Tarbiyat By Kainat Amna

Tarbiyat By Kainat Amna

Tarbiyat By Kainat Amna

Novel Name : Tarbiyat
Writer Name: Kainat Amna
Category : Short Story
Novel status : Complete
Kitab Nagri start a journey for all social media writers to publish their writes.Welcome To All Writers,Test your writing abilities.
They write romantic novels,forced marriage,hero police officer based urdu novel,very romantic urdu novels,full romantic urdu novel,urdu novels,best romantic urdu novels,full hot romantic urdu novels,famous urdu novel,romantic urdu novels list,romantic urdu novels of all times,best urdu romantic novels.
Tarbiyat By Kainat Amna is available here to download in pdf form and online reading.
Click on the link given below to Free download Pdf
Free Download Link
Click on download
give your feedback

تربیت

کائنات آمنہ


یہ ایک مارننگ شو کے انٹرویو کا منظر تھا۔ایک بنی سنوری عورت کیمرے کے سامنے کھڑی اپنا اور اپنے شو کا تعارف کروا رہی تھی۔ہائی لائٹڈ بھورے بال شانو پر کھلے چھوڑے وہ سرخ کپڑے زیب تن کئے بہت پراعتماد نظر آ رہی تھی۔شو کا تعارف ختم ہوا تو وہ آج کی مہمان خصوصی کا تعارف اپنے ناظرین سے کروانے لگی "جی تو ناظرین ہماری آج کی مہمان ہیں بہت ہی مشہور و معروف موٹیویشنل اسپیکر اور ماہر نفسیات ڈاکٹر رائمہ چوہدری!کیسی ہیں آپ؟" میزبانی کرسی پر بیٹھتی میزبان نے اپنا رخ دائیں طرف صوفے پر بیٹھی مہمان کی طرف کیا۔"جی الحمدللہ میں بلکل ٹھیک ہوں!" نیلے کپڑوں پر سفید حجاب کئے رائمہ نے مسکراتے ہوئے اپنی خیریت کا بتایا۔


"میں نے سنا ہے کہ آپ کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا ہے تو ہمارے پاس بھی عوام کے چند سوالات پہنچے ہیں جو وہ آپ سے پوچھنا چاہتی تھی ہمارے پروگرام کے ذریعے سے,تو وقت نا ضائع کرتے ہوئے میں آپ سے سوال پوچھتی ہوں۔میرا پہلا سوال ہے سیکھنا کیوں ضروری ہے,یہ ہماری زندگی پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟" میزبان خوش گفتار لہجے میں رائمہ سے اتفسار کرنے لگی۔"میں اس سوال کا جواب ایک مثال کے ذریعے دیتی ہوں۔آپ نے بہت سی مشینیں دیکھی ہو گی۔اب مشینوں کے ساتھ کیا ہے نا وہ جب تک چلتی رہتی ہیں ٹھیک رہتی ہیں لیکن زیادہ عرصے تک بند پڑی رہے تو خراب ہو جاتی ہے میرے تجربے کے مطابق,تو انسانی دماغ بھی مشین کی طرح کام کرتا ہے۔انسان جب تک کسی کام میں مصروف رہتا ہے ہشاش بشاش رہتا ہے۔جونہی وہ زیادہ عرصے تک فارغ رہے اس کا دماغ منفی خیالات کا بسیرا بن جاتا ہے اور منفی اثرات آہستہ آہستہ انسان کو بہت سی بیماریوں سے گھیر لیتے ہیں۔اب سیکھنا اس لئے ضروری ہے کہ انسان ایک کام سے بہت جلد اکتا جاتا,اس کے دماغ کو مستقل مزاج نہیں بنایا گیا۔اسی لئے انسان کو نئی نئی چیزیں سیکھتے رہنا چاہئے تاکہ وہ بوریت کا شکار نا ہو اور دوسری طرف سیکھنے سے اس کے علم اور تجربے میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔امید ہے آپ کو سوال کا جواب مل گیا ہو گا" رائمہ نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔


"جی بہت عمدہ طریقے سے آپ نے ہمیں سمجھایا ہے۔میں متاثر ہو رہی ہوں آپ سے بہرحال اگلے سوال کی طرف چلتے ہیں۔ہر انسان کوئی بھی کام کسی مقصد کے تحت کرتا ہے,آپ کا سیکھنے کا کیا مقصد ہے؟" میزبان رائمہ کی تعریف کرتے ہوئے اگلے سوال کی طرف بڑھی۔بلکل ٹھیک کہا آپ نے کہ انسان کام کسی مقصد کے تحت کرتا ہے کیونکہ مقاصد ہی انسان کو کامیاب بناتے ہیں۔جتنا بڑا مقصد,اتنی ہی بڑی کامیابی۔اب میرا کچھ بھی سیکھنے  کے پیچھے کا مقصد ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے انسانیت کی بھلائی اور اللہ کی رضا۔ہم اس دنیا میں رب کو راضی کرنے کے لئے آئے تھے اسی لئے میرا پہلا مقصد تو یہی ہے اور ہر انسان کا مقصد یہی ہونا چاہئے خواہ وہ بہت زیادہ پیسے کمانا چاہتا ہو تو دماغ میں یہ بات ہونی چاہئے کہ میں یہ پیسے لوگوں کی مدد کے لئے استعمال کرو گا تاکہ میرا رب مجھ سے راضی ہو۔آپ کوئی بھی علم حاصل کر رہے ہیں تو سوچ یہی ہونی چاہئے کہ اس علم سے میں لوگوں کی راہنمائی کرو گی تاکہ میرا رب مجھ سے راضی ہو اور دنیا میں جو بھی انسان جو بھی کام کر رہا ہے اس کے پیچھے مقصد رضائے الہٰی ہونا چاہئے تاکہ دنیا کے ساتھ آخرت بھی سنور جائے" رائمہ نے زندگی کا سب سے خوبصورت فلسفہ لوگوں کے ساتھ بانٹا۔


