Rehna Tu Dil Ke Paas EBook Novel By Aliya Hussain

Rehna Tu Dil Ke Paas EBook Novel By Aliya Hussain


Rehna Tu Dil Ke Paas EBook Novel By Aliya Hussain

          اسلام و علیکم۔۔۔

حاضر ہیں ہم عالیہ حسین کے موسٹ رومانٹک Ebook ناول " رہنا تو دل کے پاس"کے ساتھ۔

Category :-

Second Marriage Based

Boss Secretary Based

Most Romantic Novel

Glimpes of Novel

👇👇👇👇

وہ آفس روم کا دروازہ دھکیل کر اندر بڑھی جب چھن سے اس کے پیروں کے قریب کافی کا مگ چکنا چور ہو گیا وہ اچھل کر دروازہ تھامے پیچھے ہوئی ۔کافی کے چھینٹے اس کے کپڑوں اور پاؤں پر بھی لگ گئے تھے ۔اذہان خطرناک تیوروں سے اس کی طرف بڑھا اس کا بازوں دبوچ کر اسے دیوار سے لگایا ۔

" آپ نے رات ڈرنک کیا تھا مس نیازی کیوں ؟ ۔ " وہ اس کے بازوں پر دباؤ ڈالتا سرخ آنکھیں اس پر گاڑھے پوچھ رہا تھا ۔اسے نہیں معلوم اتنا غصہ کس بات کا تھا اسے ورنہ یہاں ڈرنک کرنا تو عام بات تھی اور نینی بھی ڈرنک کرتی تھی اسے معلوم تھا پر اذہان نے اس کو ڈرنک سے منع کیا تھا ۔ شاید وہ وینش سے یہ سب ایکسیپٹ نہیں کر رہا تھا ۔

" سر میرا بازوں ۔ " اس نے درد سے کراہتے کہا ۔

" آنسر می مزنہ ۔ " اذہان نے مزاحمت پر اس کی پشت واپس دیورا سے لگائی ۔

" میں نے جان بوجھ کر نہیں کی تھی بلکہ مجھے تو معلوم بھی نہیں تھا کہ وہ شراب تھی ۔ " وہ تکلیف سے آنکھیں میچ کر بولی ۔رئیلی تمہیں معلوم نہیں تھا تم اس جگہ کر کیا رہی تھی ۔ " وہ اس کے چہرے کو دیکھتا بولا جو تکلیف کی شدت سے سرخ تھا ۔ وینش کو ایک تو اس کا پل بدلتا انداز سمجھ نہیں آرہا تھا کبھی آپ کبھی تم ۔

" میری فرینڈ نے بلایا تھا ۔ " وہ منمنائی ۔

" فرینڈ ؟ وہ تمہیں جہنم میں آنے کا کہے تو وہاں بھی چلی جاؤ گی تم ؟ ۔ " وہ اپنا چہرہ اس کے چہرے کے قریب کیئے سختی سے پوچھنے لگا ۔نہیں ۔ " وینش نے سختی سے ہونٹ آپس میں بھینچے تھے آنکھیں بند تھیں ۔آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھ کر جواب دو ۔ " اذہان نے اس کی بند پلکوں پر نظریں ٹکائی تھیں ۔میرا بازوں مجھے تکلیف ہو رہی ہے ۔ " وینش نے ہلکی سی آنکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھا مگر اس کا چہرہ اپنے اتنے قریب دیکھ کر وہ بوکھلا گئی ۔

" آج چھوڑ رہا ہوں تمہارا بازوں لیکن اگر دوبارہ ایسا ہوا تو یہ تمہارا بازوں تمہارے کندھے سے الگ کر کے چھوڑوں گا ۔ " اس نے سرد لہجے میں اسے باور کروایا ۔اس کی بات سن کر وینش کی آنکھوں میں حیرت در آئی اتنا شدت بھرا انداز تھا وہ اس سے حد سے زیادہ غصہ ایکسیپٹ کر رہی تھی اور سخت سے سخت ڈانت بھی مگر وہ اذہان یہ رویہ ایکسیپٹ نہیں کر رہی تھی اس کا شدت بھرا انداز اس کے لئے حیرت بھرا تھا ۔اس کی آنکھوں میں حیرت دیکھ کر وہ مسکرایا پھر اس کی آنکھوں پر پھونک مارتا پیچھے ہوا ۔

" تمہیں یاد ہے رات کیا کہا تھا تم نے مجھ سے ۔ " وہ اس کا محبت کا اظہار سوچتا محظوظ انداز میں اسے دیکھنے لگا ۔

" اس وقت ہوش نہیں تھا تو اس لئے ورنہ میں گاڑی سے فوراً اتر جاتی ہوں ۔ " اسے فوراً اپنا رات کا رویہ یاد آیا ۔

