Shocking News | Mazgan's accident | Happy Ending | Romantic Novel | Last...


"کیا ہوا ایمان؟"

"یاور بھائی۔۔۔۔۔۔۔آپی۔۔۔۔۔۔۔"

اس سے اتنا ہی بولا گیا تھا۔ یاور کو لگا جیسے اس کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہو۔ وہ فوراً اپنے آفس سے ضروری میٹنگ چھوڑ کر نکلا تھا۔ ساتھ ہی اس نے عاطر کو بھی فون کر دیا تھا۔ مژگان کے فون کی لوکیشن ڈھونڈنے میں یاور کو چند سیکینڈز لگے تھے۔ اس کے وہاں پہنچنے تک ایمبولینس ان تینوں کو ہسپتال لے جا چکی تھی۔ وہ بھی وہیں پہنچ گیا۔ پوچھتے پوچھاتے اس نے ایمان کو ڈھونڈ لیا۔ وہ ابھی تک گھبرائی ہوئی تھی اور رو رہی تھی۔ اس کی پٹی ہو رہی تھی۔

"مژگان کہاں ہے؟"

یاور کو سب سے پہلے اسی کی فکر ہوئی تھی۔ گھبراہٹ اور پریشانی کے باوجود اس نے اپنے آپ کو قابو میں رکھنے کی پوری کوشش کی تھی۔ ایمان کو ہوش میں دیکھ کر عاطر نے فوراً ڈرائیور کا پتا کیا تھا۔ اس کی بھی مرہم پٹی کی جارہی تھی مگر خطرے کی کوئی بات نہیں تھی البتہ ٹرک نے جس جانب سے گاڑی کو ہٹ کیا تھا، اس رخ پہ مژگان ہی موجود تھی۔ اس کی حالت کا ابھی تک پتا نہیں چل رہا تھا۔ ایمان سے پوچھ کر معلوم ہوا کہ مژگان کو ایمرجنسی میں سرجری روم شفٹ کر دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر سے مل کر یاور نے ضروری ڈاکومنٹس پہ سائن وغیرہ بھی کر دیا تھا۔ ڈاکٹر کی اطلاع کے مطابق اس کی حالت تشویشناک تھی۔ اسے چوٹیں تو آئی تھیں مگر زیادہ مسئلہ اس کے حاملہ ہونے کی وجہ سے تھا۔ انھیں فوراً آپریٹ کرنا پڑا۔ یاور کا دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا۔ اس وقت وہ اتنی پریشانی میں تھا کہ شاید ہی کبھی ہوا ہو گا۔ معاملہ اس کی بیوی اور بچے کا تھا۔ اس نے فوراً پولیس میں موجود اپنے دوستوں سے مدد لی اور اس ٹرک والے کو پکڑنے کا کہا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس ٹرک ڈرائیور کی جان لے لیتا۔ جلدی جلدی فون کر کے اس نے رومانہ کو بھی اطلاع دے دی تھی۔ کچھ دیر بعد عاطر کی فیملی سمیت وہ بھی وہاں موجود تھیں۔ دو گھنٹے کے طویل انتظار کے بعد ڈاکٹرز نے بتایا کہ اس کے ہاں بیٹا ہوا ہے لیکن پری میچیور ہونے کی وجہ سے اسے سانس کا مسئلہ درپیش ہے اس لیے کچھ وقت اسے آئی سی یو میں رکھا جائے گا۔ یاور کا سانس اب بھی اوپر نیچے تھا۔ مژگان کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ سب سے زیادہ اسے مژگان کی فکر تھی۔ ڈاکٹرز اپنی پوری کوشش کر رہے تھے مگر اس کا خون بہت بہہ چکا تھا۔ سر پہ کافی گہری چوٹ لگی تھی اور ایک بازو میں فریکچر ہو گیا تھا۔ ڈرائیور کی احتیاط سے ان کی جانیں بچ گئی تھیں مگر جو نقصان ہونا تھا، ہو گیا تھا۔ وہ مژگان کے پاس سے جانا نہیں چاہتا تھا مگر ٹرک ڈرائیور کے پکڑے جانے کی اطلاع ملتے ہی اس سے رہا نہ گیا۔

کافی عجلت میں وہ ہسپتال سے نکلا تھا۔ اس کا رخ تھانے کی جانب تھا۔ یاور کے پہنچتے ہی اس کے دوست اے ایس پی کمال واسطی نے مجرم اس کے سامنے پیش کر دیا تھا۔ یاور نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور ایک زور دار مُکا اس کے جبڑے پہ جڑ دیا۔ وہ لڑکھڑا کر پیچھے کی جانب گرا تھا۔ اس کے بعد یاور نے اس پہ لاتوں کی بارش کر دی تھی۔ وہ غصے سے پاگل ہو رہا تھا۔ کمال واسطی نے اسے بہت مشکل سے قابو کیا تھا۔

اسے انٹیروگیشن روم میں لے جاؤ۔” کمال واسطی کے اشارے پہ پولیس اہلکار اس مجرم کو دوبارہ تفتیشی کمرے میں لے گئے تھے اور یاور کمال واسطی کے سامنے بیٹھ کر اپنی پھولی ہوئی سانسوں کو بحال کرنے لگا۔

میں نے اس سے تفتیش تو کی ہے پر اس کا کہنا ہے کہ وہ نیند میں تھا اس لیے اس سے غلطی ہوئی۔ جبکہ اس کا بلڈ سیمپل بھی ٹیسٹ کے لیے بھجوا دیا ہے تا کہ اگر وہ کسی نشہ آور چیز کے زیرِ اثر تھا تو پتا چل جائے۔۔۔۔۔لیکن میری چھٹی حِس کہہ رہی ہے کہ یہ کام اس سے کروایا گیا ہے۔ اس کے فون کی ہسٹری بھی میں نے نکلوا لی ہے، ایک نمبر مجھے مشکوک لگ رہا ہے۔ یہ نمبر اس کے ایک پرانے ساتھی بوبی کا ہے جو تمھارے آگ والے کیس میں انوالو تھا۔ ہو سکتا ہے یہ اس نے تم سے بدلہ لینے کے لیے کیا ہو اور اس میں کوئی اور بھی انوالو ہو سکتا ہے۔ تمھیں کسی پہ شک ہے یا حال ہی میں کسی نے کوئی دھمکی وغیرہ دی ہو؟” کمال واسطی کی بات سن کے یاور کے ذہن میں ایک آواز گونجنے لگی تھی۔ اس کے دل نے گمان کرنا چاہا تھا کہ کاش وہ اس سب میں شامل نہ ہو لیکن شک دور کر لینا چاہیے تھا۔ وہ فوراً اٹھا اور کمال واسطی کو مزید کاروائی کا کہہ کر نکل آیا۔ اس کا رخ وشمہ کے گھر کی جانب تھا۔




Post a Comment

Previous Post Next Post