Na Hona Mujhse Juda Romantic Novel By Misbah
Na Hona Mujhse Juda Romantic Novel By Misbah
1st Sp 👇👇👇
کس کے لیے آنسوں بہا رہی ہیں لگتا ہے
بہت محبت تھی اپنے سابقہ منگیتر سے
غازیان کا طنز سنتے ہی فارینہ نے جھٹکے
سے سر اٹھایا
ایک پل کو تو غازیان اس نازک سی لڑکی
کے سوگوار سے روپ میں کھو سا گیا تھا سبز آنکھیں رو رو کر سرخ ہوچکیں تھیں وہ محویت
سے فارینہ کے خوبصورت سراپے میں کھویا ہوا تھا فارینہ کی آواز پر ہوش میں آیا
تم گھٹیا انسان تمھیں شرم نہیں آٸی مجھ سے شادی کرتے ہوۓ آخر کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا کیوں میں نے کیا بگاڑا تھا تمھارا
فارینہ غازیان کا گریبان تھامے ہذیانی
انداز میں چیخی تھی چہرے کے تیخے نین نقوش غصے میں مزید خطرناک لگ رہے تھے
غازیان کا چہرا خفت سے سرخ ہوگیا تھا
اس نے اپنی مضبوط ہتھیلی میں فارینہ کا منہ دبوچا تھا
میں گھٹیا انسان ہوں آپ کے اس گھٹیا
انسان سے تو بہتر ہوں جو بھری محفل میں آپ کو بے مول کر گیا اس کی طرح چھوڑ کر نہیں
گیا
میں نے محبت کی تھی آپ سے اس کا فرض
بھی ادا کیا ہے اور آج تو آپ نے گریبان پر ہاتھ ڈال لیا ہے میرے آٸندہ یہ حرکت کی تو اس کے بعد میں جو آپ کے ساتھ کروں گا اس
کی ذمہ دار آپ خود ہونگی سمجھیں
غازیان فارینہ کا منہ جھٹکے سے چھوڑتا
اس کے ہاتھ اپنے گریبان سے جھٹکتا سخت لہجے میں بولا تھا
تمھاری ہمت کیسے ہوٸی میرے ساتھ اس طرح پیش آنے کی فارینہ نے اپنا ہاتھ اٹھایا
ہی تھا لیکن وہ غازیان کے چہرے تک پہنچنے سے پہلے ہی غازیان پکڑ چکا تھا
نو واٸفی ایک دفع برداشت کرچکا ہوں آپ کی یہ حماقت ہر بار برداشت نہیں کروں گا اپنا
یہ نازک ہاتھ میری خدمت کرنے کے لیے سنبھال کر رکھیں ورنہ اس کو توڑنے میں مجھے دیر
نہیں لگے گی
غازیان درشت لہجے میں کہتا فارینہ کا
ہاتھ جھٹک چکا تھا
فارینہ دونوں ہاتھوں میں چہرا چھپاۓ دوبارہ رونے میں مصروف ہوگٸ تھی
یہ سوگ بعد میں منا لینا پہلے اٹھیں
یہ کپڑے چینج کریں زہر لگ رہا ہے مجھے اس وقت آپ کا یہ روپ جو کسی اور کے لیے سنوارہ
گیا تھا جاٸیں چینج کرکے آٸیں
2nd Sp 👇👇👇
رات کی تاریکی میں وہ گرے پینٹ سیاہ
شرٹ میں ملبوس ہونٹوں میں سیگریٹ دباۓ سی ویو کے
کنارے کار کے بونٹ پر بیٹھا دنیا سے ناراض معلوم ہورہا تھا جبکہ سیاہ ٹاٸی اور گرے کوٹ سمندر کی ریت کی زینت بنے ہوۓ تھے
براٶن آنکھیں سرخ تھیں جیسے ان کو جانے کب سے نیند نصیب نہ ہوٸی ہو گھنے سیاہ بال سمندر سے آتی ٹھنڈی ہوا سے لہرا رہے تھے
گلابی ہونٹ سیگریٹ پی پی کر اپنا اصلی رنگ کھو چکے تھے
سمندر کی لہروں سے برپا ہونے والا شور
بھی اس کے اندر کا شور کم کرنے میں ناکام ثابت ہورہا تھا
اس کی دھڑکنیں اس سے چیخ چیخ کر کہہ
رہیں تھیں
”تم میری ہو تم میری ہو نہ ہونا مجھ سے
جدا“
” تمھارا دماغ تو ٹھیک ہے بکواس بند
کرو اپنی ارے عمر کا نہیں تو رشتوں کا ہی پاس رکھا ہوتا گھن آتی ہے مجھے تم جیسے انسان
سے چلے جاٶ میری نظروں کے سامنے سے میں تمھارا چہرا نہیں دیکھنا چاہتی
گھٹیا انسان “
Yeh complete novel kaha se milega
ReplyDelete