" وہ تو الگ بات ہے تم نے کچھ اور بھی کہا تھا تمہیں وہ یاد نہیں ؟ ۔ " اذہان نے اس کے گھبرائے سے چہرے کو دلچسپی سے دیکھا ۔اس نے نا سمجھی سے نفی میں سر ہلایا ۔

" اوکے ۔ " وہ بات سمجھتا اس کے سامنے سے ہٹ گیا مزید نزدیکی ٹھیک نہیں تھی اس کے لئے ۔ " تم جاؤ واش کر آؤ ۔ " وہ اس کے کپڑوں پر کافی کے چھینٹے دیکھ کر افسوس سے بولا ۔وہ ٹھنڈے مزاج کا شخص تھا مگر یہ لڑکی اس کا بی پی ہائے کرے رکھتی تھی اپنی حرکتوں سے ۔وہ بھی جانا چاہتی تھی اس کی بات سن کر فوراً جانے کے لئے مڑی ۔

" کہاں ؟ ۔ " اپنی کرسی پر وہ براجمان ہو چکا تھا نظریں اسی پر تھیں اس لئے اسے آفس سے باہر جاتا دیکھ کر فوراً پوچھنے لگا ۔

" واشروم  جا رہی ہوں ۔ " وینش نے پلٹ کر وضاحت دی ۔

" میرے روم میں جاؤ واش کر آؤ یہ دو منٹ میں ہری اپ ۔ " حکمیہ انداز میں اس سے کہتا وہ اپنے کام کی طرف متوجہ ہو گیا ۔وینش پر تو آج وہ در پے در حیرت کے پہاڑ توڑ رہا تھا ۔ کیونکہ اس نے جولی سے سنا تھا اذہان کے آفس سے مشترکہ روم میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی ۔وہ ایک بار غلطی سے وہاں سے چلی گئی تھی تو پھر سر کی زبردست ڈانٹ کے بعد اس نے اس روم کو ایک نظر بھی نہیں دیکھا تھا ۔ اسے بھی وہاں نہ جانے کی نصیحت کی تھی جولی نے ۔

اور آج خود ہی اذہان علوی نے اسے کہا تھا وہ اس کے روم میں چلی جائے حیرت کی بات تو تھی نہ ۔

Glimpes of Novel

👇👇👇👇

کیسے چھونے دیا تم نے اسے خود کو کیسے سن رہی تھی اس کی بات تم ۔ " وہ اسے اپنے آفس سے مشترکہ روم میں لے کر آیا ۔ اس کے غصے پر وینش گھگھیا گئی ۔

" اذہان مجھے اندازہ نہیں تھا اس کی بات کا ۔ " اسے واقعی خود ہی سمجھ نہیں آیا تھا چند سیکنڈ میں کیا سے کیا بات ہو گئی تھی ۔

اس نے اذہان کو وضاحت دی کہیں وہ اس کے لئے کچھ غلط نہ سوچ لے ۔ اذہان نے گھور کر اس کی طرف دیکھا وینش سر جھکا گئی ۔

" میں نہیں چاہتا ایک بار پھر مجھے دھوکا ملے تم۔مجھے دھوکا مت دینا ۔ " اذہان نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے تھاما اس کی بات پر وینش کے دل کو کچھ ہوا ۔ کیا وہ اذہان کو دھوکا دے رہی تھی اگر اسے معلوم ہو گیا کہ وہ کون ہے تو پھر اس نے خوف سے اپنے سامنے کھڑے شخص کو دیکھا جس سے ہوئی محبت کا اظہار اس نے خود سے بھی نہیں کیا تھا پر وہ ایک بار پھر اسے کھونا نہیں چاہتی تھی ۔

" نہیں دوں گی دھوکہ آپ کو کبھی نہیں ۔ " وہ اس کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھتی محبت سے بولی ۔

جبکہ اذہان کو تو معلوم تھا کہ وہ اس سے محبت کرتی ہے پر اس وقت اس کے اظہار پر وہ اندر تک سرشار ہو گیا تھا ۔ اس نے بے ساختہ وینش کو سینے سے لگایا تھا وینش نے جھجھک کر اس کے گرد بازوں باندھے اس شخص کی محبت کا اظہار وینش کو اس پر ملکیت کا احساس بخش رہا تھا جس پر اس نے مضبوطی سے اس کے گرد بازوں باندھے تھے ۔

Glimpes of Novel

👇👇👇👇

" تم آفس  کیوں آئی ہو اب ۔ " وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے مقابل کھڑا ہوا ۔

" میں یہاں کام کرتی ہوں سر تو آئے تھنک آپ کے پوچھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔ " اس نے پر اعتمادی سے جواب دیا تھا ۔

" تم شاید بھول رہی کون ہو تم ۔ " اس کا بازوں سختی سے تھام کر اس کی آنکھوں میں اپنی آنکھیں گاڑھے کہا گیا تھا ۔ چند سیکنڈ وہ چپ ہو گئی پھر مسکرائی ۔

