پہ براجمان دُھاٸیاں دینے میں مشغول تھیں۔

کی ہویا اماں جی کیہڑا طوفان آ گیا

 نسرین بھاگتے ہوۓ اماں جی کے پاس آٸ۔

وے نسرین اے زیبو کیتھے مر گٸ؟

 اماں جی نے دانت پیستے ہوۓ پوچھا۔

اماں جی اب اپنی نشست بدل چکے تھے۔ برآمدے میں بچھی چارپاٸ پہ بیٹھتے ہوۓ تاسف بھری نگاہوں سے نسرین کو دیکھنے لگے۔

اللہ جی اس بچی کے مقدر میں خوشیاں لکھ دیں۔ آمین

اماں جی زیرَ لب بڑبڑاٸ۔

نسرین مرغیوں کو ڈربے میں ڈال کے زبیدہ کو جگانے چلی گٸ۔ زیبو کالج سے آتے ہی یونیفارم بدلے بنا سو چکی تھی نسرین کے جگانے پہ زبیدہ منہ بناۓ اُٹھ چکی تھی۔

زبیدہ اور نسرین دو بہنیں تھیں انکا اکلوتا بھاٸ وسیم ابھی ساتویں جماعت میں تھا کہ انکی ماں موذی مرض میں مبتلا ہو گٸ اور جلد ہی اس جہاں لوٹ گٸ جہاں ہر انسان کے جانے کا وعدہ ہے۔

باپ پروفیسر تھا اور یہ فیملی شہر مقیم تھی ماں کی موت کے بعد نسرین اور زبیدہ کو گاٶں بھیج دیا گیا جبکہ پروفیسر صاحب اپنے گھر اور وسیم کو ہاسٹل بھیج دیا گیا۔

نسرین بی ایڈ مکمل کر چکی تھی اور اسی گاٶں میں سرکاری سکول بچوں کو پڑھاتی تھی جبکہ زبیدہ ابھی ایف اے پاس کرنے کے بعد بی اے میں داخلہ لے چکی تھی۔ نسرین کی عمر اٹھاٸیس برس ہو چکی لیکن اسکے لیے کوٸ معقول رشتہ نہ مل پا رہا تھا۔ اور رشتہ نہ ملنے کی وجہ فقط اسکا سانولا رنگ اور معمولی نین نقش تھے۔ اماں جی نسرین

کو دیکھ کے کلستے رہتے تھے اتنی سُلجھی بچی مگر لِیکھُوں کی ماری۔

لیکن مقدر کے آگے کس کی چل سکتی ہے اور دوسرا لوگوں کی سمجھ میں نہیں ہوتا کہ اللہ نے ہر انسان کو خوبصورت بنایا ہے۔

۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔

اماں جی وہ لوگ نسرین کو دیکھنے آ رہے ہیں اسے کہیں ڈھنگ کے کپڑے پہنے زبیدہ منہ بسورتے ہوۓ کہہ رہی تھی۔

سلمیٰ ستاری والا سبز رنگ کا جوڑا پہنے گوٹی سے سجے دوپٹے کو تمیز سے سر پہ سجاۓ نسرین دلکش لگ رہی تھی۔ زبیدہ نے نسرین کا ہلکا سا میک اپ بھی کر دیا تھا اور اپنا اکلوتا نگوں والا ہار نسرین کو پہنا دیا تھا۔

لڑکے والے پہنچ چکے تھے دو بہنوں کا اکلوتا بھاٸ تھا جس سے نسرین بیاہی جانی تھی۔ بہنیں تو بہت خوبصورت تھیں ماں بھی اچھے اخلاق کی مالکن تھی اور وہ پل میں نسرین کو پسند کر چکے تھے۔

نسرین کے گھر والے بھی لڑکے اور گھر کو دیکھ آۓ تھے بہت شاندار گھر اور لڑکا بھی نہایت خوبصورت۔

اگلی بار لڑکے والے آۓ تو منگنی کر گۓ۔ نسرین کے گھر والے بھی منگنی کی رسم ادا کر چکے تھے سارا گاٶں نسرین کے مقدر پہ رشک کر رہا تھا۔

رشتہ زبیدہ کی بدولت ہوا تھا کیونکہ نجمہ نسرین کی ہونے والی نند زیبو کی کلاس فیلو تھی باتوں باتوں میں اکلوتے بھاٸ کی  شادی کا زکر کرنے لگی زیبدہ نے ہوشیاری سے کام لیتے اپنی بہن کا کہہ دیا اور یوں بات پکی ہو گٸ۔

1996 کا سورج غروب ہونے والا تھا کچھ گھنٹوں بعد ایک نیۓ سال کا سورج نکلنے والا تھا۔

کھیتوں کی بیچ و بیچ مٹی آلود ٹوٹی پھوٹی سڑک اپنی ناقدری پہ بیچ و تاٶ کھا رہی تھی چچا ثنا اللہ  اپنی سیکل پہ سوار تیز تیز منزل کی جانب پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ دھول اُڑاتی سڑک پہ کھڑے افراد چچا کو گھوڑے کی سپیڈ سے سیکل چلاتے کسی فلم کا ہیرو سمجھ رہے تھے۔

