Sabz Rang Ik Aas By Hina Irshad

Sabz Rang Ik Aas By Hina Irshad

Sabz Rang Ik Aas By Hina Irshad

"سبز رنگ اک آس"

ہماری زندگی میں سبز رنگ کی بہت اہمیت ہے۔ یہ رنگ آس و امید کی نشانی ہے۔ اسکا نظر آنا' ہماری امیدوں کو جگانے کا باعث ہے لیکن یہی رنگ کہیں نہ کہیں ہمیں اذیت میں مبتلا کرتا ہے۔

جب ہم کسی اپنے کی آس میں ہر کام پسِ پشت ڈال کر' دل و جان کو یکجا کر کے' میلوں کے فاصلوں پہ بیٹھ کر اسی کے انتظار میں' ہر لمحہ گزارتے ہیں تو  ہم پہ ان لمحوں میں بیتنے والی کیفیت دوسرا کوئی بھی شخص نہیں جان سکتا۔

لوگ کہتے ہیں کہ ہم محبت میں اپنی میں کو فنا کرتے ہیں جبکہ میں کہتی ہوں کہ عادتیں بھی ہماری ذات کو فنا کرتی ہیں۔

عادت دنیا میں پائے جانے والا اک خطرناک نشہ ہے۔ جو ہمارے پاس موجود لمحات کو بھی نگل لیتا ہے' اور اس میں سب سے زیادہ جو ہم گنواتے ہیں' اسکا تو کوئی ذمہ دار بھی نہیں ہوتا۔

اگر سبز بتی بجھی ہوئی ہو تو ہم بیشک انکے لیے اور زیادہ دعا میں مگن  ہوتے ہیں کہ شاید دوسرا شخص بھی ہم جیسی ہی کیفیت میں مبتلا ہوگا۔

پر واہ رے اے بندیاں تیری خوش گمانیاں

رسوا ہے اب ہر شے زمانے میں

ملیں گی تجھے اردگرد بہت سی نشانیاں

بقلم حناء ارشاد

ہماری امید تو تب ٹوٹتی ہے جب ہمارے بھیجیں ہوئے پیغامات کو √√ لگتا ہے۔ وہ √√ صرف پیغامات موصول ہونے کا نشان نہیں ہوتا بلکہ  یہ انکی طرف سے  ہمیں بھی واپس موصول کردہ پیغام ملتا ہے کہ انکے دل کے تخت سے خارج ہو چکے ہیں۔

ہم اس سب کے باوجود اس قدر ناداں بننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم پھر سوچتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ اسکا موبائل یا ٹیب کسی کے پاس نہ ہو کہیں موبائل یا ٹیب گم نہ ہوا ہو' بس  کہیں کسی کے لیے سوچتے ہوئے' ہم خود کو  دلائل دیتے ہیں۔ بھئی دل تو دل ہے ۔ جو اسکی مسند پہ برجمان ہو جائے تو جانے انجانے ميں اس سے کسی کو اتارنا آساں نہیں ہوتا۔جب تک ہمیں اسکا نعم البدل نہ مل جائے۔ کچھ  لوگ تو ہوتے ہی پروانہ صفت ہیں ۔

انہیں رشتے نبھانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اور کچھ لوگ اندیکھے رشتے بھی نبھانے جاتے ہیں۔

اندیکھے رشتے بنانے جتنے آسان ہیں۔ انہیں اپنی  عادات میں شامل کرنے کے بعد نبھانا اتنا ہی مشکل ہے۔

عادتیں تو ہمیں رلاتی و ہنساتی بھی ہیں۔ بعض اوقات ہمیں کسی کی عادت نہیں ہوتی لیکن کوئی شخص اپنی چاہ میں ہمیں اپنی عادت میں مبتلا کر کے آسانی سے چھوڑ جاتا ہے۔ بھئی عادی تو ہم انکے ہوتے ہیں ناکہ وہ ہمارے۔

 مجھے ان عادات و باتوں کا آج احساس ہوا کہ کسی کو یاد سے زیادہ دل میں آباد رکھنا کتنا اذیت کا عمل ہے۔

ہاں میں آج یہ مانتی ہوں کہ جب آج میں نے  تم سے جڑی یادوں کا گلا گھونٹ کر ان پہ فاتحہ پڑھنے سے پہلے جب مٹی ڈالنی چاہی تو' میں ریت کے ذرے کی طرح خود بکھر گئی۔

میں نے جب اپنے خوابوں کا گلا گھونٹتے ہوئے' اس پہ مٹی ڈال کر فاتحہ پڑھنی چاہی تو مجھے احساس ہوا کہ میرے ناتواں کندھوں پہ تو تمہاری یکطرفہ محبت کا بھی ماتم کناں ہے' جو شاید تمہارے صرف الفاظ تھے' اور وہ میرے لیے میرا سرمایہ حیات ہیں ۔

میں نے کبھی بھی تم سے محبت نہیں کی لیکن تمہارے الفاظ شاید میری روح جکڑ چکے ہیں۔

ہاں تب میں نے خود کو تمہارے لیے بنا آواز کے اپنی دھڑکنوں میں روتے سنا۔

میں تو ہمیشہ اس بات کی دعویدار تھی کہ موت بیشک ایک ہی دفعہ ہوگی۔ جوکہ برحق ہے لیکن وقت کی ستم ظریفی نے مجھے یہ اعتراف کروا ہی لیا کہ یک طرفہ عادت میں لپٹی محبت ہو یا محبت میں لپٹی عادت  ہو تو بھی' وہ آخری موت نہیں ہوتی۔

سسک کر تم بن موت کو میں نے قریب سے دیکھا

دیکھ آکر میرے قرب شناس وے

راحت ہے پھر بھی اک تیرے ملنے کی آس میں

از قلم حناء ارشاد





Post a Comment

Previous Post Next Post