Matloob E Awwal By Quratulain

Matloob E Awwal By Quratulain

Matloob E Awwal By Quratulain

مطلوب اول

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ پاک فرماتا ہے کہ انسان کا ہر نیک عمل خود اسی کے لیے ہے مگر روزہ کہ وہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ گناہوں کی ایک ڈھال ہے، اگر کوئی روزے سے ہو تو اسے فحش گوئی نہ کرنی چاہئے اور نہ شور مچائے، اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا لڑنا چاہئے تو اس کا جواب صرف یہ ہو کہ میں ایک روزہ دار آدمی ہوں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے، روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوں گی ( ایک تو جب ) وہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور ( دوسرے ) جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے کا ثواب پا کر خوش ہو گا۔ (صحیح بخاری شریف)

بے شک اللہ ہی واحد ذات ہے جو انسان پر اپنی رحمتیں نوازتا چلا جاتا ہے.

ہم دنیا کی مشکلات اور الجھنوں میں الجھے ہوتے ہیں اور پھر اچانک سے اندھیرے میں چراغ روشن ہوتا ہے اور اک پیغام آتا ہے کہ مبارک ہو اللہ نے تمھاری مشکلات کو آسان کر دیا ہے..

رمضان بھی دنیا میں کھو کر اللہ کو اور آخرت بھول جانے والوں کیلئے ایک الارم ہے ایک پیغام ہے کہ اپنے اصل کی طرف لوٹنا ہی انسان کا مقصد ہے.

احسان پر احسان کئیے چلے جانا.

اللہ کے سوا کون ہے جو انسان سے اتنی محبت کرے؟

اسلام انسان کو حرام کاموں سے روکتا ہے لیکن رمضان واحد مہینہ ہے میں مسلمانوں کو مقرر اوقات تک حلال کھانوں سے بھی روک دیا جاتا ہے۔

صبح سحری سے لے کر مغرب کے وقت تک موذن کی اللہ اکبر کی پکار سننے تک ایک مسلمان کچھ کھائے پئیے بنا سارا دن گزار دیتا ہے کوئی شکوہ نہیں کرتا خیانت نہیں کرتا اور نہ ہی تنہائی میں اپنی زبان کو دنیاوی لذیذ کھانوں کی لذت چکھنے دیتا ہے۔

ایسی ہی تو مخلصی چاہئے اللہ کو اپنے بندوں میں اتنا مخلص ہونا کہ تنہائی میں بھی حرام اور خیانت کی طرف نہ بہکنا اور یہاں تو پھر حلال سے رکنے کا حکم ہے۔

دن بھر بھوکے رہنے سے انسان کو احساس ہوتا ہے ان غریب اور ضرورت مند لوگوں کا جو دو وقت کی روٹی کے بھی محتاج ہوتے ہیں جن کے گھر کئی کئی راتیں چولہا نہیں جلتا اور جن کے بچے ایڑیاں رگڑتے آنسو بہاتے سو جاتے ہیں خودداری میں ان کے سفید پوش والدین لوگوں کے آگے دست سوال نہیں کرتے۔

روزہ سکھاتا ہے کہ ان ضرورت مند اور سفید پوش لوگوں کا خیال رکھا جائے اور ان کے مانگنے سے پہلے ہی انھیں دے دیا جائے اور احسان بھی نہ جتلایا جائے بے شک اللہ اسکا بہترین اجر دینے والا ہے۔ اگر اللہ چاہے تو وہ ان غریب لوگوں کو بھی بے انتہا نواز دے لیکن اس کے ہر فیصلے میں حکمت پوشیدہ ہے ایسی حکمت جو انسان کی عقل اور سمجھ سے بالاتر ہے۔

روزہ سکھاتا ہے کہ اگر اللہ کے حکم پر ہم سارا دن حلال غذا سے رک سکتے ہیں اور لذیذ کھانوں کو چھوڑ سکتے ہیں تو حرام کیوں نہیں۔۔؟

