Mohabbat Aur Qurbani Written By Muneeba Ghous

Mohabbat Aur Qurbani Written By Muneeba Ghous

Mohabbat Aur Qurbani Written By Muneeba Ghous

عنوان"محبت اور قربانی"

تحریر: منیبہ غوث

 

اس بار ہم چودہ اگست نہیں منائیں گے

لیکن کیوں؟؟؟

ہر سال تو ہم چودہ اگست کا جشن بہت جوش و خروش سے مناتے ہیں۔۔

سبز و سفید لباس بناتے ہیں۔۔

جھنڈیوں سے گھر سجاتے ہیں۔۔

پرچم لہراتے ہیں۔۔

پھر اس بار کیوں نہیں کر سکتے۔۔

اس بار محرم الحرام اور چودہ اگست کا موقع ساتھ ہی آ گیا ہے اب محرم الحرام کا تقدس بھی تو قائم رکھنا ہے۔ ۔۔

ہاں تو یہ تو ان کو سوچنا چاہیے جو بے ہنگم باجے بجاتے ہیں، بیہودہ ناچ گانا کرتے ہیں اور بائیکرز جو کہ سائلینسر نکال کر شوروغل کرتے دوسروں کو اذیت پہنچاتے ہیں۔۔

بھائی بس ہم چودہ اگست ہمیشہ کی طرح جوش و ولولے سے منائیں  گے ورنہ قیامت کے دن قائد اعظم کو کیا منہ دکھائیں گے کہ ہم نے ان کے اتنی محنت سے حاصل کیے ہوئے وطن کا حق ادا نہیں کیا۔۔چھوٹی نے آ گے بڑھ کر اپنی قیمتی رائے دینا ضروری سمجھا۔۔

اور چھوٹی!! پھر یہ منہ قیامت کے دن نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو کیسے دکھاؤ گی جب وہ پوچھیں گے کہ تم نے آل رسول سے محبت کا کیا حق ادا کیا؟

اس بار چھوٹی سے واقعی کوئی جواب نہ بن پڑا تو منہ بسور کر ایک کونے میں جا بیٹھی۔۔

یہ ایک چھوٹے سے گھر کا منظر ہے جہاں خواب پنپتے ہیں، امنگیں سانس لیتی ہیں اور وطن سے محبت ان کے وجود کا خاصہ ہے۔۔

بہن بھائی اور دادا جان بس اتنا سا خاندان۔۔

یہ دونوں بچپن میں ہی والدین کے سائے سے محروم ہو گئے تھے۔۔

دادا جان نے ہی انہیں والدین بن کر پالا پرورش کی اور ان کی تعلیم و تربیت میں کوئی کمی نہ ہونے دی۔۔

اس کے علاوہ وطن سے محبت بھی ان کے خون میں گوندھ دی کہ بڑے ہو کر مٹی کا قرض یاد رکھیں۔ 

دادا ابو جو کہ کافی دیر سے ان کی گفتگو سے محظوظ ہو رہے تھے جب ماحول گرم ہوتے دیکھا تو گویا ہوئے۔۔

بچوں کیا بات ہے کیا موضوع زیر بحث ہے؟

دادا ابو نے سب سننے کے باوجود استفسار کیا کیونکہ وہ چاہتے تھے وہ دونوں کھل کر اپنا موقف ظاہر کریں اور وہ دونوں کے اختلاف رائے کا جواب دے سکیں۔۔

دادا ابو !! بھائی کہہ رہے ہیں ہم اس بار محرم کی وجہ سے چودہ اگست نہیں منائیں گے۔۔وہ رونے کے قریب تھی۔۔

دادا ابو نے ایک اچٹتی نگاہ پوتے نوفل کی طرف ڈالی۔۔

نوفل نے پہلو بدلا کیونکہ دادا ابو کے سامنے کچھ بھی کہنا اسے ادب کے منافی لگتا۔۔۔

پھر اس نے بس اتنا ہی کہا: دادا ابو آپ ہی بتائیں کیا میری سوچ غلط ہے ۔؟؟

دادا ابو اس بار اپنی ہنسی ضبط نہیں کر سکے پھر گویا ہوئے۔۔

تم دونوں اپنی اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہو۔۔

وہ دونوں بچے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھنے لگے کہ ہم دونوں کیسے ٹھیک ہو سکتے ہیں۔۔؟؟؟

