Intezaar Written By Zunaira Anjum

Intezaar Written By Zunaira Anjum

Intezaar Written By Zunaira Anjum


انتظار

 از_قلم_زونیرا انجم

 

****

"امی مجھے بھوک لگی ہے ۔" بارہ سالہ فردوس نے اپنی ماں کا آنچل پکر تے ہوئے کہا ۔

" بھوک۔ ۔۔" بختا‏ں اماں بس اتنا ہی تو کہہ پائی تھی ۔اس ایک بھوک کے لفظ سے ہی تو ان کی ساری زندگی جڑی ہوئی تھی ۔اپنی بچی کے اس ایک جملے نے جیسے ان کو اپنی جگہ فریز کر دیا تھا ۔انسان ساری زندگی اس بھوک کے گرد ہی تو گھومتا ہے ۔یہ بھوک ہی تو ہے اپنا آپ محور بنا کر خوش ہوتی ہے ۔کہیں اقتدار کی بھوک ،کہیں نفس کی بھوک ،کہیں پیار کی بھوک تو کہیں سکون کی بھوک ۔

"امی !" فردوس نے اپنی ماں کو ایک جگا تکتا پا کر دوبارہ پکارا ۔بختاں اماں کی نظر اپنی معصوم بیٹی کے چہرے پر جم سے گئیں ،لال گال، گلابی ہونٹ اور سرمئی گول آنکھیں ،کا لے گھنگھر یالے بال ،انہیں اپنی بیٹی حور سے کم نہ لگی ۔وہ جب پہلی بار اس دنیا میں آئی تھی تو انہوں نے ہی اس کا نام فردوس رکھا تھا ۔انہوں نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس کا گول چہرہ ہاتھوں میں لے کر اس کی پیشانی کا بوسہ لیا ۔

" امی بھوک لگی ہے ۔"

فردوس نے اپنی امی کو اپنی جانب متوجہ دیکھ کر دوبارہ کہا مگر اس بار آنسوؤں کی آمیزش بھی شامل تھی۔پچھلے تین دن سے اس نے کچھ نہ کھایا تھا۔اپنے حالات اور اردگرد کے ماحول نے اسے وقت سے پہلے بڑا کر دیا تھا,تو پھر کیسے وہ حالا ت سے سمجھوتہ نہ کرتی مگر چوتھے دن اس کی ہمت جواب دے گئی,اور وہ اپنی ماں کے پاس آ کھڑی ہوئی۔

نہ پتر!میرا سوہنا پتر! تو نہ رو……رو رو کر اپنا صبر ضائع نہ کر۔اللہ سوہنا صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔دیکھ!تیرا صبر ضائع نہیں جائے گا۔تو دیکھ تیرا شیر بھائی آنے ہی والا ہو گا,وہ آئے گا نہ تو تیرے لیے کھانا بھی لائے گا۔“  بختاں اماں نے فردوس کو ہمیشہ کی طرح بہلایا تھا۔

کب آئے گااماں؟ایک ہفتہ ہو گیا اسے گئے ہوئے۔“ اس نے جیسے شکایت کی۔

ایک ہفتہ“ بختاں اماں تو ان دو لفظوں پر حیران رہ گئی تھی۔ کرفیو میں ایک ہفتے کا اور اضافہ ہو گیا تھا,مگر سب کچھ تو ویسے کا ویسا ہی تھا۔کچھ بھی تو نہیں بدلہ تھا,نہ یہاں کے حالات اور نہ ان کی حالت۔کتنا عرصہ بیت گیا تھا اب انہوں نے یاد رکھنا بھی چھوڑ دیا تھا پہلے پہل وہ ہلکی سی امید کی رمق پر خوش ہو جایا کرتی تھیں,مگر جیسے جیسے بڑی ہوتی گئیں,ویسے ویسے ان کی امید بھی کم ہوتی چلی گئی۔اس سے پہلے کہ وہ اپنے خیالوں میں مگن کہیں دور نکل جاتی,باہر سے آتی احتجاجی ریلے کی بلند وبالا آوازوں نے انہیں واپس ان کی موجودہ حالت میں لا پھینکا۔آوازوں کی وجہ سے فردوس اپنی ماں کے گرد لپٹ گئی۔