یہ مت سوچیں کہ اللہ آپ کو باندھ رہا ہے یہ سوچیں کہ اللہ آپ کو پروٹیکٹ کر رہا ہے

اور جو اللہ کیلئے حرام چھوڑ دے اللہ اسے حلال میں بہترین لذت دیتا ہے۔

خالص پن کیا ہوتا ہے اور مخلصی کسے کہتے ہیں۔کسی کیلئے مکمل خود سپردگی کیا ہوتی ہے؟اور امانت کی پاسداری کا لیول کیا ہوتا ہے؟

رمضان میں پتہ چلتا ہے کہ اللہ صورتوں اور مال کو کیوں نہیں دیکھتا وہ دلوں اور اعمال کو کیوں دیکھتا ہے۔اگر زبان سارا دن حلال کھانوں سے رک جاتی ہے تو دل کو بھی تو حرام کاموں سے رکنے کا کہا گیا ہے اس سے بھی تو مطلوب ہے کہ اگر زبان نے حلال کا روزہ رکھا ہے تو دل حرام کا روزہ رکھے یعنی حرام کاموں سے خود کو بچا کے رکھے آنکھ بھی حرام مناظر سے پردہ کرلے ہاتھ بھی کسی مظلوم پر نہ اٹھیں قدم بھی حرام کی طرف مت اٹھیں زبان نے اگر حلال کھانا چھوڑا ہے تو دل بھی تو حرام کرنا چھوڑ دے یہی ہے مطلوب اول پاکیزہ دل خالص نیت اور کوشش۔۔

اللہ کو بس خالی اور بھوکے پیٹ ہی تو نہیں چاہئے اور نہ ہی خشک اور پیاسی زبانیں مطلوب ہیں۔اسے تو دل کی مخلصی مطلوب ہے جسمانی روزہ رکھوا کر اصل میں اللہ روحانی پاکیزگی کروانا چاہتا ہے انسان کی ۔۔

سارا دن حلال ہونے کے باوجود اس سے دور رہنا انسان کو چینخ چینخ کر پکارتا ہے کہ تم اللہ کیلئے حلال چھوڑ سکتے ہو تو حرام کیوں نہیں۔...؟؟

کیا حرام اتنا اہم ہے کہ ہم حلال کو چھوڑ کر بھی حرام کو اپنانا افورڈ کر سکتے ہیں بالکل نہیں...

سارا دن روزہ رکھ کر غلط کام کرنے دوسروں کے حق میں کمی کرنا،کسی کی مدد کر کے احسان جتلانا،غیبت، جھوٹ،چغلی،طعنہ کشی کرنا اور پھر سب سے بڑھ کر کسی کا دل توڑ دینا...کیا یہ ایسے کام نہیں ہیں جن کا ہمیں روزہ رکھ لینا چاہئے۔

اللہ دل کی پاکیزگی کو دیکھتا ہے اور آنکھ کی حیا اور امانت کی پاسداری کو دیکھتا ہے وہ یہ نہیں دیکھتا کہ آنکھ میں کتنا پیارا کاجل لگا ہے ہاں لیکن وہ آنکھ سے گرنے والا آنسو جو خدا کی محبت،گناہ کی ندامت یا دعا میں بہایا گیا آنسو بہت پیار سے دیکھتا ہے.

اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب دوقطرے ہیں۔

ایک وہ جو اللہ کے ڈر سے آنکھ سے نکلے(آنسو کا قطرہ) اور ایک جو اللہ کی راہ میں جسم سے نکلے(خون کاقطرہ)

اللہ نے دنیا میں کئی گنا وسیع و عریض ترین سمندر بنائے ہیں لیکن وہ ان کو اس نظر سے نہیں دیکھتا جتنی پیار کی نظر سے وہ آنکھ سے بہے گئے اس قطرے کو دیکھتا ہے جو اسکے لئے بہایا گیا ہو۔

