Umeedon Ka Markaz Written By Hina Irshad

Umeedon Ka Markaz Written By Hina Irshad

Umeedon Ka Markaz Written By Hina Irshad

عنوان: "امیدوں کا مرکز"

لکھاری: حناء ارشاد

💗💗💗💗💗💗💗💗💗

ابتداء سے تھے تم

انتہا سے تھے ہم

وفاؤں کے سلسلوں سے تھے تم

امیدوں کا مرکز ہیں ہم

اے پاک وطن تو ہماری پہچان ہے

تیری آواز بنیں گے ہم

از حناء ارشاد

قوموں کی زندگی میں ایسے دن بھی آتے ہیں ۔ جو تاریخ کے پنوں میں ہمیشہ قید کر کے یاد رکھے جاتے ہیں ۔جیسا کہ ہمارا ملک پاکستان 14 اگست'1947 کو معرضِ وجود میں آیا۔ جب پاکستان آزاد ہوا تو تب اسلامی بابرکت مہینہ رمضان المبارک اور لیلۃ القدر کی رات تھی' جب مسلمانوں کو آزاد مملکت کی خوشخبری نصیب ہوئی۔

آج جس  ملک میں ہم اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں' وہ قائد اعظم' علامہ محمد اقبال' چوہدری رحمت علی' لیاقت علی خاں' شہداء اور بہت سے راہنماؤں کی محنت و لگن کی بدولت ہے۔

اگر علامہ محمد اقبال نے اس ملک کا خواب نہ دیکھا ہوتا'

اگر 23 مارچ'1940ء کو قرار دار پیش نہ کی ہوتی' اگر قائد اعظم محمد علی جناح نے جدوجہد نہ کی ہوتی تو آج ہم انگریزوں کے غلام ہوتے۔

اے قائد ہم تیرے ہیں آج بھی احسان مند

کہ تو نے سنبھال کر ہمیں

دیا اپنی کوششوں کا پھل

جو یاد رہے گا ہمیں رہتی دنیا تک

(حناءا ارشاد)

ہم کہنے کو 1947ء کو برطانیہ سے آزاد ہوئے تھے لیکن آج بھی ہم غلامی کی زنجیروں میں قید ہیں۔

زنجیریں بھی وہ ' جن میں ہم نے خود' خود کو جکڑا ہے۔

ہم اپنی میں' میں جیتے ہوئے اس قدر بزدل ہو چکے ہیں کہ  ہم خود کو تباہ کرنے کے ساتھ آنے والی نسلیں کو بھی تباہ و برباد کر رہے ہیں۔

ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے پرکھوں نے اپنی آن' مان' شان و جان لگا کر ہمارا ملک پاکستان حاصل کیا ہے لیکن اس سب کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ اس ملک نے ہمیں کیا دیا ہے؟ یہاں پہ رکھا ہی کیا ہے؟ اس ملک کا کچھ نہیں ہوسکتا؟ تو یہاں سوال یہ ہے کہ جب  ہمارے بزرگوں نے اپنی جان و مال' حتٰی کہ اپنے قیمتی رشتوں کو گنوا کر ' اپنا حاصل کردہ قیمتی سرمایہ' ہمارے حوالے کر دیا تو ہم نے انکے  سرمائے کی کتنی حفاظت کی؟

کہنا جتنا آسان ہے' سہہ کر اپنی طلب کا پانا بہت مشکل۔

باخدا  اب بھی وقت کا تعین باتیں کرنا نہیں ہے بلکہ محنت و لگن سے کچھ کر دکھانے کا ہے۔  ہم جس قدر خود   کو بری الزامہ قرار دیتے ہیں' اتنے بری الزمہ نہیں ہیں۔

خدارا اب یہ رونا چھوڑ دیں کہ پاکستان میں سہولیات زندگی کی آسائشیں قلیل ہیں۔

اگر یاد رکھنا ہے تو صرف یہ رکھیں کہ پاکستان کا مطلب' لا الہ الا الله ہے۔

اسکے بعد اگر کچھ یاد رکھنا ہے تو یاد رکھیں کہ پاکستان نے ہمیں السلام کے قوانین کے مطابق جینے کا حق ' کھلی ہوا میں پرواز کرنے کا حوصلہ و ہمت عطا کرنے کے ساتھ' ہماری آن مان و شان قائم  رکھنے کی توفیق ہی نہیں دی بلکہ ہمیں اک پہچان عطا کی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم سر اٹھا کر جی سکتے ہیں۔ اگر ہمیں کوئی اعتراض بھی ہے تو ہمیں چاہئیے کہ ہم اپنی جدوجہد و استقامت سے آنے والی نسلوں کے لیے آسانیاں عطا کرنے کی کوشش کریں کیونکہ ہمیں اپنے لیے ہی کوشاں نہیں رہنا بلکہ اپنے پاک وطن کی حفاظت کے لیے آئندہ نسلوں کو بھی تیار کرنا ہے۔ بس ہمیں ہمارے پاک پروردگار سے یہ ہی دعا مانگنی چاہیئے کہ الله تعالیٰ ہمارے عزت و ناموس کی اور اس وطن کی حفاظت کرے۔

آمین

 

کبھی روٹھے جو وقت

تو' تو اپنی لگن سے منا لینا

خدا دے گا ہمیشہ ساتھ تمہارا

تو بس اپنا دھن' من ایمان سے پُر رکھنا

از قلم حناء ارشاد


Post a Comment

Previous Post Next Post