Mohabbat Konsa Jurm Hai Written By Sal-Sabil

Mohabbat Konsa Jurm Hai Written By Sal-Sabil

Mohabbat Konsa Jurm Hai Written By Sal-Sabil

محبت کونسا جرم ہے


از قلم - سلسبیل

"لو جی اس کا سواد تو سرسوں کے ساگ اور جوار کی روٹی سے بھی زیادہ ہے"

   اس نے افیم بھری سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے مزے سے کہا۔

"ہاں اسی لئے تو اس کمبخت کو چھوڑنے کا من نہیں کرتا"

موجو نے سلیمے کی بات کا نیم باز آنکھوں کے ساتھ جواب دیا۔

" ہاں  اللہ بخشے میرے ابے کو، وہ سات آٹھ سال پہلے مجھے ہسپتال لے گیا تھا نشے کا علاج کروانے۔  قسم سے بڑی پھیکی زندگی ہوگئی تھی میری "

سلیمے نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے قدرے سوچ سوچ کر جواب دیا۔ کیونکہ اس پر نشہ طاری ہو رہا تھا۔ 

"اوتو نے  تو چھوڑا نہیں نشہ" موجو نے حیرت سے کہا۔

" او ہاں ں ں ں "  سلیمے نے لمبا ہنکارا بھرا۔ 

"او نہیں چھوڑا تھا۔ ہسپتال میں تو نہیں ملا تھا کوئی اسپیشل  سگریٹ"   سلیمے نے لفظ اسپیشل پر دائیں آنکھ  دبائی۔ "پر میں نے گاؤں واپس آکر سب سے پہلے کام یہی کیا تھا " سلیمے نے سگریٹ کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا۔  جواباً موجو نے فلسفیانہ انداز میں گردن ہلا کر تائید کی ۔

 دونوں 60 کی دھائی میں اتر چکے تھے۔ نشے  کی لت  نے پوری طرح سے  ان کو اپنے پنجوں میں جھکڑ لیا تھا۔

 "او او تتلی" یکایک موجو نے ہڑبڑا کر کہا ۔ سلیما فوراً خلا میں ارد گرد دیکھنے لگ گیا ۔

" او یہاں نہیں وہاں"  موجو نے سامنے کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا جس طرف وہ ٹکٹکی باندھے خود بھی دیکھ رہا تھا۔  سلیمے نے فوراً موجو کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا ۔ جہاں ذرا دور پگڈنڈی پر سترہ اٹھارہ  سال  کی الہڑ لڑکی چلی جا رہی تھی جو پیلے  اور سرخ جوڑے میں ملبوس تھی جس میں  اس کا رنگ مزید نکھر نکھر جا رہا تھا۔  سلیمے نے بے زاری سے منہ پھیر لیا ۔

 "او رہن دے"  موجو نے حیرت سے سلیمے کو دیکھا ۔

  "او  کیا دیکھنا ہے اسے اپنے پینو کی عمر کی ہے"  موجو کی حیرت بھری آنکھوں کے جواب میں سلیمے کو وضاحت دینی پڑی۔

 کچھ لمحے خاموشی کی نذر ہوگئے۔ بس سگریٹ کے کش لگانے کی آواز تھی یا کوؤں کے بولنے کی۔ کبھی کبھی ہوا میں جوش آتا تو گنے کے کھیت آپس میں ٹکرا کر آواز پیدا کرتے۔ موجو جوکہ بات کیے بنا نہیں رہ سکتا تھا، نشے کے ساتھ ساتھ بولنے کی بھی لت تھی اسے۔ موقع کی مناسبت سے پھر سے بولنا شروع کر دیا کیونکہ اس کے  خیال میں سلیما اب دکھی  ہو چکا ہے اور وہ مزید دکھی  تو ہوسکتا ہے مگر جب تک سگریٹ ختم نہ ہو وہ خوش نہیں ہو سکتا۔

