Shehar E khamoshan Romantic Novel By Qanita Khadija
Shehar E khamoshan Romantic Novel By Qanita Khadija
’’آپ کا دماغ خراب ہوگیا ہے مسٹر شیخ۔۔۔۔۔
میں جارہی ہوں گھر واپس۔۔۔۔۔ اور آپ پر اور آپ کے اس گارڈ پر نا صرف مجھے حراساں
کرنے بلکہ بیچ راہ میں ایک معصوم انسان کی جان لینے کا پرچہ بھی کٹواؤ گی‘‘ رستم کوو
دھمکی دیتی وہ دروازے کی جانب مڑی تو رستم نے آنکھوں سے بہادر خان کو اشارہ کیا جس
نے سر خم کرکے انا کی کلائی دبوچ لی اور اسکا ہاتھ زور سے کھینچے اسے اوپر رستم کے
پاس لیجانے لگا
انا نے نجانے کتنے وار کیے
بہادر خان کے ہاتھ پر مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا
بہادر خان نے ایک جھٹکے سے
انا کی کلائی چھوڑی تو وہ جھٹکا کھاتی رستم کے سینے جالگی۔۔۔۔۔۔ جس نے ایک بازو سے
اسکی کمر تھامی اور دوسرے سے اسکے بالوں کی پونی نکالی۔۔۔۔۔۔ لمبے بال ابشار کی مانند
پیچھے کمر پر پھیل گئے تھے۔۔۔۔ بہادر خان تو سر جھکاتا وہاں سے چلا گیا جبکہ انا نے
رستم کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کی تو اسنے مزید گرفت کو تنگ کردیا۔۔۔۔۔۔ اسکی گردن
میں منہ چھپا لیا۔۔۔۔۔۔ انا کی تو آنکھیں حیرت سے پھیل گئی۔۔۔۔۔ اسے رستم کے ارادے
ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ کر پاتی رستم کے ہونٹ اسکے ہونٹوں پر
آن ٹھہرے تھے۔۔۔۔۔۔ رستم کی گرفت مزید سخت ہوگئی۔۔۔۔۔۔ وہ انا کو سزا دے رہا تھا اسے
ٹھکڑانے کی اسے تکلیف دینے کی
انا نے پورا زور لگا کر خود
کو رستم سے پرے دھکیلا اور ایک تھپڑ کھینچ اس کے منہ پر دے مارا۔۔۔۔۔۔ رستم کے چہرے
پر یکلخت سرد مہری چھائی۔۔۔۔۔ اسے انا کے کھلے بالوں کو مٹھی میں دبوچا تو انا کی چیخ
نکل گئی
’’آج تک کسی کی اتنی ہمت نہیں
ہوئی کہ وہ رستم شیخ کو انکار کرسکے اور تم نے یہ ہمت کی۔۔۔۔۔۔ اور تو اور مجھ پر ہاتھ
بھی اٹھایا‘‘ رستم غصے سے پھنکارا
’’ہاں اٹھایا ہاتھ میں نے
تم اور دوبارہ اٹھاؤں گی۔۔۔۔۔۔ انسان نہیں درندے ہوں تم سنا تم نے۔۔۔۔۔ درندے ہوں تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم کتنے گھٹیا اور گرے ہوئے انسان ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ شرم نہیں آتی تمہیں‘‘ انا بھی غصے سے
بولی