" وینش اذہان علوی ۔ " وہ اس کے دل کے مقام پر ہاتھ رکھ کر دلکشی سے مسکرائی ۔ جبکہ اس کے اس انداز پر اور اس کے منہ سے نام سن کر وہ کچھ پل ساکت ہوا تھا دل کی دھڑکنیں تیز ہوئی تھیں جو وینش نے اپنے ہاتھ کے نیچے محسوس کر لی تھیں اس کے دل کے دھڑکنے کی سپیڈ پر وینش بھی حیران ہوگئی تھی ۔

" تم صرف ایک جھوٹی دھوکے باز لڑکی ہو ۔ " وہ وینش کا ہاتھ اپنے دل کے مقام سے جھٹک کر غرایا ۔ اس کی بات پر وینش نے تڑپ کر اذہان کو دیکھا ۔

" میں نے کوئی دھوکا نہیں دیا آپ کو اذہان ۔ "

" کیا کہا تھا میں نے مجھے دھوکے سے نفرت ہے ۔ " وہ وینش کا منہ دبوچتا سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتا بولا ۔

اس کی سخت گرفت پر وینش کو لگا اس کی انگلیاں اس کے نرم گالوں کی اسکن میں گھس گئی ہیں ۔

" اذہان پلیز تکلیف ۔ " اس نے پھنسی پھنسی آواز میں کہہ کر اس کا ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹانا چاہا ۔

" تمہیں تکلیف ہو رہی ہے ؟ تمہیں پتا ہے مجھے کتنی تکلیف ہو رہی ہے کل سے کس اذیت سے گذر رہا ہوں میں تمہاری وجہ سے ۔ " اس کا جبڑا چھوڑ کر وہ ٹوٹے لہجے میں بولا ۔ اس کو پھر سے بکھرتا دیکھ کر وہ نم آنکھوں سے اس کے قریب ہوئی ۔

" اذہان مجھے معاف کر دو پلیز ۔ " وہ فوراً اس کے سینے سے لگ گئی تھی ۔

" مجھے نہیں کسی کی ضرورت تم بھی چلی جاؤ ۔  " وینش کو خود سے الگ کر کے وہ اس سے رخ پھیر گیا ۔

" اذہان پلیز لسن ٹو می میں نے جان بوجھ ۔ " وہ پھر سے اس کے سامنے کھڑی ہو گئی ۔

" میں نے کیا کہا جاؤ یہاں سے تم بھی مجھے ضرورت نہیں کسی کی مزید دھوکے برداشت نہیں کر سکتا میں ۔ " وہ اسے خود سے دور دھکیلتا سخت لہجے میں گویا ہوا ۔

اس کے لہجے میں ٹوٹے کانچ کی کرچیاں وینش کے دل میں چبھی تھیں ۔

" ابھی جا رہی ہوں پر آپ یہ یاد رکھیں آپ کو کبھی چھوڑ کر نہیں جاؤں گی میں ۔ " وہ اس سے کہتی وہاں سے چلی گئی ۔

اذہان نے گہرہ سانس لے کر اپنے اندر اٹھتے اشتعال کو دبایا تھا ۔

Glimpes of Novel

👇👇👇👇

 

" تمہیں آفس آنے کی ضرورت نہیں اور کہیں جاؤگے بھی نہیں تم ۔ " وہ آفس کے لئے تیار ہوتا اسے باور کروانے لگا ۔

" کیوں کہیں نہیں جا سکتی تمہیں ڈر ہے کیا کہ بھاگ جاؤں گی ۔ " وہ اس کی رات والی بات یاد کر کے شرارت سے بولی ۔

" ہاں ۔ " اذہان نے بنا کسی حیل و حجت کے جواب دے دیا ۔ جبکہ اس کی بات سن کر وینش کی آنکھوں سے شرارت غائب ہوگئی ۔ اذہان اس کی حالت سے محظوظ ہوا ۔

" واپس آکر سارے حساب کلیئر کروں گا تمہارے ساتھ ۔ " وہ سنجیدگی سے کہتا کمرے سے نکل گیا ۔ وینش بھی اس کے پیچھے ہی نیچے آگئی ۔

" فریش ہوجاؤ پہلے پھر ناشتہ کرنا ۔ " وہ اسے ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھتا دیکھ کر آنکھیں دکھاتا بولا ۔

" جب آفس بھی مجھے آنا منع ہے تو واپس سو جاؤں گی ناشتہ کر کے پھر فریش ہونے کا کیا فائدہ ۔ " وہ لاپرواہی سے ناشتہ کرنے لگی اذہان نے تاسف سے سر ہلا کر اسے دیکھا ۔

Orginal Price/550
After Discount AvailablePrice/400
To Order Contact Us
jazz cash
easypaisa
👇👇👇
03357500595
After Payment Share ss/txr Id payment proof


0

Post a Comment

Previous Post Next Post