" تیرا بھی  بڑا خرچہ ہوگیا نا "

 موجو نے ہر ممکن اپنے لہجے میں درد سمونے کی کوشش کی۔

" آہو" سلیمے نے آنکھ ٹیڑھی  کرکے موجو کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لیا کے آیا کہ وہ واقعی دکھ میں ہے یا بس لگائی بجھائی کرنے والا ہے۔

" کتنا خرچہ ہو گیا اپنی پینوں کے قل پے؟"

 موجو نے آنکھیں چھوٹی کرکے استفسار کیا۔ "آ آ آ آہو ہی گیا چھ ہزار "  سلیمے نے حساب لگا کر بتایا۔

 " ہوں ں ں ں "  موجو نے جواباً ہنکارا بھرا۔  "

سلیمے  تم نے بھی ظلم ہی کیا نا  کیا ضرورت تھی قتل کر دینے کی، اسے کسی دوسرے کے  ساتھ رخصت کر دیتے "

موجو نے دھویں کے مرغولے اڑاتے سلیمے سے کہا ۔

"کیوں؟  کیوں اسے رخصت  کر دیتا کسی کے ساتھ؟؟ اس نے خود ہی اپنے سارے حق کھو دیے تھے۔ میرے پرکھوں کی عزت کو دروازے کی دہلیز پر روند گئی تھی وہ اور تو کہتا ہے کہ اسے سکھی زندگی دے دیتا" سلیما کافی غصے میں آ چکا تھا۔ اس نے سگریٹ بھی مسل دیا تھا۔ موضوع ہی اتنا حساس تھا۔

 

"یہ میرے ہاتھ غور سے دیکھ۔ چمڑی ادھڑ گئی ہے ان کی مزدوری کرتے کرتے"

 سلیمے نے  ٹھنڈی سانس خارج  کی ۔

"اور تو کہتا ہے کہ اسے رخصت کر دیتا اپنی محنت مزدوری سے کی کمائی سے اس بے غیرت کو جہیز دیتا۔ تو نے سنا نہیں کیا کہ ادھل گئی کو داج کیہا "

"او بادشاہو او بادشاہو آپ ٹھیک کہہ رہے ہو اور میں تو ویسے ہی بات کر رہا تھا اور ویسے بھی تو نے غیرت کے نام پر قتل کیا ہے اور کوئی مسئلہ ہی نہیں یہ تو"

 موجو نے اپنے تئیں سلیمے کی آگ ٹھنڈی کرنی چاہی اور کسی حد تک کامیاب بھی  رہا کیونکہ سلیمے نے موجو کے  پیش کیے گئے سگریٹ کو قبولیت کی سند بخش دی تھی۔ سلیمے کا مزاج برا ہو چکا تھا اور موجواس کا مزاج بحال کرنا چاہتا تھا۔ دوستی ہی اتنی تھی دونوں پوستیوں میں ۔ "اوہ تجھے  پتا ہے رات  کو میں نے خواب میں کس کو دیکھا"  موجو نے لمبا کش لگا کر دھواں  چھوڑتے ہوئے تجسس پھیلایا۔

" اللہ جنت نصیب کرے چاچے کو دیکھا ہوگا"  سلیمے نے کمال بے نیازی سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔

"نہیں نہیں میں نے تو مسرت کو دیکھا تھا"  موجو نے فوراً سلیمے کی بات کی تردید کی۔  "اچھاااااا "  سلیما جی بھر کر حیران ہوا ۔

" تجھے ابھی بھی وہ یاد ہے؟" سلیمے کو بھی دلچسپی پیدا ہو چکی تھی ۔ جواباً موجو  ایسے مسکرایا جیسے مسرت کو بھول جانے والی بات مذاق ہو۔

اچھا وہ کیسی تھی مطلب ویسی ہی تھی جیسی ہم دیکھا کرتے تھے ۔"

