Mosam E Khizan By Alima Zafar

Mosam E Khizan By Alima Zafar

Mosam E Khizan By Alima Zafar

علیمہ ظفر

موسم خزاں

ہُدیٰ پودوں کو پانی دے رہی تھی۔یہ اس کا روز کا معمول تھا۔پودوں سے محبت اس کو دادی سے ملی تھی۔گھر کے باقی مکین کو ان سب میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ گھر کا ایک حصہ پودوں پر مشتمل تھا۔

اس کی بےبے کی جب شادی ہوئی تھی اس وقت یہ گھر بالکل اجاڑ سا تھا۔مگر بے بے کی لگن اور محنت نے گھر کو گلستان بنا دیا تھا۔مین گیٹ سے داخل ہو تو دونوں طرف پھولوں کی کیاری پر نظر پڑتی۔ ہر طرف ہریالی اور اس ہی ہریالی میں دو تین رکھے گئے پلنگ۔۔۔۔

گھر کا رہاشی حصہ بھی کچھ اس طرح بنایا گیا تھا کہ ہر کمرے میں الگ الگ سورج کی روشنی آتی تھی۔ہر کمرے میں رکھے گئے پھولوں کے گملے گھر کم کسی پھولوں کی نرسری زیادہ لگتی تھی۔

جب تک بےبے کے جوڑوں نے ساتھ دیا بے بے نے یہ کام خود سر انجام دیا مگر جب ہمت طاقت نہ رہی تو اُن کے سارے پوتوں پوتیوں میں سے یہ کام خود ہی هد ھد نے اپنے سر لے لیا۔

ہُدیٰ !بس کر دو اور کتنا پانی دو گی۔پلنگ پر بیٹھی بےبے نے جاۓ نماز کو تہہ کرتے ہوئے کہا

خزاں کا موسم نہیں آنا چاہیئے۔ساری خوبصورتی زائل ہو جاتی ہے۔روہانسے ہوئے لہجے  ہُدیٰ نے کہا

خوبصورتی تو خزاں کے موسم میں بھی ہے۔بےبے نے اس کی طرف پیار سے دیکھتے ہوئے کہا

اب اس میں کیا خوبصورتی ہے؟بہار کے دونوں میں سب یہاں بیٹھ کر چائے پیتے ہیں۔گپیں لگاتے ہیں۔محفل سجتی ہے۔

اور اب دیکھیں میرے اور آپ کے علاوہ کوئی بھی نہیں یہاں۔سب اپنے اپنے کمروں میں۔پانی کا پائپ بند کرتے ہوئے بولی

جن کو چاہ اور لگن ہو وہ کسی بھی حال میں ساتھ نہیں چھوڑتے۔اپنی اور میری ہی مثال لے لو۔

ہر حسن حسین نہیں ہوتا۔ہر حسن آنکھوں کو خیرہ کر دینے والا نہیں ہوتا ہے

حسن تو حسن ہوتا ہے۔جو آنکھوں کو  اچھا لگے وہ حسن ہوتا۔مجھے تو ابھی بھی یہ منظر حسین لگ رہا ہے۔

یہ زمین پر بکھرے زرد پتے۔یہ سوکھے ہوئے درخت

یہ بے جان ہوتی شاخیں۔۔۔یہ بھی تو حسن ہے۔

اور مجھے تو یہ موسم زندگی دیتا ہے۔بے بے نے آخری بات ہولے سے بولی

زندگی۔۔۔وہ کیسے؟وہ بے بے کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی

اُمیدِ کی کرن ملتی ہے نہ

جیسے بھی حالات ہوں بدل جاتے ہیں۔

مگر اس درخت کی طرح مظبوطی سے کھڑے رہو۔آج خزاں کا موسم ہے تو بہار کا بھی تو آئے گا نہ

بس یہی چیز مجھے مایوس نہیں کرتیں اور اسلئے یہ موسم مجھے بہار سے بھی زیادہ بھاتا ہے۔

سمجھی یا نہیں۔۔۔۔بے بے  اس کا ہاتھ تھام کر بولی

اور اس نے مسکراتے ہوئے آسمان کو دیکھا

ختم شد


Post a Comment

Previous Post Next Post