"ما شا ء اللہ! آپ کی سوچ اور مقصد دونوں ہی بہت نیک ہیں۔اللہ تعالی ہر انسان کو اس مقصد کو اپنانے کی توفیق دے۔آمین! ہم اپنے اگلے سوال کی طرف بڑھتے ہیں۔شعور کے لئے علم حاصل کیا جاتا ہے لیکن کیا ہم واقعی شعور حاصل کرنے کے لئے اپنے بچوں کو سکول بھیجتے ہیں؟" میزبان نے آج کے شو کا سب سے اہم سوال پوچھا۔


"مجھے نہیں لگتا کہ ہمارے آج کل کے ماں باپ کا یہ مقصد ہے۔ہم نے بچوں کو سکول بھیجنے کا ایک ٹرینڈ بنا دیا ہے اور ہمارے ماں باپ بس اس ٹرینڈ کو فالو کر رہے ہیں۔چونکہ سب اپنے بچوں کو سکول بھیجتے ہیں تو وہ بھی بھیج دیتے ہیں اور دوسرا مقصد ماؤں کا اپنے بچوں سے جان چھڑانا بھی ہوتا ہے بھلا تین چار سال کا بچہ سکول جا کر کونسا شعور حاصل کر لے گا۔انسان کی پہلی درسگاہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے لیکن ہماری ماؤں کو وقت کہاں ملتا ہے کہ وہ اس درسگاہ سے بچوں کو مستفید بھی کرائے۔اس میں غلطی ماؤں کی نہیں ہے ہمارے نظام اور معاشرے کی ہے۔ہم عورت سے اس کے اصل کام کے علاوہ ہر کام لیتے ہیں۔اسلام نے عورت کو صرف ایک کام سونپا تھا بچوں کی اچھی تربیت کرنا,انہیں اچھے اخلاق سکھانا اور انہیں اسلام کا چلتا پھرتا عملی نمونہ بنانا۔لیکن ہم کیا کرتے ہیں ہم دنیاوی علم کے لئے بچے کو سکول بھیج دیتے ہیں اور دینوی علم کے لئے مدرسوں میں اور ہماری مائیں بچوں سے پوچھتی تک نہیں ہیں کہ انہوں نے سارا دن میں کیا سیکھا اور جو سیکھا اس پر عمل بھی کر رہے ہیں یا نہیں۔علم عمل کے بغیر ادھورا ہوتا ہے یا پھر میں یہ کہوں کہ اصل شعور علم کو عمل میں لانا ہی ہے تو غلط نہیں ہو گا۔


ہمیں اپنے بچوں کو با شعور بنانے کے لئے ہماری عورتوں کو ان کا اصل مقصد سمجھانا ہو گا اور انہیں ایک پرسکون زندگی دینی ہو گی تاکہ وہ اپنا سارا دھیان ہمارے مستقبل کے معماروں پر دے سکے۔اگر عورت سارا دن کام کر کے تھک جائے گی تو وہ بچوں کی تربیت کرنے کی بجائے اپنی فرسٹیشن بچوں پر نکالے گی تو خدارا عورت کو اس کا اصل کام کرنے دے۔میں یہ نہیں کہہ رہی کہ وہ گھر کے کام نا کرے,کرے لیکن اتنا جتنا وہ اور اس کا جسم با خوشی برداشت کر سکتا ہے۔عورت کو مشین مت سمجھے ورنہ معاشرے کو مشینوں کے ہاتھوں سے پلے ہوئے غیر سنجیدہ نوجوان تو ملے گے مگر ایک تربیت یافتہ نسل نہیں ملے گی" رائمہ اپنا تجزیہ پیش کر کے خاموش ہو گئی۔


"بلکل ٹھیک کہا آپ نے کاش ہمارا معاشرہ بھی یہ بات سمجھ جائے۔اتنی پیاری باتیں کرتے ہوئے وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔شو کا وقت ختم ہو چکا ہے تو ناظرین ہم آپ سے کل ملے گے اسی وقت اسی شو کے ساتھ تب تک کے لئے اللہ حافظ!"میزبان نے جیسے ہی شو کے آخری کلمات بولے کیمرہ بند ہو گیا۔       

ختم شد

Post a Comment

Previous Post Next Post