 اللہ تو سچے بندوں کو تھام لیتا ہے اس کے نزدیک حسین بندے تقویٰ والے بندے ہیں.جو ڈرتے رہتے ہیں اللہ سے جن کے دل ڈر جاتے ہیں قرآن کی آیات کو سن کر اور جن کی آنکھیں آنسو بہاتی ہیں وہ جو ہمہ تن محو ہوتے ہیں رب تعالیٰ کی یاد میں۔

وہ دیکھتا ہے کہ کون سے بندے رحمٰن کے بندے ہیں اور کون سے شیطان کے بندے ہیں اور پھر وہ چن چن کر کھرا کھوٹہ الگ کر دیتا ہے یہ دیکھ کر کہ کون حرام کو چھوڑ دیتا ہے اور کون حلال چھوڑ کر بھی حرام چھوڑنے کی کوشش نہیں کرتا۔

کوشش۔۔۔ہاں کوشش۔۔۔وہ کوشش ہی تو دیکھتا ہے پرفیکشن تو نہیں چاہئے اسے وہ خود پرفیکٹ ہے اسے تو بس بندے سے کوشش مطلوب ہے ایسی کوشش جو ہر خیانت سے پاک ہوجو خالص اللہ کیلئے ہو اور پھر وہ دے دیتا ہے ہر وہ چیز جس کی انسان نے کبھی کوشش کی ہوتی ہے۔

اس دنیا میں مشکل آسان کچھ نہیں ہے بس جو جس کی کوشش کرتا ہے وہ چیز اسکو دے دی جاتی ہے ہاں لیکن۔۔کچھ امور میں خدا کی مرضی بندے کی مرضی سے مختلف ہوتی ہے اور بندہ خدا کی حکمت کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہاں بس راضی رہنا اللہ کی رضا میں یہی مطلوب ہے بندے سے بھی۔۔اور کچھ کاموں میں تقدیر حائل ہو جاتی ہے۔۔اور تقدیر ۔۔۔دعا ہی واحد چیز ہے جس جو تقدیر کو بھی بدل دیتی ہے۔۔جو ڈوبتی کشتی کو پھر سے تیرنا سکھاتی ہے ۔۔

جو اندھیرے کو روشنی میں بدل سکتی ہے۔۔

دعا ہی مشکل کو آسان کیا کرتی ہے۔۔

اور دعا ہی ناممکن کو ممکن کا لباس پہنایا کرتی ہے۔۔

کوشش کے بعد دعا ہی تو خواب کو تعبیر بنایا کرتی ہے۔۔

اور دعا ہے انسان کو رب کے قریب کرتی ہے۔

روزہ کی حالت میں دعا مانگنے کا ہی تو کہا گیا ہے.غروب آفتاب کے وقت موذن کی پکار سے چند لمحے پہلے ہی خدا کی یاد میں مشغول دل جو ہاتھ اٹھا کر آنسو بہا کر سوال کرتے ہیں اور وہ بھی جو دل ہی دل میں اللہ سے سوال کرتے ہیں کہ یا اللہ جس طرح ہم نے تیرے لئے سارا دن حلال چھوڑا اسی طرح اپنی رضا کے لئیے ہمیں حرام چھوڑنے کی توفیق دے دے کہ ہم حرام چھوڑنے کی کوشش کریں ۔۔کوشش۔۔ہاں پہلا قدم سوچ اور دعا کے بعد کوشش ہی تو ہوتا ہے.

کہانیاں نیتوں سے شروع ہوتی ہیں ہیں اور کن پہ مکمل ہوجاتی ہیں۔۔

اپنی نیتوں کو خالص کریں اعمال حسنات میں بدلتے جائیں گے

جو پانا چاہتے ہو وہ ضرور ملے گا لیکن اس سے پہلے وہ کھونے کا حوصلہ تو رکھو جو تم سے مطلوب ہے

مفت میں کچھ نہیں ملتا آپ کو کچھ قربان کرنا پڑتا ہے۔کمفرٹ ذون میں رہ کر آپ کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے۔۔

