Mujhy Tum Per Fakhar Hai By Sehar Sarfraz

Mujhy Tum Per Fakhar Hai By Sehar Sarfraz

Mujhy Tum Per Fakhar Hai By Sehar Sarfraz

Novel Name : Mujhy Tum Per Fakhar Hai
Writer Name: Sehar Sarfraz
Category : Short Story
Novel status : Complete
Kitab Nagri start a journey for all social media writers to publish their writes.Welcome To All Writers,Test your writing abilities.
They write romantic novels,forced marriage,hero police officer based urdu novel,very romantic urdu novels,full romantic urdu novel,urdu novels,best romantic urdu novels,full hot romantic urdu novels,famous urdu novel,romantic urdu novels list,romantic urdu novels of all times,best urdu romantic novels.
Mujhy Tum Per Fakhar Hai By Sehar Sarfraz is available here to download in pdf form and online reading.
Click on the link given below to Free download Pdf
Free Download Link
Click on download
give your feedback

 مجھے تم پر فخر ہے

سحر فراز


اس کی تقریر پر لوگ تالیاں بجاتے نہ تھکتے تھے۔

عمر اپنے کالج کا بہترین مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا طالب علم بھی تھا۔۔

آ ج بھی اسکی تقریر کرنے کا ہمیشہ کی طرح وہی پر جوش انداز  تھا

وہ گویا ہوا ۔۔

 صدر محترم اور میرے قابل احترام استاتذہ۔۔۔

سیاست بچوں کا کھیل نہیں ہے کہ اسے کسی کے بھی ھاتھ میں دے دیا جائے ۔۔

میرا ماننا ہے کہ سیاست ایک تباہی ہے،

ایک ظلم ہے،

تشدد ہے،جہالت ہے،

بربریت ہے،

سیاست ایک خود غرضی ہے،

جس میں ہر کوئی اپنے مفاد کے بارے سوچتا ہے اپنا بیلنس بناتا ہے اور چلا جاتا عہدے سے اتار بھی دیا جائے تو کوئی فائننشلی ایشوز نہیں ہوتے ۔۔

اک سیاست دان ہمیشہ اپنے بارے میں سوچتا ہے کہ کون سا پتا کہاں اور کب کھیلنا ہے کی اسے فایدہ ملے۔۔

تالیوں کی گونج میں اسکی آ واز دب گئی تھی۔

اس کی تقریر نے ایوان پر سحر طاری کر دیا ۔۔

جب انعامات دینے کا اعلان ہوا تو اسی کا نام سر فہرست پکارا گیا ۔۔

مہمان خصوصی چودھری نزاکت نے انعام رہتے ہوئے اسکی پیشانی چوم لی۔۔

اسکی حوصلی افزائی کی اور اسکو اپنا وزیٹنگ کارڈ تک دے دیا کہ کسی دن آ فس آ کر ملو۔۔۔


دراصل چودھری صاحب ایک بہت بڑے زمین دار ہونے کے علاؤہ علاقے کے  MPA     بھی تھے ۔۔

یہ ہمیشہ سے ہوتا آ یا ہے کی تعلیمی اداروں میں سیاسی لیڈروں کو بلایا جاتا ہے جس سے تعلیمی اداروں کو معاشی فائدے حاصل ہوتے ہیں وہیں ان لیڈروں کو دانے بھی مل جاتے ہیں۔۔

عمر بہت ہی خوش تھا اس کے نزدیک ویزیٹنگ کارڈ کی اہمیت گرین کارڈ سے کم نہ تھی ۔۔

عمر اپنی بیوا ماں کا اکلوتا بیٹا تھا ۔اک چھوٹے سے دو کمروں کے گھر میں رہتے تھے اسکی ماں سکولل میں ٹیچر تھی۔۔

پچھلے سال بھی وہ انٹر کے امتحان میں پورے ضلع میں اول آ یا تھا ۔

ہمیشہ کی طرح آ ج بھی وہ انعام لے کر ماں کے قدم بوسی کے لیے گھر پہنچا۔۔

اسکی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کی وہ اتنے پیار اور اس کارڈ کے بارے ماں سے کس طرح ذکر کرے۔ اسنے کھانا کھاتے ہوئے بڑے فخر سے ماں کو بتایا ۔ماں کے خاموشی اور تاثرات دیکھ کر وہ چپ ہوگیا۔۔

دیکھو بیٹا یہ جو سیاست دان ہوتے ہیں نا یہ اتنے سیدھے ہوتے نہیں جتنے دیکھائی دیتے ہیں تمہاری اس دن کی تقریر میں ایسا کیا لگا چودھری صاحب کو کہ اس نے تمہیں اپنے آ فس میں بلا لیا

تم نے تو سیاست دانوں کے خلاف ہی بات کی تھی یہاں تک میرا خیال ہے۔۔

یہ تمہیں ایک سکے کی طرح استعمال کریں گئے بیٹا اور انہیں تم سے کیا مفاد ہو سکتا ہے۔۔۔

اب تم اسے ملنے جاؤ گئے اپنا نظریہ بدل رہے ہو ۔۔۔


ماں مجھے تو ہر حال میں کل ہی  جانا ہے آ فس ہو سکتا ہے میرے حق میں یہ بہتر ہو۔۔۔

عمر کی ماں سمجھ چکی تھی کہ یہ اب نہیں رکنے والا جس عمر میں وہ تھا اس عمر میں بچے جو سوچتے اور سمجھتے ہیں وہی ٹھیک لگتا ہے۔۔۔

