Naik Nami By Sehar Sarfraz

Naik Nami By Sehar Sarfraz

Naik Nami By Sehar Sarfraz

Novel Name : Naik Nami
Writer Name: Sehar Sarfraz
Category : Short Story
Novel status : Complete
Kitab Nagri start a journey for all social media writers to publish their writes.Welcome To All Writers,Test your writing abilities.
They write romantic novels,forced marriage,hero police officer based urdu novel,very romantic urdu novels,full romantic urdu novel,urdu novels,best romantic urdu novels,full hot romantic urdu novels,famous urdu novel,romantic urdu novels list,romantic urdu novels of all times,best urdu romantic novels.
Naik Nami By Sehar Sarfraz is available here to download in pdf form and online reading.
Click on the link given below to Free download Pdf
Free Download Link
Click on download
give your feedback

نیک نامی

سحر فراز


وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے سب کو بے قراری سے دیکھ رہی تھی۔۔

کیوں نہ ہو،اس کے سامنے جوان شوہر کی لاش خون سے لے پت پڑی تھی۔

چارپائی کے نزدیک اور لوگوں کے بیج اس کے اس پنے معصوم بچے کبھی ماں کی طرف اور کبھی باپ کی طرف حیرت زدہ نگاہوں سے تک رہے تھے۔

جی اس ے وہ یہ سوچ رہے ہوں کہ یہ کیا ہوگیا اور کیا ہو رہا ہے۔

۔لوگ کیوں ہمارے گھر میں جمع ہیں

اور ہماری ماں کیوں زارو قطار رو رہی ہےاور کوئی اسے چپ کروانے والا بھی نہیں ہےاور یہ ہمارے بابا کو کیا ہو گیا ہے جو چارپائی پر لیٹا ہوا ہے؟

یہ خون کہاں سے نکل رہا ہے اور کیوں؟


ماں کو چھو چھو کر وہ اسے جیسے چپ کروانے کی کوشش کر رہے تھے مگر ماں کو تو اپنا کوئی ہوش ہی نہیں تھا اور ہوش ہوتا بھی کیسے۔۔۔۔۔ کتنا اچانک یہ سب کچھ ہوگیا تھا ۔

 

گل بانو چار بہنوں میں دوسرے نمبر پر تھی۔۔

اللّٰہ مہربان ہوا اور اس کی شادی جلد ہو گئی۔۔

وہ خاندان ہی کا ایک خوبصورت نوجوان تعلیم یافتہ،اچھی پوزیشن والا سرکاری ملازم تھا۔۔

سکول ٹیچر تھا مگر ان کا گھرانہ چونکہ قناعت پسند تھا اس لئے تنخواہ سے ان کا اچھے طریقے سے گزارہ ہو رہا تھا ۔

اللّٰہ نے چار بچوں سے بھی نوازا تھا دو بیٹے اور دو بیٹیاں ۔۔۔۔۔

بڑی بیٹی چہارم میں اور چھوٹی کلاس دوم میں پڑھتی تھی۔۔

بیٹے چھوٹے تھے ۔


اس روز ہر روز کی طرح صبح ہوئی۔سب گھر والے ناشتے سے فارغ ہوئے۔۔۔بچے سکول کی تیاری میں لگے ہوئے تھے۔ کہ نیچے سے تہہ خانے سے فائیر کی آواز آئی۔۔۔

گل بانو بھاگی ،نیچے جا کر دیکھا، وہ منظر اس سے برداشت نہ ہو سکا۔۔

الٹے پاؤں پھر بھاگی اور اوپرآکر اپنی ساس سے اشاروں سے بات کرنے لگی اور نیچے کی طرف دیکھنے لگی۔۔

ساس جو کہ کافی بوڑھی تھیں ، بڑی مشکل سے اس کے اشارے سمجھ سکی۔۔۔

اس نے شور مچانا شروع کر دیا جیسے کوئی چور آ گیا ہو۔۔۔

پڑوسی بھاگ کر آ ئے،آ کر دیکھا تو بہرام ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔۔۔

پستول اس کے ہاتھ میں تھا جو ایک طرف پڑا ہوا تھا۔۔۔۔

لاش خون میں لت پت تھی۔۔۔


اس کے بھائیوں کو اطلاع دی گئی،سب حیران پریشان تھے کہ یہ کیا ہو گیا اور کیسے ہوگیا؟

وہ لاش کو اوپر لائے۔


گل بانو نے لاش کو دیکھا اور خوف ناک چیخ ماری اور لاش کے ساتھ لپٹ گئی اور پھر چارپائی کے ساتھ لگ کر زمین پر بیٹھ گئی۔۔


یہ سب حالات کچھ اس تیزی کے ساتھ رونما ہوئے کہ کوئی کچھ نہ کر سکا اور کوئی کر بھی کیا سکتا تھا؟

گولی کنپٹی پر ماری گئی تھی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا تھا۔


لوگ بہرام کو ہسپتال لے کر گئے تو خود کشی کا کیس کہہ کر لاش کو واپس کر دیا گیا۔۔

کفن دفن کا انتظام ہونے لگا۔

گھر میں ایک کہرام مچ چکا تھا۔

گویا قیامت آئی اور گزر گئی۔۔

بہرام قبر کے اندھیرے میں اتر گیا۔

خود وہ سکون کی تلاش میں تھا،اسے مل گیا مگر گل بانو اور اپنے بچوں کے لئیے ایک نا ختم ہونے والا عذاب چھوڑ گیا۔۔