نی بہن سلیمہ جلدی سے ادھر آو غضب ہو گیا ہمرے ساتھ دھوکہ ہوا۔

اماں جی چچا کی آواز پہ سہمے ہوۓ آ گۓ۔

کیا ہوا براوا کی غضب ہویا؟

اماں جی نے اٹک اٹک کے بات مکمل کی۔

نی بہن او جس منڈے نال نسرین کو ٹورنا تھا نہ ہم نے وہ پہلے سے بیاہا ہوا تھا بیوی کو طلاق دے چکا تھا اور اس معصوم کا سارا زیور بھی کھو لیا تھا ظالم گینڈے نے

چچا اب اماں جی پہ انکشاف کر رہے تھے جبکہ نسرین اپنے مقدر پہ آنسو بہانے لگی۔

لڑکے والوں کو بلایا گیا اور ساری کہانی سامنے کھولی گٸ تو معلوم ہوا زبیدہ کو علم تھا ساری بات کا لیکن ہر وقت اماں جی نسرین کے لیے پریشان رہتے تھے اسلیۓ اس نے رشتہ کروا دیا۔

نسرین بہت شکستہ دل ہوٸ اس نے زبیدہ سے بات کرنا چھوڑ دیا۔ ابا سے کہہ دیا کہ جو آپ کی مرضی جیسا آپ چاہیں جہاں چاہیں اسے بیاہ سکتے۔

1997 کا پہلا دن ہی نسرین کے لیے دکھ کا دن ثابت ہوا۔

ابا نے سوچ سمجھ کے نسرین کے لیے اپنے دوست کرم اللہ  کے بیٹے کو ہاں کہہ دی۔ نسرین نے رفیق کی تصویر تک نہ دیکھنا گوارا کی۔

۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔

شادی ہو چکی تھی ابا بہت خوش تھے۔ نسرین بلکل بھی خوش نہ تھی رفیق پڑھا لکھا ضرور تھا لیکن نوکری کے معاملے میں اسکا مقدر بھی اسکی نظر میں اچھا نہ تھا۔ اور نسرین کو رفیق ایک آنکھ نہ بھایا کیونکہ وہ بلکل بلیک اینڈ واٸٹ دور کا ہیرو لگتا تھا۔

وقت کا کیا تھا وقت نے گزر ہی جانا تھا اللہ نے رفیق اور نسرین کو چاند جیسی بیٹی سے نوازا جسکا نام سدرہ رکھا لیکن پیار سے سب اسے گڑیا بلاتے تھے۔

نسرین نے اپنا زیور بیچ کے پیسے اکٹھے کیے اور رفیق کو سعودیہ بھیج دیا۔ انکی کڑی آزماٸش کا وقت ختم ہوا اور رفیق کو اچھی جاب مل گٸ۔

گڑیا ناز نخروں میں پلنے لگی۔ باپ سے فرماٸشیں کرنا ماں کی محبت میں رہنا۔ لیکن وقت کہاں یکساں رہتا ہے دسویں جماعت میں گڑیا پہنچی تو اسی سال رفیق دل کےدورے سے زندگی کی بازی ہار گیا۔ نسرین کے حالات تو سُدھر چکے تھے لیکن ہمدرد شوہر چلا گیا تھا۔

وقت اپنی تیز رفتاری سے چلتا رہا

گڑیا پڑھ لکھ کے ڈاکٹر بن چکی تھی اور اس کے لیے ایک ڈاکٹر کا رشتہ آیا تھا نسرین نے سوچ سمجھ کے ہاں کر دی گڑیا کے لیے یہ سب افسانوی بات تھی۔

گڑیا کی شادی ہو گٸ وہ اپنی زندگی میں بہت خوش تھی ماں کے گھر بھی آنا جانا لگا رہتا تھا۔ آج کل نسرین کی طعبیت ٹھیک نہیں تھی اس لیے گڑیا ماں کے پاس ہی رہہ رہی تھی۔ لیکن نسرین کچھ دن تک زندگی موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد دنیا سے چلی گٸ۔

گڑیا کے لیے یہ صدمہ بہت بڑا تھا اسکی ماں اسکے لیے سب کچھ تھی لیکن موت اٹل ہے۔ گڑیا سٹور روم کی صفاٸ کروا رہی تھی جب ہی اسے ڈاٸری ملی وہ ڈاٸری نسرین کی تھی۔

گڑیا صفحے الٹ پلٹ کر کے دیکھنے لگی ڈاٸری خالی تھی۔ آخری پیج پہ فقط چند الفاظ جگمگا رہے تھے۔

 

"مقدر"

افسانوں کی دنیا میں رہنے والی لڑکی

کبھی سوچنا افسانوں کا خاتمہ محبت کے بعد شادی پہ ختم ہی کیوں ختم ہوتا؟

شادی کے بعد کی زندگی اہمیت نہیں رکھتی یا پھر چند پل موت کو جھٹلانا آسان ہے؟

لیکن یاد رکھنا مقدر اور موت سے جنگ لڑنے والا حقیقتوں سے دور ہوتا ہے

 

نسرین

 

گڑیا بے بسی سے آنسو بہانےگی!!!

Post a Comment

Previous Post Next Post