سلیمے نے خوش دلی سے استفسار کیا۔

"ہاں ویسی ہی تھی الہڑ مٹیار، یہ لمبا پراندا باندھ رکھا تھا لال رنگ کا۔ ویسی ہی دودھ ملائی جیسی رنگت تھی"

 موجو جیسے کسی اور ہی دنیا میں کھو گیا ۔

" اور پھر ۔۔۔۔  پھر اس نے مجھے آواز دی ۔  او موجو !  بات تو سن "

 ایک دم موجوکے تاثرات بدلے، جیسے وہ کسی تحقیق میں مصروف ہو موجو کے لب  سیٹی کے انداز میں سکڑ گئے۔

" اور پھر ؟؟؟؟" سلیمے کو بے چینی ہوئی ۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ مسرت نے موجو کو کیا بات سنائی ۔

"اور پھر پتہ نہیں کیوں مسرت  کی آواز میری گھر والی کی آواز جیسی ہوگئی "

 موجو  اتنا کہہ کر ہونقوں کی  طرح سلیمے کا منہ تکنے لگ گیا۔ جو اس بات کی نشاندہی کر رہا تھا کہ موجو کے سر پر نشہ چڑھ چکا ہے

" دھت تیرے کی "سلیمے نے پوری قوت سے موجو کی کمر  پر تھپڑ رسید کردیا ۔ "او ظالما" موجو کے منہ سے بے اختیار نکلا اور ہاتھ بے اختیار کمر کی طرف  گئے ۔

" وہ بچوں والی ہو گئی ہوگی اور دیکھنے میں اماں جی لگتی ہوگی اور تو  اسے خواب میں دیکھتا ہے چھی "

 سلیمے نے موجو کو لتاڑا جیسے خوابوں پر اس کا اپنا  بس ہو جواب میں موجو نے  نشے سے مخمور ہوتی  آنکھوں سے سلیمے کو دیکھا جن میں شکوہ پنہاں تھا کہ خود بھی تو مسرت کی بات سننے کا شوق رکھتا تھا۔

 دونوں کا مزاج بدل چکا تھا ۔وہ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ پانچواں پانچواں سگریٹ چل رہا تھا، یہ کہا جا سکتا تھا کہ وہ نشے کی آخری سٹیج پر تھے۔ بات ہوتے ہوتے دونوں کی ناکام محبت پر پہنچ چکی تھی۔

" او او مجھے یاد ہے  پھر تیرے ابے نے تجھے کتنا پیٹا تھا تیرے تو نیل پڑ گئے تھے "

موجو نے بری طرح ہنستے ہوئے سلیمے کو باور کرایا۔

" ہاں ہاں یاد ہے بڑی اچھی طرح یاد ہے محبت سچی ہو تو پھر مار بھی میٹھی لگتی ہے"

 سلیمے نے اپنے تئیں فلسفہ کہا جس سے موجو خاصا مرعوب ہوا۔

"ہاں بات تو پتے کی کی  ہے پر اگر تیری محبت سچی  تھی تو وہ تجھے ملی کیوں نہیں" موجو کے چہرے پر سوالیہ نشان رقمطراز تھا ۔

" ہونہہ ملی نہیں "

سلیمے نے جیسے ناک پر سے مکھی اڑائی۔

" کون کہتا ہے نہیں ملی۔ یہاں ہے یہاں وہ"

 سلیمے نے  بائیں طرف دل کے مقام پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔

" او پر تیرے ابے کو  ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اور تیرا بیاہ کر دیتا اسی سے"

 موجو نے دنیا بھر کی حسرت چہرے پر سموتے ہوئے کہا

"ہاں تو اور کیا "

سلیمے نے سگریٹ کا لمبا کش لگاتے ہوئے دھواں چھوڑا جس میں سلیمے اور موجو کا چہرہ چھپ گیا تھا مگر سلیمے کی آواز دھوئیں کے مرغولے میں  سے گونجی

" ہاں تو اور کیا، محبت کون سا جرم ہے"


Post a Comment

Previous Post Next Post