گل بانو کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اب کیا کرے گی۔

کوئی راستہ بھی اس کو سجھائی نہیں دے رہا تھا۔اس کے سامنے سیاہ رات کا اندھیرا تھا۔

اندھیرے میں کسی کرن کی روشنی نہیں تھی۔

کوئی کندھا اسے نہیں مل رہا تھا جس پر وہ سر رکھ کر جی بھر کر رو لیتی اور ذہن کا غبار نکال سکتی۔

دلاسہ دینے والے تو تھے مگر کوئی سچا غم خوار نہ تھا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بہرام ایک مخلص استاد تھا۔

اسے قوم کے سب بچے بہت عزیز تھے

سب کے لئیے وہ یکساں سوچ رکھتا تھا

سب بچوں کو چاہتا تھا اور ان کو نیکی اور نیک راہ پر چلنے کی تلقین کرتا تھا۔

اسے قوم کے لئیے ایک صحتِ مند معاشرے کی چاہت تھی۔

وہ بچوں کو ایک ذمےدار شہری بنانا چاہتا تھا۔

بد نظمی اور بے اصولی کے وہ سخت خلاف تھا۔

اس کی ڈیوٹی شہر کے ایک امتحانی ہال پر لگی۔

لوگوں نےاس بار امتحانات میں اسے رشوت دینے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے ۔

اسی ہا ل میں شہر کے نامی گرامی بدمعاش کا بیٹا امتحان دے رہا تھا۔

پہلے کوشش کی کہ بہرام کسی طرح راضی ہو جائے اور اس کی مدد کے لیے تیار ہو جائے۔

مگر بہرام نے ایک نہ مانی،اسے نقل کے لئیے نہ چھوڑا۔

ظاہر ہے لڑکے نے پیپر اچھے نہیں کئے۔

اس کی ذمے داری بہرام پر آ ئی،سب غصے سے آگ بگولہ ہو رہے تھے۔


پھر ایک دن بھرے بازار میں ان کو موقع ملا۔

بہرام کو پکڑ ا اور سب کے سامنے بے عزت کر ڈالا۔

ساتھ ہی اس پر رشوت کا الزام بھی لگایا کہ اس نے رقم لے کر سب بچوں کو نقل کروائی ۔

دو تین گواہ بھی پیدا کر لئیے

بہرام اپنی نظروں میں گر گیا۔

ساری دنیا اسے گھومتی ہوئی نظر آئی۔

ایک ایسے شخص پر الزام لگایا جارہا تھا جس کے ھاتھوں کئیے ہیرے تراشے گئے تھے۔

تعلیم دیتا اور بعض کی تو فیس بھی اپنی جیب سے ادا کرتا تھا۔

مگر خوش رہتا۔

اسے کیا چاہئے تھا، عزت کی وہ نگاہ جس سے لوگ اس کی طرف دیکھتے تھے۔مگر اب تو وہ بھی نہ رہی۔

وہ جیسے زمین میں گڑا جا رہا تھا۔

ماتھے پر پسینہ چمک رہا تھا،چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔انہوں نے اسے گریبان سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔

اس کا سارا وقار جسے اس نے بڑی محنت سے بنایا تھا،زمین بوس ہوگیا۔

اسے جیسے اپنے وجود سے گھن سی آنےلگی۔

وہ نہ جانے کیسے گھر پہنچا اور دھڑام سے چارپائی پر گر پڑا۔

قوم کے اس بے غرض فرد کو اتنی آسانی سے بے عزت کر دیا گیا،کوئی دیر نہ لگی۔

ساری رات وہ سوچتا رہا کہ میں نے زندگی میں کیا کمایا،

وہ بہت زیادہ دولت نہ کما سکا تھا،عزت اور نیک نامی ہی کمائی تھی لیکن آج ایک دولت مند بدمعاش اس سے آگے نکل گیا۔

کسی نے اس کے دل میں نہ جھانکا کہ اس کے کتنے ٹکرے ہوئے اور ان میں سے کس طرح خون رِس رہا تھا۔

لوگوں نے زخم پر نمک چھڑکنا شروع کر دیا تھا،باتیں شروع ہو گئیں، اس نے گھر سے نکلنا چھوڑ دیا ۔۔

گل بانو اس کے لئے پریشان تھی۔۔

اس سے  بھی وہ دل کا حال نہ بیان کر سکا کہ اس سچائی کے سوداگر کے ساتھ کیا ہوا۔

اس نے پریشانی کا ایک ہی حل سوچا کہ اس دنیا کو چھوڑ دے اور چپکے سے اس نے یہ فیصلہ کر لیا۔۔


اپنے بیوی بچوں کو اللّٰہ کے حوالے کر کے وہ اپنا یہ داغ دھونا چاہتا تھا مگر اس کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ یہ داغ تو اس کی موت کے ساتھ اور پختہ ہو جائے گا۔

اور کبھی بھی نہ مٹنے والا رنگ لائے گا۔

ساری عمریہ داغ اس کے خاندان کے لئیے کلنک کا ٹیکہ بن جائے گا۔

اس کی بیوی کی نگاہوں کے ادھورے پیغام پڑھ کر میں گھر لوٹ آ ئی،اور ساری رات سوچتی رہی اس قوم کا کیا بنے گا جس کو صحیح رہنما کی رہنمائی منظور نہیں۔

یہ بگڑا ہوا معاشرہ کس طرح سنورے گا؟


زندگانی ہے صدف،قطرہ نیساں ہے خودی

وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر کر نہ سکے

ہو اگر خودنگر و خودگر و خود گیر خودی

یہ بھی ممکن ہے کہ توں موت سے بھی مر نہ سکے۔۔۔۔۔


ختم شد۔۔۔۔۔

Post a Comment

Previous Post Next Post