Tanqeed Written By Hira Fatima Sial

Tanqeed Written By Hira Fatima Sial

Tanqeed Written By Hira Fatima Sial

کالم نگار: حرافاطمہ سیال

عنوان:تنقید

 

ہم تنقید کرنے والے لوگ ہیں لفظ “ کیوں “ بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں ۔ جو ہو رہا ہے اس پر تنقید کہ کیوں ہو رہا ہے اکثر یہ جملہ سنا جاتا ہے اور بولا بھی جاتا ہے کہ آخر میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا یا ہو رہا ہے۔ کسی غریب بیوہ عورت کا اکلوتا جوان بیٹا مر جائے تو ہم سب کہتے ہیں کہ بیچاری کا اب کون سہارا اس کی تو دنیا اجڑ گئی یہ جملہ بہت بڑا جملہ ہے کہ اس کا اب کون سہارا کیا تم سہارے کے بغیر پیدا ہو گئے یہ کائنات چلانے والا کسی کے سہاروں کا محتاج ہے ۔ جو بیٹا اس کا مر گیا ہے وہ پیدا کرنے والا اگر اسے پیدا ہی نا کرتا تو بھی تو وہ ماں زندہ رہتی اس کا سہارا اسے پیدا کرنے والا اس کا رب ہے ۔وہ بیٹا اس کی زندگی کا حصہ تھا وہ اب اسکی یادوں کے ساتھ جی لیں گی کیونکہ زندگی اس بیٹے پر ختم نہیں ہو گی ۔ اللہ کی عطا تھی اس نے لے لی اعتراض کس بات کا؟؟دراصل بات یہ ہے کہ  ہم چھا یا برا پرکھنا پسند کرتے ہیں۔ judge  کرتے ہیں ۔ معاشرہ خراب ہے اس میں ہونے والے عوامل ان کے اثرات پر تنقید کرتے ہیں لیکن اس کو بہتر کیسے کیا جائے اس پر بات نہیں کرتے۔  ہم رائی کا پہاڑ بنا کر پیش کرتے ہیں خود کی کوتاہیوں پر پردہ ڈال کر دوسرے کے عیبوں پر تبصرے کرتے ہیں۔

کچھ مسائل نفسیاتی ہوتے ہیں بہت سے لوگ خاموش رہنا پسند کرتے ہیں لیکن ہم تنقید کرتے ہیں کہ آخر یہ گھلتا ملتا کیوں نہیں یہ چیز سامنے والے کی نفسیات پر حملہ کرتی ہے اور جو زیادہ بولتے ان پر بھی تنقید کی جاتی ہیں۔ یہاں ہر وہ شخص تنقید کی زد میں ہے جو ہم سے بہتر ہے اور وہ بھی جو ہم سے کمتر ہے۔ کمتر کو ہم سمجھتے کچھ نہیں اور بہتر تک جب پہنچ نہیں پاتے تو اس پر لفظوں کا کیچڑ پھینک کر گندا کر دیتے ہیں۔

تنقید برائے اصلاح بھی ہو سکتی ہے لیکن ہم کیوں کریں ہم سے کمتر ہمارے برابر کیوں آئے ؟اور ہم سے بہتر آگے کیوں جائے ؟ یہ ہماری سوچ ہے اور ہم غلط ہیں ہم حوصلے توڑ کر دل مارنے والے لوگوں میں شمار ہو رہے ہیں ہمیں اصلاح کی ضرورت ہے لیکن ہم سب اک دوسرے کی اصلاح ہی تو کررہے ہیں  اپنی اصلاح کی ہمیں ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتے کیونکہ ہم خود کو بہترین سمجھتے ہیں ہمیں خود پر تنقید کرنا کب آتی ہے نا ہی ہم خود کو تنقید کا نشانہ بنتا برداشت کر سکتے ہیں

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ بھری دنیا میں ہمیں اپنے سوا کوئی حساس نظر نہیں آتا ۔ ہم خود کو دنیا کا  حساس ترین انسان سمجھتے ہیں تلخ لہجے ، سخت جملے صرف ہم ہی پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ ہمیں لگتا ہے کہ جو لوگ ہماری سن کر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ان کو تو کچھ سمجھ نہیں آتا ایسا ہرگز نہیں ہے سمجھ سب جاتے ہیں سمجھدار انجان بن کر اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں ۔ دوسروں کو بے حس اور خود کو حساس سمجھنے کا اثر یہ ہوا کہ انسانیت ہمارے اندر ہی کہیں دم توڑنے لگی ہیں اور یہ مقولہ ہر شخص کی زبان پر ہے

جس کا درد اسی کا درد باقی سب تماشائی۔ میں نے آج تک بہت سے ایسے شوق پورے نہیں کیے جن کے بارے میں بات کرتے ہوئے مجھ پر ہنسا گیا تنقیدی نظر سے دیکھا گیا اور کہا گیا یہ بھی بھلا کوئی شوق ہے وہ شوق اپنے اندر سے ختم کرتے کرتے میرے اندر کا انسان جو واقعتاً انسان ہے جس سے کبھی میں خلوت میسر آئے تو بہت کچھ کہتی ہوں وہ کہیں خفا سا ہو گیا لیکن چونکہ میں بہت حساس ہوں جیسا کہ میں نے کہا یہ ہمارا مسئلہ ہے کہ ہم حساس لوگ ہیں تو ہم کسی کو خود پر ہنسنے کا موقع نہیں دیتے

 اور بہت سے شوق سینے میں دفن کرکے اپنے اوپر زبردستی ایک artificial سا خول چڑھا لیتے ہیں۔اور اس دوغلے پن کو نبھاتے نبھاتے اپنے اندر کے انسان کو جو جسم سے نہیں، روح سے تعلق رکھتا ہے کو کھو دیتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں دوسروں کو اپنے جیسا حساس سمجھنا ہے وہ باتیں جو ہم برداشت نہیں کر سکتے وہ کسی دوسرے کو کہنے سے پہلے سوچنا ہو گا۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ کسی ایک شخص کا حوصلہ بن جائیں کسی ایک کا درد بانٹ لیں اور اسے کسی اور کا ہمدرد بننے کا موقع دیں سوچا جا سکتا ہے اس بارے میں تو سوچیے کیا آپ روح کو کھو دینا چاہتے ہیں جس نے سانس بند ہو جانے کے بعد جسم غائب ہو جانے کے بعد بھی قائم رہنا ہے وہی اصل ہے ہمارے الفاظ کسی کو اسی کی روح سے جدا نا کر دیں بندے کا روح سے رابطہ رہنا ضروری ہے تو ہم روح سے رابطہ کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی جینے کا موقع دیتے ہیں۔


Post a Comment

Previous Post Next Post