ہر خواب کمفرٹ ذون سے باہر نکل کر پورا کیا جاتا ہے۔نفس کو قابو کرنا ہے تو محنت کرنی ہوگی اللہ کے احکام پر عمل کرنا ہوگا تب ہی آپ منزل کو پا سکتے ہیں۔

اگر دنیا میں اللہ کی فرمانبرداری کرنے اور اللہ کے حکم پر عمل کرنے کے بعد انعام میں عید کی نوید سنائی جاتی ہے کہ مبارک ہو تمھیں تم نے اللہ کے حکم کو مانا تم کو خوشی کا دن دیا جاتا ہےخوب کھاو پیو اور صاف لباس پہنو لیکن حد سے تجاوز نہ کرو جو پورے ماہ میں سیکھا آج کے دن بھی اسی پر عمل کرنا اور غریبوں کو بھی اپنی عید میں شامل کرنا۔

اگر دنیا میں اتنا اجر ہے تو وہ لوگ جو پوری زندگی صرف اللہ کیلئے حرام سے دور رہتے ہیں کیا انکو یونہی خالی دامن چھوڑ دیا جائے گا؟ نہیں..بلکہ آخرت میں انکا بہترین استقبال کیا جائے گا۔۔

مرحبا کہہ کر انکی عزت و تکریم کی جائے گی ۔اس دنیا میں مشکلات پر صبر کرنے اور اللہ کے حکم کی تعمیل کرنے ،حرام سے بچنے والوں کیلئے آخرت میں بےپناہ اجر ہوگا۔انھیں فرشتے آگے بڑھ کر سلام کریں گے۔۔

انھیں کہا جائے گا مبارک ہو..!

آج تم پر کوئی خوف نہیں اور نہ کبھی تم غمگین ہو گے.

 اور وہ عید کبھی نہ ختم ہونے والی عید ہوگی۔

 

تزکیہ نفس یقیناً سب سے مشکل کام ہے لیکن اس عمل کو مکمل کرنے کا بہترین وقت یہی ماہ کریم رمضان المبارک جس میں قدرتی طور پر آپ بہت بے بس اور اللہ کے قریب ہو جاتے ہیں ۔ آپ اپنے آپ کو اللہ کا محبوب بندہ بن سکتے ہیں

   بے شک اللہ ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو مخلص ہیں۔

اعتکاف۔۔۔۔برسوں سے سنتے آ رپے ہیں کہ رمضان کے آخری عشرے میں مسلمان اعتکاف بیٹھتے ہیں اور اللہ کی خوب دل لگا کر عبادتیں کرتے ہیں۔دنیا اور دنیا والوں سے بالکل بے تعلق ہو کر صرف اللہ سے اپنا تعلق مضبوط بناتے ہیں.

آخری عشرے کے وہ دس دن ایک ایسا بونس ہوتے ہیں مسلمانوں کیلئے جس میں وہ دنیاوی مسائل اور الجھنوں کو بھلا کر خالص اللہ کیلئے خود کو وقف کر دیتے ہیں۔

رمضان کے پہلے 20 دن مقرر وقت کیلئے حلال کھانوں سے روکا جاتا ہے اور حرام کاموں سے رکنے کو کہا جاتا ہے لیکن رمضان کے آخری 10 دن جس میں کچھ اور حلال کام حلال رشتے ان سب سے بھی رک جانے کو کہا جاتا ہے جو فرض نہیں مگر نفل کے درجے میں آتا ہے لیکن ثواب فرض کے برابر ہے۔

اگر تمھیں کسی بات ہر شک ہو کہ کروں یا نہ کروں تو یہ دیکھو کہ وہ کام حرام تو نہیں اور اللہ کی ناراضگی کا سبب تو نہیں اگر ایسا نہیں تو کر لو کیونکہ اگر اللہ نے وہ نیک کام فرض نہیں کیا تو بھی وہ اسکا اجر تمھیں ضرور دے گاکیونکہ ہر نیک عمل اللہ کا پسندیدہ عمل ہوتا ہے اور اللہ کے نیک بندے بننے کیلئے ہر نیک عمل کو کر گزرنے کا حوصلہ رکھیں۔