گریجوئیشن کا طالب علم ہونے کے باوجود اب وہ پہلے کیطرح پڑھائی میں توجہ میں دے رہا تھا۔۔

اکثر رات کو دیر سے گھر  آ تا۔۔ بوڑھی ماں سارا دن کی تھکی ہوئی دیر تک بیٹھ کر انتظار کرتی رہتی ۔۔

ایک دن سکول میں بیٹھے اچانک اخبار کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک دن پہلے ہوئے چودھری  نزاکت کے جلسے کی خبروں پر نظر پڑی اور نیچے تصویر میں چودھری صاحب کے پیچھے گن ہاتھ میں لئے  کھڑا عمر نظر آ یا۔۔۔

عمر یہ کیا ہے بیٹا تم نے چودھری نزاکت کی چوکیداری شروع کر دی ۔۔

گھر آ تے ہی ماں نے پوچھا۔۔

چوکیداری نہیں ماں اسے گن مین کہتے ہیں

میں انکا خاص بندہ ہوں جیسے سمجھو انکا بیٹا ۔۔۔

ماں فکر نہ کر میں بہت خوش ہوں یقین مانو اماں جب میں چودھری کے ساتھ پجارو میں بیٹھتا ہوں تو سب جلتے ہیں مجھ سے حسد کرتے ہیں ماں۔۔

بیٹا ہم روکھی سوکھی ہی میں خوش ہیں ۔۔

نہیی ماں اب ہم روکھی سوکھی کیوں کھائیں گئے۔۔اب ہمارے دن بدلنے والے ہیں۔۔۔

میں نے خود چوھدری نزاکت کو اپنے بندوں سے کہتے سنا ہے کہ عمر ہماری پارٹی کا بہت اہم اور طاقت ور مہرہ ہے۔۔۔

میرے لعل تم اکیلے کیا کرو گئے؟

میں اکیلا نہیں ہوں ماں بہت سے امیر لوگ میرے ساتھ ہیں ۔

سیاست میں کوئی کسی کا نہیں ہوتا سب ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں ایک دوسرے کو تکلیف میں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ۔۔

اپنے ماں پر رحم کرو بیٹا لوٹ آ ؤ۔۔۔۔

پتا نہیں وہ راستے کا مسافر بن کر کیوں فخر کر رہا تھا ۔۔۔


کچھ ہی دنوں بعد جلسہ ہونے جا رہا تھا  جس میں پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا تھاچودھری کے پیچھے عمر گن سنبھال کر چاک و چوبند کھڑا تھا کہ اچانک ہی اک طرف سے گن سے گولی چلنے کی آ واز آ ئی اس سے پہلےچودھری کو گولی لگتی عمر نے ان پر خود کو گرا لیا ۔تھوری ہی دیر میں عمرخون  میں لت پت پڑا تھا۔ اسکی قربانی چودھری کے کام آ گئی تھی ۔

ان کی حصے کی گولی عمر کو لگ گئی تھی۔۔۔

ہسپتال میں ہوش آ یا تو عمر کو پتا چلا کہ وہ ایک ٹانگ سے معذور ہو چکا ہے ۔۔

اماں تم دیکھنا میری قربانی رائگاں نہیں جائے گی چودھری صاحب ضرو آ ئیں گئے اور میری بہادری سے خوش ہوں گئں اور مجھے داد دیں گئے ۔۔۔ ماں تمہارا ڈوپٹہ میلا لگ رہا ہے مجھے اسے بدل کہ آ نا ضرور میڈیا والے ہماری فوٹو بھی بنائیں گئے۔۔۔


انکے بندے کہ رہے تھے وہ کل  کو آئیں گئے مجھے دیکھنے ۔۔

اگلا سارا دن گزر گیا شام ہوگئی ۔۔۔

آ پکو تو بخار ہو رہا ہے ۔۔

نرس نے چیک کرتے ہوئے کہا۔۔

نہیں نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں ابھی چودھری صاحب آ نے والے ہونگے۔۔

اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی دیکھانا۔ وہ آ گئے مجھ سے ملنے۔۔

نرس اندر آ ئیں اور ہاتھ میں پھول اور ایک لفافہ تھا ۔۔

چودھری کا بندہ دے گیا ہے کہتا وہ مصروف ہیں ۔۔

دیکھ ماں لفافے میں کیا ہے ۔۔ اسے لگا اسے اپنی قربانی کا صلہ مل رہا ہے

ادھر مجھے دے میں دیکھتا ہوں ۔

لفافہ کھلا تو اس میں ایک کاغذ  کے سوا کچھ نہ تھا جس پر بڑھے نمایاں سنہری  حروف میں چوھدری نزاکت MPA  لکھا ہوا تھا ۔۔

اور  کچھ نیچے  چودھری کے ہاتھوں سے اسے پانچ لفظوں میں خراج تحسین پیش کیا گیا تھا۔۔یہی اسکی قربانی کا صلہ تھا

لکھا تھا۔۔

I am proud of you.......


اس نے جو راہ چنی تھی۔۔

سوائے خسارے کی کچھ نہیں تھا۔۔۔۔

The end 🔚


Post a Comment

Previous Post Next Post