شش ……خاموش……آواز نہیں۔

بختاں اماں نے فردوس کو تسلی دینے کے ساتھ ہی کمرے میں موجود  واحد بتی کو بھی گل کر دیا۔انہوں نے فردوس کو کمرے میں موجود ٹرنک کے نیچے کھودے گئے ایک چھوٹے سے گڑھے میں بیٹھا دیا,اور اس  کے اوپر لکڑی کا جالی دار دروازہ رکھ کر اسے واپس خالی ٹرنک سے تقریباََ آدھا بند کر دیا ,وہ بھی اس زاویے سے کہ نیچے کوئی ہو تو وہ نظر نہ آسکے مگر اندر والا تھوڑی سی کوشش سے باہر کیا ہو رہا ہے دیکھ سکتا ہے۔کمرے میں موجود واحد بتی تو گل کر دی گئی تھی مگر کمرے میں اوپر کی جانب ایک چھوٹا سا روشن دان تھا جس کی وجہ سے سورج کی روشنی اندر آ رہی تھی اور ساتھ ہی منتشر ہجوم کی آوازیں بھی۔وہ دروازے کو مضبوطی سے بند کرنے کے بعد وہیں دروازے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور ساتھ ہی انّ للہ وانا الیہ راجعون  کا ورد شروع کر دیا۔

ہم چھین کے لیں گے ……آزادی

میرے خون سے لکھنا……آزادی

یہ نعرے پرانے نہیں تھے۔انہوں نے بچپن سے ہی تو سنے تھے۔ان کو سنتے سنتے ہی تو بڑی ہو ئی تھی۔پہلے باپ,پھر شوہر,اوراب بیٹا بھی ان نعروں اور اس ہجوم کا سربراہ تھا۔مقبوضہ کشمیر میں رہتے ہوئے انہیں ان سب کی اب تک عادت نہ ہو پائی تھی,وجہ صرف اور صرف حکومت سے بغاوت اور آزادی کی تڑپ ہونا تھی۔اسی آزادی کی تڑپ پر پہلے ان باپ,پھر شوہر قربان ہوا اور اب بیٹا بھی اسی راہ پر چل نکلا تھا۔پہلے بھی حالات کہاں بدلے تھے کمگر اب کچھ زیادہ ہی خراب ہو گئے تھے۔چھ ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چلا تھا۔ہر طرف سے پابندی لگا دی گئی تھی۔کھانا,پینا,کپڑے,خوانچہ فروشوں,غرض کہ ہر طرف سے زندگی کی چہل پہل رک سی گئی تھی۔نہ ختم ہونے والا کرفیو شروع ہو چکا تھا اور ہندوؤں کی مقبوضہ کشمیر کو اکھنڈ بھارت بنانے کی خواہش پوری ہو گئی تھی۔یہاں پہلے کہاں ان کی عزت وآبرو اور جان ومال محفوظ تھا جو وہ اب شکایت کرتے۔آج بھی ویسے ہی حالات ہیں جیسے پچھلے کئی سالوں سے تھے۔یہ ہی وجہ تھی جو انہوں نے فردوس کو نیچے چھپا دیا تھا کہ اگر وہ ظالم اندر آ بھی جائیں تو اس تک نہ پہنچ سکیں۔ ہجوم کی آواز تیز سے معدوم ہوتی چلی جا رہی تھی,شاید ان کا ارادہ مین سڑک تک جانے کا تھا,جہاں وہ سب ان کی راہ دیکھتے ہوں گے۔تب ہی انہیں فائرنگ کی آواز سنائی دی اور ان کی زبان سے اپنے بیٹے کی لمبی عمر کے لیے دعائیں کرنے لگی۔ ہر طرف شور اٹھ گیا,جس نے کمرے میں موجود دونوں نفوس کو ڈرا دیا۔بختاں اماں نے کسی کے صحن میں کودنے کی آواز سنی۔وہ جو کوئی بھی بہت آہستگی سے قدم اٹھاتا اندر  آرہا تھا۔ خوف کی ایک لہر ان کے دل میں اتر گئی۔ان کی انکھوں سے آنسوں جاری تھے۔اگر کسی کے دعا کر رہی تھیں تو صرف اپنے بچوں کی سلامتی,تب ہی دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔

امی!“

اپنے بہادر,شیر جیسے بیٹے کی آواز سن کر وہ نئے سرے سے زندہ ہو گئی تھی,انہوں نے فوراََ سے پہلے دروازہ کھول دیا۔وہ جلدی سے اندر آیا اور ساتھ ہی دروازہ بند کر دیا۔اس کے ہاتھ میں ایک شاپر موجود تھا۔جانے کتنی دیر وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے,دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔وہ اپنے بیٹے کو سینے سے لگائے روئے جا رہی تھی۔ان کے بیٹے کا حال بھی ان سے مختلف نہ تھا۔بیٹے کو دیکھ کر وہ سب پریشانی بھول گئی۔مرد کا سہارا ہی ایسا ہوتا ہے,اس کی موجودگی میں عورت خود کو محفوظ سمجھتی ہے,پھر چاہے وہ باپ ہو,بھائی ہو یا بیٹا ہو,وہ ہر طرح سے خود کو مطمئن اور محفوظ پاتی ہے۔فردوس کا حال بھی ان سے مختلف نہ تھا۔وہ کب سے اندر بیٹھی بھائی کو تکے جا رہی تھی۔اسکا علی بھائی,اسکا محافظ شیر بھائی۔

