Yawar Ali Sikandar exposed Miraal | Most Romantic Novel | Episode 27 - K...


اتنا کچھ ہوگیا، مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا تم نے؟ کتنی فکر ہو رہی تھی مجھے تمھاری۔ مجھے لگا اب تم دونوں خوش ہو ایک دوسرے کے ساتھ لیکن ابھی تھوڑی دیر پہلے جو کچھ ہوا ہے اس نے مجھے بہت پریشان کر دیا ہے۔“ ان کی فکرمند نگاہیں یاور کے چہرے پہ جمی تھیں۔ یاور نے ایک گہرا سانس لیا۔

میں آپ کو پہلے سے مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔ آج آپ کو پتا چل ہی گیا ہے کہ میرال اور پھوپھو نے مژگان کو میرے خلاف اکسانے کے لیے کیا کچھ کیا ہے۔ میں نے بس انھیں سب کے سامنے ایکسپوز کر دیا ہے۔ اور میں ان کا بزنس اپنے بزنس سے الگ کر رہا ہوں کیونکہ میں اب ایسے لوگوں کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتا جو کبھی بھی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیں۔“ یاور کی بات سن کر رومانہ کا دل پریشان ہو گیا تھا۔

بیٹا! کوئی جذباتی فیصلہ مت لو۔ وہ تمھاری پھوپھو کا بزنس بھی ہے۔ اس طرح اچانک سب کچھ الگ کر لو گے تو بہت مسئلے کھڑے ہو جائیں گے۔

آپ فکر نہ کریں میں سب ہینڈل کر لوں گا۔ اور اگر میں نے یہ فیصلہ کیا ہے تو جذباتی ہو کر نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہے مام! “ وہ بہت مضبوط لہجے میں کہہ رہا تھا۔ اسے بزنس کی طرف سے پریشانی نہیں تھی، اسے مژگان کی فکر تھی۔

لیکن تمھارے ڈیڈ اس بات پہ راضی نہیں ہیں۔ کیا تم ان کے خلاف جاؤ گے؟ وہ تمھارے ڈیڈ ہیں یاور۔“ انھوں نے اسے ڈھکے چھپے لفظوں پتا نہیں کیا سمجھانے کی کوشش کی تھی۔

میں مژگان کو مزید دکھ نہیں دینا چاہتا مام! وہ پہلے ہی میری وجہ سے بہت دُکھ اٹھا چکی ہے۔ اس لیے اس بار اگر ڈیڈ ناراض ہوتے بھی ہیں تو مجھے پرواہ نہیں ہے۔ پھچلی بار ڈیڈ نے پھوپھو کے ساتھ مل کر مژگان کو کڈنیپ کروایا تھا۔ وہ بھی اتنے ہی قصور وار تھے لیکن میں نے انھیں کچھ نہیں کہا۔ اس بار بھی اگر میں نے ان لوگوں کو نہیں روکا تو وہ اگلی بار اس سے بھی زیادہ بھیانک وار کریں گی۔ میں اب مزید کسی بھی وجہ سے مژگان کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔“ وہ اس وقت صرف اور صرف مژگان کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ انھیں اپنے بیٹے کا یہ روپ دیکھ کر تھوڑی سی حیرت ہوئی تھی۔ انھیں یاد نہیں تھا کہ کبھی شہباز علی سکندر بھی ان کے لیے یوں فکر مند ہوئے ہوں گے۔ یاور بھی کچھ ان جیسا ہی تھا۔ خود پسند، ضدی اور اپنی مرضی کرنے والا۔ لیکن وہ اپنی بیوی سے بھی محبت کرتا تھا۔ وہ محبت، جس کی کبھی رومانہ نے ضرورت محسوس نہیں کی تھی مگر اپنے بیٹے کا یہ روپ دیکھ کر انھیں اچھا لگا تھا۔

مجھے اچھا لگ رہا ہے کہ تم اپنی بیوی کی سائیڈ لے رہے ہو۔“ انھوں نے اپنی سوچ کو الفاظ پہنائے تو یاور نے ہلکا سا نفی میں سر ہلایا۔

میں مظلوم کی سائیڈ لے رہا ہوں مام! وہ بہت معصوم ہے۔بالکل بھی چالاک نہیں ہے۔ وہ بہت جلد دوسروں پہ بھروسہ کر لیتی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ ہر انسان دودھ کا دھلا ہے، یا فرشتہ ہے۔ وہ انسانوں کے روپ میں چھپے شیطانوں کو نہیں پہچان سکتی اور پھر جب دھوکا کھا لیتی ہے تو رونے لگتی ہے اور خود کو ہی اذیت دیتی ہے۔“ کتنا جانتا تھا وہ اسے۔ رومانہ کے چہرے پہ پھیکی سی مسکراہٹ آئی تھی۔ انھیں یہ امید ہوئی تھی کہ وہ انھیں تو معاف کر ہی دے گی۔


Post a Comment

Previous Post Next Post