آخری عشرہ شروع ہوتے ہی پردہ ڈال دیا جاتا ہے دنیا اور اپنے درمیان۔

وہ رشتے جو بہت عزیز ہوتے ہیں ان سے بھی انسان تعلق نہیں رکھتا چند دن کیلئے وہ خود کو اللہ کےلئے اللہ کے سپرد کر دیتا ہے

وہ تمام کام جو اسکی دنیاوی ذندگی کیلئے ضروری تھے وہ سب کاموں کو اللہ کیلئے چھوڑ دیتا ہے یا پھر وہ خود کو اللہ کی عبادت کیلئے فارغ کرتا ہے۔

 

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ پورے سال میں اس ایک مہینے کے آنے پر کیوں اتنا اہتمام کیا جاتا ہے ؟

سب مسلمانوں کے دل کیوں یوں اچانک بدلنے لگتے ہیں؟

اچانک سے ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کیلئے سوفٹ کارنر بن جاتا ہے۔

ہم نیکیوں میں کیوں سبقت لینے کی کوشش کرتے ہیں؟

ہمارے اندر کا انسان اللہ کے قریب ہونے لگتا ہے..

کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اتنی سب نافرمانیوں اور گناہوں کے باوجود اللہ ہمیں پھر بھی نوازتا ہے اور نوازتا چلا جاتا ہے کیونکہ وہ بےنیاز ہے ان سب گناہوں سے جو ہم لوگ کرتے ہیں

اگر اللہ ہم سے اتنی محبت کرتا ہے کہ گناہوں کے باوجود ہم پر اپنی رحمت اور انعام کے دروازے بند نہیں کرتا ہے تو کیا اس کا ہم پر اتنا بھی حق نہیں کہ ہم صرف اس کیلئے خود کو بدل دیں صرف اس مہینے میں نہیں بلکہ اپنی زندگی میں آنے والے ہر ماہ کو ہم یہی سمجھیں کہ اللہ کا انعام ہے تو زندگی کتنی خوبصورت ہو جائے سارے مسئلے حل ہو جائیں

ہم شکوے شکایتیں کرنا چھوڑ دیں

نیکیوں میں آگے بڑھیں اور سب کو ساتھ لے کر چلیں تو آپ کو نہیں لگتا کہ آپ کی دنیا خوبصورت ہو جائے گی..؟؟

 اور آپ کے ساتھ شاید کسی اور کی بھی..

 

اٹھاو قدم بڑھو رب کی جانب

یہ ماہ صیام ہے برکتوں سے بھرا

پھیلا کے جھولی بھر لو اس میں

خدا کی محبت اور اسکی رضا

یہی تو ہے مطلوب اول

دل ہے جسکا اک آئینہ

نور سے روشن شفاف ہر دم

جو گزر گیااب توبہ کرو

یہ وقت اب بھی تمھارا ہے

چند رہ گئے ہیں ایام جو

ان کو اپنے حق میں بہتر کرو

چھوڑ دو دنیا چند روز کیلئے

پہلے اپنے رب کو تم راضی کرو

وہ دے گا تم کو ہے جو اس سے بہتر

اور یہ بھی جس کی ہے تم کو چاہت

اٹھاو قدم بڑھو آگے ذرا

تھام کے سب کو بناو اک قافلہ

اور بن جاو دین کے مددگار تم

وہ بن جائے گا تمھارا حوصلہ

اور نوازے گا تم کو راز حقیقت

نہ پڑو تم کمزور اتنا

کہ شیطان تم پہ ہسنے لگے

بتاو اسے کہ کون ہو تم

اللہ کے بندے جو ڈرتے نہیں

رب کے سوا کسی کے آگے جھکتے نہیں

اٹھاو قدم بڑھو رب کی جانب

اٹھاو قدم بڑھو رب کی جانب

ازقلم قرةالعین


Post a Comment

Previous Post Next Post