دادا ابو نے انکی حیرانی کو ختم کرنے کیلئے گفتگو مزید بڑھائی۔۔

دیکھو بچوں!!! بات چودہ اگست کے جشن یا محرم الحرام کے سوگ کی نہیں۔۔

بات اس کی روح کی ہے، اس جذبے کی ہے جو ان دونوں تاریخی واقعات کے پیچھے پوشیدہ ہے۔۔۔

جانتے ہو وہ کیا ہے؟دادا ابو نے رک کر ایک گہری نگاہ ان پر ڈالی۔۔

پھر ان دونوں کی محویت دیکھ کر بات آ گے بڑھائی۔۔

"محبت اور قربانی"۔۔۔

جب ہم کسی چیز سے بے انتہا محبت کرتے ہیں خواہ وہ کوئی بھی چیز ہو۔۔کوئی شخص، کوئی مقصد، کوئی عادت یا کوئی سوچ کوئی نظریہ۔۔۔

ہم اس کیلئے قربانی کرتے ہیں۔۔

یہ ہمارا اس سے محبت کا ثبوت ہوتا ہے۔۔

محبت بڑے بڑے فیصلے کرواتی ہے۔۔

اور بڑی بڑی قربانیاں مانگتی ہے۔۔

پھر کہیں جاکر وہ چیز حاصل ہوتی ہے جس کے لیے قربانی دی تھی۔۔

یہ دونوں واقعات الگ الگ صحیح لیکن نظریہ و مقصد ایک ہی تھا۔۔اسلام کا نفاذ۔۔

حق و باطل کے معرکے میں حق کو غلبہ ہو اور باطل سرنگوں۔۔۔ ضروری تھا کہ واقعہ کربلا پیش آئے۔۔

 تم نے وہ شعر سنا ہے "اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد" یہ اٹل حقیقت ہے۔۔

آل رسول خانوادہ رسول نے اپنے خون سے سینچ کر اس دین کو بچایا ہے مگر افسوس لوگ صف ماتم تو بچھاتے ہیں لیکن اپنی صفوں میں دین قائم نہیں کرتے جو مطلوب تھا۔۔

آل رسول کے نام کے نوحے پڑھنے والے نام رسول کا پاس نہیں رکھتے۔۔

جس دین کو باقی رکھنے کیلئے انہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دیئے اس دین کی بقاء کیلئے ہم کیا کر رہے ہیں۔؟

اسی طرح اس ملک کا حصول یونہی ممکن نہیں ہوا بلکہ لاشیں گرائی گئیں۔۔گردنیں کٹائی گئیں۔۔کتنی ہی بیٹیاں اپنے سروں کے آ نچل نوچنے والوں کے منہ نہیں نوچ سکیں۔۔

حسرت و یاس کی تصویر بنے اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔۔

یہ آج جو اس آ زاد فضا میں ہم سانس لے رہے ہیں..

کوئی مساجد میں جانے سے نہیں روکتا۔۔

کوئی مسلمان بچی کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا بشرطیکہ وہ خود اپنی حیا کا خیال رکھے۔۔

جس دو قومی نظریے کی بنیاد پر جس کلمے کی بنیاد پر یہ ملک حاصل کیا ہے اس کلمے کی روح وہی ہے میرے بچوّں جس کلمے کی سلامتی کیلئے نواسہ رسول نے اپنے خاندان کی قربانی دے دی۔۔

جام شہادت نوش کر لیا مگر دین بچا لیا۔۔

تو بات آزادی کے جشن کی یا محرم الحرام کے سوگ کی نہیں بات اس دین کو زندہ رکھنے کی ہے۔۔

اسے نہ جھکنے دینا۔۔۔

اسے نہ مٹنے دینا۔۔۔

دادا ابو کی آ نکھوں سے آ نسو جاری ہو کر ان کی داڑھی میں جذب ہو رہے تھے۔۔

اور وہ دونوں بھی نم آنکھوں سے ایک ٹک دادا ابو کو دیکھے جا رہے تھے۔۔۔


1 Comments

Previous Post Next Post