معاف کر دیں امی!مجھے دیر ہو گئی۔

علی نے ماں سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے ان کے ہاتھ پکڑ کر معافی مانگی۔بختاں اماں جانتی تھی ان سب میں اس کا قصور نہیں ہے,آزادی کے حامیوں کا سردار ہے ان کا بیٹا,اسے اتنی مشکل تو ہونی تھی۔

تو ٹھیک ہے نہ؟“ انہوں نے علی کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔وہ مسکرا اٹھا۔

پہلے نہیں تھا پر اب ہوں۔“ علی نے ماں کے ہاتھ پر بوسہ دیتے ہوئے کہا۔

امی! فردوس……“

علی نے کسی خدشے کے تحت با ت کو ادھورا چھوڑا,جبکہ بختاں اماں نے ٹرنک کی جانب کی اشارہ کیا۔علی نے آہستگی سے اٹھ کر ٹرنک ایک سائیڈ پر کیا تو اسے وہاں اپنی بہن آنکھوں میں آنسو لیے دکھائی دی۔

اس سے پہلے کے وہ اسے باہر نکالتاباہر کچھ قدموں کی آواز آئی۔اس نے ماں کو راستے سے ہٹایا اور ٹرنک کو دوبارہ پیچھے کر دیا مگر اتنا کہ فردوس خود باہر آ سکے۔اس سے اپنی جیب میں پسٹل کونکال کر اسے میں گولیا ں چیک کیں اور ماں اور بہن کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ دو ہندو سپاہی کمرے میں داخل ہوئے تھے اس سے پہلے کے وہ کمرے کی تلاشی لیتے علی نے پسٹل کی پشت سے ان کے ان کے سر پر وار کیا۔ان میں سے ایک بے ہوش گیا,دوسرا شاید ابھی بھی ہوش میں تھا۔اس نے اس کے منہ پر وار کر کے اسے بھی بے ہوش کر دیا۔فردوس کو پہلی بار اپنی اماں کو بھائی کو شیر کہنے کی وجہ سمجھ آئی تھی۔بختاں اماں دروازے کی اوٹ سے باہر آ گئی۔ان کی نظر دور سے علی کا نشانہ لیتے ہندو پر پڑی۔وہ جلدی سے اس کے آگے آ گئیں۔گولی کی آواز اور اپنی ماں کے اپنے پیچھے بھاگ کر آنے سے وہ چونک گیا۔اس نے جلدی سے پسٹل اٹھا کر مخالف کو دیکھا,وہ دو لوگ تھے انہوں نے ایک کے بعد ایک گولیاں چلاتے ہوئے بختاں اماں کو نڈھال کر دیا۔

امی!“ بیک وقت فردوس اور علی نے چلا کر انہیں اپنی جانب متوجہ کرنا چاہا۔اس سے پہلے کہ وہ ہندو  اپنے ساتھیوں کو بلاتے علی نے ایک کے بعد ایک گولی سے ان دونوں کو جہنم واصل کر دیا۔پورے گھر میں مو ت کی سی خاموشی تھی۔ان کی ماں,ان کی جنت ان سے بچھڑ گئی تھی۔فردوس نے ہلکا سا زور لگایا تو ٹرنک اپنی جگہ سے سرک گیا۔وہ فوراََ باہر آئی,اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔وہ بھائی کی برابر میں بیٹھ گئی,وہ دونوں اپنی ماں سے بچھڑنے پر رو رہے تھے۔تب ہی ایک شخص اندر آیا۔

سر! جلدی کریں,سارے کافر  یہاں ہر گھر چھاننے آ رہے ہیں,ہمیں جلدی نکلنا ہو گا۔

اس نے جیسے اطلاع دی تھی۔علی نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر پاس بیٹھی بہن اور ابدی نیند سوئی اپنی ماں کو,جن کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ایسی مسکراہٹ جو صرف آزادی نصیب کرنے والوں کو ملتی ہے۔وہ آزاد ہو گئی تھی,ان کا انتظار ختم ہوا,وہ انتظار جس کے اختتام کی راہ  تکتے ہوئے انہیں بیس سال ہو گئے تھے۔جانے کتنے ہی بچے روز اپنی ماؤں سے بچھڑتے ہیں,اولاد ماں باپ سے۔علی نے اپنی ماں کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے انہیں اپنی گود میں اٹھا لیا۔فردوس نے ماں کے آنچل کو مضبوطی تھام لیا۔اس انجان شخص کے پیچھے چلتے وہ باہر آ گئے,جہاں کچھ لوگوں نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا۔سب ہی افسر تھے۔وہ سب آگے چل پڑے,پیچھے صرف خالی مکان رہ گیا,جہاں کچھ دیر پہلے زندگی کی رمق تھی,اب صرف ویرانی تھی۔

٭٭٭٭٭٭

(ختم شد)


Post a Comment

Previous Post Next Post